جنگل شہر ہوئے (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

رشید امجد

برگد کا وہ پیڑ، جہاں اس سے ملاقات ہوئی تھی، بہت پیچھے رہ گیا ہے اور شناسائی کی لذت صدیوں کی دھول میں اَٹ کر بدمزہ ذائقہ بن گئی ہے، ملاقات کی یاد۔۔۔ بس ایک دھندلی سی یاد ہے۔ جب وہ اسے کریدنے کی کوشش کرتا ہے تو دور کہیں ایک مدھم سی آواز سنائی دیتی ہے اور اس کے اندر بہت نیچے کوئی چیز لمحہ بھر کے لیے پھڑپھڑاتی ہے، جدائی کا صدیوں پر پھیلا لمحہ ایک آن میں سمٹ آتا ہے، کھنکھتے گھنگھروؤں کی صدا عین اس کے سامنے رک جاتی ہے، مترنم آواز کے ساگر میں کنکری گرتی ہے، گورے ہاتھوں میں پکڑے دودھ کے پیالے سے زندگی بوند بوند اس کے حلق میں اترتی ہے۔ وہ سوکھی انتڑیوں میں پھیلی دانائی سے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھتا ہے۔۔۔ ایک نامعلوم خوشی کاجل بھری آنکھوں سے جھانکتی اور پھر آہستہ آہستہ مسکراہٹ بن کر پھیل جاتی ہے۔

شناسائی کی لذت۔۔۔

’’دکھ اندھیرا جال ہے، جسے خواہش کی مکڑی دھیرے دھیرے بُنتی رہتی ہے، لیکن یہ دکھ ہی تو دنیا ہے۔‘‘

اسی لمحہ میں تو وہ اس پرانی دنیا سے نکل کر نئے جہان میں داخل ہوا تھا۔۔۔ لیکن یہ تو برسوں پرانی بات ہے، اب نہ برگد ہے۔۔۔ نہ دودھ کا پیالہ، جس سے زندگی قطرہ قطرہ اس کی سوکھی انتڑیوں میں اتری تھی۔۔۔ اب یہ سب دور کہیں ایک دھندلا سا عکس ہے، جس سے آگے خلا ہے۔۔۔ نہ ختم ہونے والے فاصلوں کا سلسلہ!

وہ آنکھیں جھپکتا ہے۔۔۔ اسٹیج کے پیچھے نہ ختم ہونے والے فاصلوں کا خلا ہے اور آگے تیز روشنیوں میں وہ دھندلے عکس کی طرح۔۔۔ تماشائیوں کی سیٹیوں، کراہوں اور لذت بھری آہوں کے درمیان زپ کھولتی ہے، زپ کے کناروں سے ہی اس کے گورے بدن کا دریا اچھل کر باہر آتا ہے۔

وہ گلاس اٹھا کر جلدی جلدی گھونٹ بھرتا ہے۔ بل کھاتا کڑوا ذائقہ رقص کرتا اس کی انتڑیوں میں اترتا ہے۔

دودھ کا پہلا قطرہ شناسائی کی لذت، برگد کی گھنی شاخوں میں روشنی پھیل جاتی ہے۔۔۔ غلافی آنکھوں میں پھیلا کاجل سات رنگوں میں بدل جاتا ہے، دور کہیں مور ناچتا ہے،

خواہش بھی تو ایک ست رنگا پرندہ ہے

جو دکھائی دیتا ہے وہ کیا ہے، جو نہیں دیتا وہ کیا ہے؟

تماشائیوں کی سسکاریاں اسے جھنجھوڑتی ہیں۔

اپنے بدن کو ہاتھوں کے پیالے میں سمیٹے وہ اسٹیج کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رقص کرتی ہے۔

اسٹیج کے پیچھے ایک خلا ہے، آگے تماشائیوں کی لذت بھری سسکاریاں ، ایک ہی لمحوں میں کئی جہانوں میں رہنے کی اذیت۔ پلک جھپکتا ہے تو۔۔۔ برگد کا پیڑ، سوکھی انتڑیوں پر لپٹی دانائی میں شناسائی کی لذت، جھکی آنکھوں میں کاجل سرسراتا ہے۔

دوسری پلک جھپکتا ہے تو۔۔۔ تماشائیوں کی لذت بھری سسکاریاں تھرکتی ہیں ، بدن ہاتھوں کے پیالے سے آزاد ہو جاتا ہے۔

کیا موجود ہے، کیا نا موجود؟

حقیقت کیا ہے، تصور کیا ہے؟

روح اور جسم کا رشتہ۔۔۔ جسم تو ہمیشہ نمائش چاہتا ہے۔

اس کی آنکھوں میں ناپسندیدہ تاثر کروٹ لیتا ہے۔۔۔ چائے کی پیالی میز پر رکھتے ہوئے وہ کہتی ہے۔۔۔ ’’تمہاری ذہنی سطح بہت پست ہے، تم فن کو نمائش کہتے ہو۔‘‘

’’فن‘‘ وہ مردہ سی آواز میں دہراتا ہے۔

’’میں نے یہ فن بڑی ریاضت سے سیکھا ہے۔‘‘ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتی ہے۔۔۔

۔۔۔ تماشائیوں کو ایسے لمحہ میں لے جانا جہاں چیزیں ساکت ہو جاتی ہیں ، وقت رک جاتا ہے، زماں و مکاں کا تصور ہی بدل جاتا ہے، ایک جست، لمحہ بھر کی جست، جہاں بدن کی غلاظتیں نیچے رہ جاتی ہیں۔۔۔ میں ، دیکھنے والوں کو ایک لمحہ کے لیے ہی سہی، اس جہان سے نکال کر تصور کی اس دنیا میں لے جاتی ہوں جہاں پہنچنے کے لیے لوگ برسوں برگدوں کے نیچے بیٹھ کر اپنی انتڑیاں سکھاتے تھے اور تم۔۔۔ تم کہتے ہو یہ نمائش ہے۔ وہ کھڑی ہو جاتی ہے۔۔۔ ’’تم بہت چھوٹی سطح پر جی رہے ہو، تم تو اس لمحہ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔‘‘

