فلم ’پٹھان’ کا ریکارڈ توڑنے والی ’آدی پُرُش‘ تنازعات میں کیوں گھری ہوئی ہے؟

ویب ڈیسک

بالی وُڈ کی ریلیز ہونے والی نئی فلم ’آدی پُرُش‘ نے رواں سال کی آل ٹائم بلاک بسٹر فلم ’پٹھان‘ کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق ایسا لگ رہا ہے کہ ’آدی پُرش‘ رواں سال کی بڑی ہٹ فلم بننے جا رہی ہے

اپنی ریلیز کے دوسرے دن یعنی ہفتے کو فلم نے دنیا بھر سے سو کروڑ روپے کمائے، جس کے بعد فلم کی مجموعی آمدن 240 کروڑ بھارتی روپے ہو گئی ہے

اس کے مقابلے میں شاہ رخ خان کی فلم پٹھان نے اپنی ریلیز کے پہلے دو روز میں 219 کروڑ روپے کمائے تھے

پانچ ارب روپے کی لاگت سے بننے والی مہنگی ترین بھارتی فلموں میں سے ایک ’آدی پرش‘ نے اگرچہ جمعے کو ریلیز کے پہلے ہی دن دنیا بھر سے 140 کروڑ روپے کمالیے تھے لیکن ناقدین اور شائقین کو اس فلم میں ہندوؤں کی مذہبی کتاب رامائن کی کہانی کو ’توڑ مروڑ‘ کر پیش کرنے پر اعتراض ہے

بھارتی سنیما کی کامیاب ترین فلم سیریز ’باہوبلی‘ کے ہیرو پربھاس نے اس فلم میں رام کا مرکزی کردار ادا کیا ہے جب کہ کریتی سینن سیتا، سیف علی خان راون اور سنی سنگھ لکشمن کے کرداروں میں نظر آئے ہیں

یوں تو فلم ہندوؤں کی مذہبی کتاب رامائن سے ماخوذ اساطیر ہے، جس میں رام اپنی بیوی سیتا کو چھڑانے کے لیے راون سے مقابلہ کرتا ہے، لیکن فلم بینوں کو ’آدی پرش‘ کی کہانی، کرداروں، ان کے کپڑوں، مکالموں اور سب سے بڑھ کر اس میں استعمال ہونے والے ویژیول ایفیکٹس کی زیادتی پر اعتراض ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی شہر حیدرآباد دکن کے ایک سنیما کے باہر اداکار پربھاس کے مداحوں نے ایک فلم بین کی اس وقت پٹائی کر دی، جب اس نے فلم اور اس میں پربھاس کی اداکاری دونوں کو برا قرار دیا

ادھر نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے سنیما گھروں میں ‘آدی پرش’ کی نمائش پر پابندی عائد کردی گئی ہے

کھٹمنڈو کے میئر بالین شاہ نے ٹوئٹر کے ذریعے پروڈیوسرز کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے فلم میں سیتا کی جائے پیدائش کی غلطی کو درست نہ کیا تو وہ دارالحکومت میں کسی بھی بھارتی فلم کو نمائش کی اجازت نہیں دیں گے

کھٹمنڈو کے میئر نے ٹوئٹ میں کہا ”فلم کے ٹریلر میں کہا گیا ہے کہ ’سیتا بھارت کی بیٹی ہے‘ جب کہ سیتا دراصل نیپال کی بیٹی تھی، جس کی رامائن کے مطابق پیدائش نیپال کے علاقے جنک پور میں ہوئی تھی، اس لیے اگر یہ غلطی درست نہ کی گئی تو اس سے نیپالیوں کے جذبات مجروح ہونے کا امکان ہے۔“

بلیندر شاہ نے کہا ہے کہ ”اس غلطی کو سدھارنے کے لیے تین دن کا وقت دیا گیا ہے“ فلم کے بنانے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے نیپال میں اس مکالمے کو میوٹ کر دیا ہے

اس معاملے میں نیپال کے سینسر بورڈ نے بھی احتجاج کیا ہے اور کہا کہ اس مکالمے کے ہٹائے جانے کے بعد ہی اس کی رونمائی کی اجازت دی جا سکتی ہے

بھارت میں ہندوؤں کی ایک سخت گیر تنظیم ہندو سینا نے ’آدی پُرُش‘ کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ فلم کو عوامی نمائش کے لیے سند نہ دی جائے

اس پی آئی ایل (مفاد عامہ کی) عرضی میں مسٹر گپتا نے کہا ہے ”اس فلم میں مذہبی رہنماؤں، کرداروں، شخصیات کو برے ڈھنگ سے پیش کیے جانے والے قابل اعتراض مناظر کو ہٹایا جائے اور جواب دہندگان کو ایک رٹ آف مینڈیمس جاری کیا جائے، جس میں انہیں ہدایت کی جائے کہ وہ فیچر فلم آدی پُرُش کو عوامی نمائش کے لیے سرٹیفیکیشن نہ دیں“

