افغانستان، امریکا 20 سالہ جنگ ہارا، اختتام امریکی توقعات کے مطابق نہیں تھا، امریکی جنرل

نیوز ڈیسک

واشنگٹن : امریکا نے افغانستان میں اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے افغانستان میں بیس سالہ جنگ ہاری ہے

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی جنرل مارک ملی نے ہاؤس آف آرمڈ سروسز کمیٹی میں امریکا کی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بہت واضح ہے کہ افغانستان میں جنگ کا اختتام اس طرح نہیں ہوا جیسے امریکا چاہتا تھا. یہ مکمل طور پر اسٹریٹیجک ناکامی ہے، جو ہم نے آخری کے بیس دن یا بیس مہینوں میں نہیں بلکہ بیس سال کی جنگ ہاری ہے، تاہم امریکا نے افغان جنگ سے کئی سبق سیکھے ہیں

واضح رہے کہ کانگریس میں امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے حوالے سے مختلف عہدیداروں کو طلب کر کے اس جنگ کا جائزہ لیا جا رہا ہے

امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے امریکی ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ جنگ ان شرائط پر ختم نہیں ہوئی جو طالبان کے ساتھ امریکا چاہتا تھا

جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ شکست پچھلے 20 دن یا 20 ماہ میں نہیں ہوئی، افغان جنگ اسٹریٹجک ناکامی تھی، پانچ برس پہلے طالبان اور افغان حکومت میں مذاکرات سے حل نکالا جاتا

انہوں نے کہا کہ ملا برادر سے 15 اگست کو قطر میں ملاقات کی اور کہا کہ انخلا میں رخنہ نہ ڈالیں، 15 اگست کی ملاقات تک کابل پر طالبان کا قبضہ ہوگیا تھا

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق جنرل ملی نے امریکی شکست کی وجوہات گنواتے ہوئے تورا بورا میں القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں ناکامی، 2003 میں عراق پر حملے جس سے فوجی توجہ افغانستان سے ہٹی، افغانستان سے کچھ سال قبل مشیروں کو واپس بلانے اور طالبان کے محفوظ ٹھکانے کے طور پر پاکستان سے موثر انداز میں پیش نہ آنے کا تذکرہ کیا

واضح رہے کہ جنرل مارک ملی امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ فوجی مشیر ہیں. صدر جو بائیڈن نے ہی افغانستان سے امریکی فوجی نکال کر بیس سالہ جنگ ختم کرنے کے اعلان پر عمل کیا

قبل ازیں سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے جنرل ملی نے کمیٹی کے سامنے کہا تھا کہ انہوں نے صدر جو بائیڈن کو افغانستان میں کم از کم 2500 فوجی برقرار رکھنے کا مشورہ دیا تھا، تاہم جو بائیڈن اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ انہیں یاد نہیں کہ کسی نے انہیں یہ مشورہ دیا ہو

وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے گزشتہ روز کہا تھا کہ صدر بائیڈن کو افغانستان کے حوالے سے منقسم رائے ملی تھی اور بالآخر یہ فیصلہ کمانڈر ان چیف یعنی صدر کا ہوتا ہے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بیس سالہ جنگ ختم کرنے کا وقت آن پہنچا ہے

کانگریس کی کارروائی کے دوران ایوانِ نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے اعلیٰ رپبلکن عہدیدار مائیک روجرز نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ صدر وہم کے شکار تھے. انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ میں امریکی قیادت کی سب سے بڑی ناکامیوں میں سے ایک کے طور پر لکھا جائے گا

واضح رہے کہ صدر بائیڈن کے رپبلکن پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں ہی امریکہ نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ تمام امریکی فوجیں افغانستان سے نکال لی جائیں گی چنانچہ ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن کے پاس دو ہی آپشن تھے، یا تو مکمل طور پر فوجیں نکال لیں یا پھر معاہدے کو منسوخ کر دیں

کمیٹی کے سامنے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک مکینزی نے کہا کہ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ مکمل انخلا سے افغان فوج اور افغان حکومت بکھر جائیں گے ، حقیقت میں ہوا بھی یہی ہے

کمیٹی کی کارروائی کے دوران رپبلکن نمائندوں نے صدر بائیڈن کو آڑھے ہاتھوں لیا.  ایک رپبلکن نمائندے اور کمیٹی کے رکن مائیک جانسن نے سوالات کے لیے ملنے والے وقت میں امریکی صدر کے انٹرویو کے مندرجات باآوازِ بلند پڑھنے شروع کر دیے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں فوجی افغانستان میں موجود رکھنے کا مشورہ نہیں دیا گیا. ایک اور رپبلکن نمائندے جو ولسن نے کہا کہ بائیڈن کو مستعفی ہو جانا چاہیے

دیگر رپبلکن نمائندوں نے جنرل ملی پر اپنا غصہ نکالا اور ٹرمپ کی ناقد کتابوں کے لیے انٹرویوز پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا تاہم کمیٹی کے ڈیموکریٹ سربراہ ایڈم سمتھ نے کہا کہ وہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا کے بائیڈن کے فیصلے سے متفق ہیں. انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موثر انداز میں حکمرانی کی قابل حکومت بنانے اور طالبان کو شکست دینے کا ہمارا وسیع تر مشن ناکام ہوا ہے، صدر بائیڈن میں یہ ہمت تھی کہ وہ بالآخر یہ کہنے کا فیصلہ کریں کہ ہم اس مشن میں کامیاب نہیں ہو رہے

جنرل فرینک مکینزی نے کہا کہ فروری 2020 میں طے پانے والے دوحہ معاہدے سے افغان فوج اور حکومت پر شدید نقصان دہ اثر پڑا، وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے نے طالبان کو ‘مضبوط تر’ ہونے میں مدد دی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کے طور پر جنرل مکینزی نے افغانستان سے فوجی انخلا کی نگرانی کی تھی

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ دوحہ معاہدے کا افغان حکومت پر سخت نفسیاتی اثر پڑا کیونکہ اس سے تاریخ متعین ہو گئی کہ کب تمام معاونت ختم ہونا متوقع ہے

وزیردفاع نے کہا کہ طالبان کے خلاف امریکی فضائی حملے بند کرنے کے معاہدے سے طالبان مضبوط ہوئے، انہوں نے افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف اپنے حملے تیز کیے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close