وہ کھٹ کھٹ کرتی چلی جاتی ہے۔

وہ لمحہ۔۔۔ کیا ہے اس کا تصور؟

برگد کا پیڑ کہاں چلا گیا ہے؟

جنگل اسے پکارتا ہے۔۔۔

توانائی کا ذائقہ۔۔۔ دودھ کا پہلا قطرہ۔

اس کی مردہ سوکھی انتڑیوں میں زندگی کی کونپل مسکرا کر آنکھ کھولتی ہے۔

’’جسم اور دنیا دونوں بے وفا ہیں اور سچ تو ایک جست کے فاصلے پر ہے۔۔۔

۔۔۔ ایک جست جو جسم اور دنیا کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔‘‘

وہ اپنا سر اٹھاتی ہے۔

’’خواہش ایک ناگ ہے جو انسان کو مسلسل ڈستا رہتا ہے، پہلے پہلے آدمی چیختا ہے، پھر یہ نشہ بن جاتا ہے، ڈسوائے بغیر جینا مشکل ہو جاتا ہے، بس یہی سچ ہے۔‘‘

وہ چپ چاپ دونوں ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے۔

خاموشی ایک عبادت ہے۔

جنگل چپ ہو جاتا ہے۔۔۔

ایک گہری چپ، پھر دفعتاً اس چپ میں ایک لذت بھری سسکاری گونجتی ہے۔ وہ گھبرا کر آنکھیں کھولتا ہے۔۔۔ تماشائیوں کی سسکاریوں کا تناؤ ان کے چہروں پر منجمد ہو رہا ہے۔

اذیت یا پہچان؟

وہ ایک ہی سانس میں سارا گلاس خالی کر دیتا ہے، کڑواہٹ ہونٹوں سے حلق کی گہرائیوں تک مچلتی ہے۔

منہ کھولے تماشائی۔۔۔ وہ اپنے فن کے آخری مرحلہ میں داخل ہو گئی ہے، کوئی اس کے وجود کو تیز آلے سے کاٹتا لگتا ہے۔

’’مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ وہ چیختا ہے۔۔۔ ’’اذیت کیا ہے پہچان کیا ہے؟‘‘

تماشائیوں کا سحر ٹوٹ جاتا ہے، وہ نفرت اور بے چینی سے اس کی طرف دیکھتے ہیں۔

شاید یہ اذیت ہی جاننا ہے کہ جانے بغیر دکھ اور سکھ کے لمحے جدا جدا نہیں ہوتے۔

برگد کی چھاؤں میں کیسا سکون ہے؟

’’لیکن یہ سکون زندگی نہیں ، دکھی لوگ خوشی کے ایک ایک لفظ کے لیے ترس رہے ہیں۔‘‘

وہ سر جھکائے اس کے پیچھے پیچھے چلی آتی ہے۔

’’تو تمہارا خیال ہے، میں سر جھکائے تمہارے پیچھے پیچھے چلوں گی۔‘‘وہ قہقہہ لگاتی ہے۔

۔۔۔ ’’تم خاصے بیوقوف ہو۔‘‘

ایک لمحہ خاموشی رہتی ہے، پھر وہ کہتی ہے۔۔۔ ’’میں اگلے ہفتہ یورپ کے دورے پر جا رہی ہوں ، چلوگے؟‘‘

وہ کچھ نہیں کہتا، بس چپ چاپ اسے دیکھے جاتا ہے۔

’’تم اپنی چھوٹی سی دنیا سے نکلنا نہیں چاہتے۔‘‘ وہ کھڑی ہو جاتی ہے۔۔۔ ’’مجھے پاسپورٹ آفس جانا ہے۔‘‘

چھوٹی سی دنیا میں گم نام ہو جانے کا بھی تو ایک اپنا ذائقہ ہے۔

اور وہ جاننا۔۔۔ وہ سفر وہ سب کیا ہوئے؟

یہ حقیقت ہے یا تصور؟

معلوم نہیں یہ موجود ہے یا نا موجود؟

اور برگد کا پیڑ تو بہت پیچھے رہ گیا ہے اور جاننے کے اس لمحہ کے درمیان صدیوں کی بدمزہ دھول پھیل گئی ہے۔

وہ یکے بعد دیگرے کئی گلاس خالی کر دیتا ہے۔

بیرہ اسے حیرت سے دیکھتا ہے۔۔۔ ’’صاحب، اب بس کریں۔‘‘

وہ بند ہوتی آنکھوں اور ڈوبتے حواس کے ساتھ سر اٹھاتا ہے۔

جسم اور دنیا دونوں ہی بے وفا ہیں۔

پھر خود ہی ہنستا ہے لیکن آواز نہیں نکلتی، گلاس ہاتھ کی گرفت سے لڑھک جاتا ہے۔

میرا جنگل مجھے بلاتا ہے۔

لیکن جنگل تو اب شہروں میں بدل گئے ہیں اور شہروں میں نہ برگد ہوتے ہیں ، نہ گورے ہاتھوں میں دودھ کا پیالہ لیے کوئی انتظار کرتا ہے۔ شہروں میں تو سٹیج ہی سٹیج ہیں اور یہ سٹیج بھی کئی ہفتوں سے ویران ہے کہ وہ یورپ جا چکی ہے۔

یہ تصور ہے یا حقیقت؟

کیا موجود ہے اور کیا نا موجود؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close