بالی وڈ فلموں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہوں یا پھر وہ نوجوان نسل جس کے لیے ہدایت کار اوم روت نے یہ فلم بنانے کا دعویٰ کیا ہے ، سب ہی کو ’آدی پورش‘ سے مسئلہ ہے، کسی کو اس میں رامائن کی بے حرمتی برداشت نہیں تو کسی نے اسے کارٹون فلم قرار دیا

ترن آدرش اپنے تجزیوں کی وجہ سے ایک اتھارٹی مانے جاتے ہیں۔ فلم کے ریلیز ہوتے ہی انہوں نے ٹوئٹر پر صرف لفظ ’مایوس کن‘ لکھ کر فلم کو پانچ میں سے ڈیڑھ نمبر دیے

ان کے خیال میں اس فلم سے شائقین کو جو بہت توقعات تھیں وہ ان پر پورا نہیں اترتی۔ بڑے بجٹ اور اعلیٰ کاسٹ کے باوجود یہ فلم ایک بڑا ’میس‘ ہے

سوشل میڈیا پر بھی اس فلم کے حوالے سے کافی منفی ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک ٹوئٹر صارف نے اس فلم کو رامائن سے ماخوذ نہیں بلکہ مذہبی کتاب کا مذاق قرار دیا ہے

انہوں نے اداکارہ کریتی سینن کی فلم سے ایک تصویر بھی شیئر کی، جس میں وہ بنی ہوئی تو سیتا ہیں، لیکن ان کے بقول ”لگ رہا ہے، جیسے کوئی آئٹم نمبر شوٹ کر کے آئی ہیں۔“

روزی نامی صارف نے بھی شائقین کا ایسا ردِ عمل شیئر کیا، جس میں وہ فلم کی برائی کر رہے ہیں۔ کسی نے اسے ’تین گھنٹے بور کرنے والی فلم‘ قرار دیا تو کسی نے کہا کہ یہ ایک کامیڈی فلم ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اداکار پربھاس کو رام کا کردار ادا کرنے کے لیے کلین شیو ہونا چاہیے تھا نہ کہ مونچھ رکھ کر یہ کردار نبھانا چاہیے تھا

مینک سکسینہ نامی ایک صارف نے لکھا ہے کہ بھگوان رام اور ہنومان کو غصے کے عالم میں پیش کیا گیا۔ ہمارے دیوتاؤں کی شبیہ ہمیشہ پرامن رہی ہے، یہ آر ایس ایس کی سیاست کے لیے کیا گیا

اکشے پٹیل نامی صارف نے بھی نوجوان شائقین کا ردِ عمل شیئر کیا، جس میں وہ فلم ساز کی غلطیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں، جیسے راون کا اپنے ہاتھ سے کتے کو گوشت کھلانا (جس کی ہندو مذہب میں ممانعت ہے)، فلم میں استعمال ہونے والی زبان اور سب سے بڑھ کر کہانی کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا

یاد رہے کہ جب ‘آدی پرش ‘کا ٹیزر گزشتہ سال اکتوبر میں ریلیز ہوا تھا، تب بھی اسے دیکھ کر لوگوں نے اس کے وی ایف ایکس یعنی ویژیول ایفیکٹس پر تنقید کی تھی

مشہور تیلگو اداکار وشنو منچو نے فلم کے ٹیزر پر تنقید کرتے ہوئے اسے لائیو ایکشن فلم کے بجائے اینیمیٹڈ فلم قرار دیا تھا

شائقین کے منفی ردِ عمل کے بعد پروڈیوسرز نے گرافکس کو بہتر کر کے رواں سال متعدد ٹریلر جاری کیے، جنہیں سراہا گیا تھا۔ تاہم فلم کی تیلگو اور ہندی زبان میں نمائش سے، وہ جس قسم کا ردِ عمل چاہ رہے تھے، ویسا ملتا کم نظر آرہا ہے

جمعے کے روز تھری ڈی میں ریلیز ہونے والی یہ فلم غیر رسمی زبان کے باعث شدید تنازعات کا شکار ہے۔ بہت سے لوگوں کو فلم کے ڈائیلاگز پر سخت اعتراض ہے اور وہ سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان میں چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل اور عام آدمی پارٹی کے رہنما سنجے سنگھ سمیت کئی سیاستدان بھی شامل ہیں

عام آدمی پارٹی نے فلم کے مخصوص ڈائیلاگز اور مناظر پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ اِس سے ہندو مذہب کے ماننے والوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں

عام آدمی پارٹی کی جانب سے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر یہ الزام لگایا گیا ہے اس نے اس فلم کو گھٹیا سیاست چمکانے کے لیے بنانے کی اجازت دی ہے

لوگوں کا سب سے بڑا اعتراض لنکا جلانے سے پہلے ہنومان کے کردار کے ڈائیلاگ پر ہے، جس میں وہ کہتے ہیں: ”کپڑا تیرے باپ کا، تیل تیرے باپ کا، آگ بھی تیرے باپ کی اور جلے گی بھی تیرے باپ کی“

فلم کے کچھ اور ڈائیلاگ بھی بحث کا موضوع ہیں۔ ایک منظر میں راون کا ایک راکشس (عفریت) ہنومان سے کہتا ہے ”یہ تیری بوا (پھوپھی) کا باغیچہ ہے کہ ہوا کھانے چلا آيا۔۔“

فلم آدی پُرُش میں استعمال کی گئی زبان کو ’غیر مہذب اور تضحیک آمیز‘ قرار دیتے ہوئے ناظرین سوشل میڈیا پر اپنی شکایات پوسٹ کر رہے ہیں

لوگ اس فلم کا بی آر چوپڑا کے سیریل مہا بھارت سے مقابلہ کر رہے ہیں اور آدی پُرُش کے لکھنے والے منوج منتشر کا مہابھارت کے اسکرپٹ اور ڈائیلاگ رائٹر راہی معصوم رضا سے مقابلہ کر رہے ہیں

ایک طرف لوگ مصنف منوج منتشر کے لکھے گئے مکالموں پر سوال اٹھا رہے ہیں تو دوسری طرف منوج منتشیر مختلف میڈیا چینلز پر اپنی بات کہہ رہے ہیں

منوج منتشر نے اتوار کے روز بیان جاری کیا ہے کہ فلم میکرز نے کچھ ڈائیلاگز کو بدلنے کا فیصلہ کیا ہے اور تبدیل کیے جانے والے ڈائیلاگز رواں ہفتے ہی فلم میں شامل کر دیے جائیں گے

منوج منتشر نے مزید کہا ”کچھ لوگ ایسے ہیں جو فلم کو آج سے نہیں بلکہ پہلے دن سے نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہم نے فلم کو کبھی خالصیت کے پیمانے پر نہیں بیچا۔ ہم نے آج تک یہ نہیں کہا کہ ہم ایسی فلم بنا رہے ہیں جو مستند طور پر وہی زبان استعمال کر رہی ہے جو والمیکی نے لکھی تھی۔ اگر مجھے خالصیت پر جانا ہے تو میں اپنی غلطی مانتا ہوں کیونکہ پھر تو مجھے یہ فلم سنسکرت میں لکھنی چاہیے تھی اور پھر میں نہیں لکھتا کیونکہ مجھے سنسکرت نہیں آتی۔“

جہاں بہت سے لوگوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہیں بہت سے لوگ اسے سراہ رہے ہیں اور فلم میں رام کا کردار نبھانے والے جنوبی بھارت کے سپر اسٹار پربھاس کی تعریف کر رہے ہیں، وہیں لوگ راون کا کردار نبھانے والے سیف علی خان کی خاصی تعریف کر رہے ہیں۔ اس فلم میں کیرتی سینن نے سیتا کا کردار ادا کیا ہے

جوگیندر توتیجا نامی صارف لکھتے ہیں ”آدی پُرُش میں جو اداکار مجھے سب سے زیادہ پسند آئے، وہ سیف علی خان ہیں۔ انہوں نے اپنے تین دہائیوں کے تجربے کو اپنے کردار میں سما دیا ہے، چاہے وہ باڈی لینگویج ہو، چلنا ہو، ڈائیلاگ ڈیلیوری ہو، طنز ہو یا مجموعی شکل ہو۔ یہ آدمی یقینی طور پر کیمرے کے سامنے اپنی زندگی کے اس دور سے بہت لطف اندوز ہو رہا ہے اور میں اسے مزید دیکھنا چاہوں گا!“

سرجیت داس گپتا نامی ایک صارف نے ٹوئٹر پر لکھا ”ایک مخلص مسلمان بدحواس ہندو اوم راوت سے بہتر رامائن بنائے گا، جس نے فلم آدی پُرُش بنائی ہے۔“

واضح رہے کہ بی آر چوپڑا کی مہابھارت کے اسکرپٹ رائٹر راہی معصوم رضا تھے۔ دوردرشن کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل نے مصنف کے مذہب کی وجہ سے احتجاج کیا تھا۔ چوپڑا نے پروجیکٹ کو ڈمپ کرنے کی دھمکی دی۔ جب یہ سیریل مہا بھارت منظر عام پر آیا تو تخلیقی آزادی کے استعمال کی چند مثالوں کو چھوڑ کر۔۔۔ یہ ایک عظیم شاہکار تھا

‘کئی دہائیاں قبل جب نوشاد علی سے پوچھا گیا کہ ’بیجو باورا‘ کے گانے کون لکھے گا تو انہوں نے اپنے پسندیدہ نغمہ نگار شکیل بدایونی کا نام پیش کیا۔ پروڈیوسر ڈائریکٹر وجے بھٹ یقین نہیں کر سکتے تھے کہ موسیقار بھجن لکھنے کے لیے کسی مسلمان کا نام تجویز کرنے کی جرأت کریں گے۔ نوشاد کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ موسیقی آسانی سے ہندوستانی زبان بول سکتی تھی۔ اس کی تمام دھنیں ویسے بھی راگ پر مبنی تھیں۔ نوشاد علی نے بھٹ سے کہا کہ وہ جانچ کر سکتے ہیں کہ بدایونی کیا لے کر سامنے آتا ہے۔ اور انھوں نے لکھا: ”من تڑپت ہری درشن کو آج“ لیکن صرف یہی نہیں، اس گیت کو آواز محمد رفیع نے دی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close