’مظلوم لوگ ہمیشہ کے لیے مظلوم نہیں رہ سکتے۔ آزادی کی تڑپ بالآخر خود کو ظاہر کرتی ہے‘— مارٹن لوتھر کنگ جونیئر
دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دی جانے والی غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں نے گزشتہ نصف دہائی بدترین جبر میں گزارنے کے بعد گزشتہ ہفتے ایک جوابی وار کیا۔ یہ وار اتنا شدید تھا کہ اس نے اسرائیل کی صیہونی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا
انہوں جنگ کو اسرائیلی حدود میں لے جاکر خطے کی طاقتور ترین عسکری قوت کو بدترین ہزیمت سے دوچار کیا۔ اس حملے سے ایک روز میں جتنے اسرائیلی ہلاک ہوئے، اتنے اب تک کسی اور حملے میں نہیں ہوئے۔ یقینی طور پر اسرائیل کی جوابی کارروائی بھی انتہائی سفاکانہ رہی
تقریباً 22 لاکھ آبادی پر مشتمل غزہ کی پٹی پر اسرائیلی افواج ماضی میں بھی بمباری کرتی رہی ہیں لیکن ان کی شدت کبھی بھی اتنی نہ تھی جتنی اس مرتبہ ہے
اسرائیلی جان بوجھ کر عام آبادی بہ شمول بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس وقت غزہ کا مکمل محاصرہ ہو چکا ہے اور خوراک، ایندھن اور دیگر اشیا بھی وہاں تک نہیں پہنچ رہیں۔ یہ محاصرہ جس کا مقصد غزہ کی آبادی کو بھوکا مارنا ہے واضح طور پر جنگی جرائم کے ضمرے میں آتا ہے
ایک غاضب قوت کا محکوم آبادی کے خلاف اعلان جنگ بہت عجیب سی بات ہے، لیکن طاقت کے بے پناہ استعمال کے باوجود بھی اسرائیل مزاحمت کو ختم نہیں کر سکا۔ فلسطینی جنگجو اب بھی اسرائیلی علاقوں میں لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس جنگ کے جلد ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے بلکہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ جنگ مغربی کنارے تک بھی پھیل سکتی ہے، جہاں پہلے سے ہی اسرائیلی افواج موجود ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو پہلے ہی یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اسرائیلی ردعمل مشرق وسطیٰ کو تبدیل کر دے گا۔
درحقیقت یہ جنگ پہلے ہی علاقے کی جغرافیائی سیاست کو بدل رہی ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی حمایت کی ہے۔ اس تنازعے نے ایک بار پھر مغربی منافقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔
حماس کی جانب سے ’شہریوں کے قتل عام اور خواتین اور بچوں کو یرغمال بنانے‘ کی مذمت کرتے ہوئے مغربی دنیا نے غزہ پر اسرائیلی بمباری کی منظوری دے دی ہے، جس میں ’اسرائیل کے دفاع کے حق‘ کے بہانے بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں کی اموات ہوئی ہیں
نام نہاد مہذب دنیا کی نظر میں مظلوموں کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر قبضہ کرنے والے کے خلاف مزاحمت کریں اور اپنی آزادی کے لیے لڑیں
حماس کی جانب سے گزشتہ ہفتے کا حیران کن حملہ اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لیے بھلے ہی غیر متوقع ہو لیکن اس کی بنیادیں فلسطینی سرزمین پر طویل قبضے اور اسرائیلی افواج کے جاری مظالم میں ہیں۔ اسرائیلی بستیوں میں ہونے والی مسلسل توسیع کے نتیجے میں فلسطینی آبادی بے گھر ہو رہی ہے
غزہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے اسرائیلی مظالم کا شکار ہے اور اب صورت حال ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ غزہ کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں ہوتا ہے اور اسے اقوام متحدہ کے موجودہ جنرل سیکریٹری نے ’زمین پر جہنم‘ قرار دیا ہے۔ غزہ مسلسل محاصرے میں رہا ہے جس سے یہ علاقہ انسانی بحران کی تصویر بنا ہوا ہے
غزہ کے نصف سے زیادہ لوگ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد پانچ سال سے زیادہ عمر نہیں پاتی۔ اسرائیل کی مسلسل بمباری اور ناکہ بندی کا سب سے زیادہ شکار بچے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں غزہ پر اسرائیل کی پے در پے بمباری میں سیکڑوں فلسطینی بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں
اسرائیل کے تازہ ترین فضائی حملوں نے علاقے کے ایک بڑے حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔ دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ فلسطینیوں کی ان کے گھروں سے بے دخلی معمول بن چکی ہے۔ اب غزہ کی بے بس و مجبور آبادی اسرائیل کے زمینی حملے کے خوف میں ہے۔
طویل عرصے سے مصائب کا شکار ان مظلوموں کی مشکلات بھی مغرب کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ سکیں۔ مغربی دنیا اسرائیل کی نسل پرست پالیسیوں کے آگے منہ پھیر لیتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے عسکری قوت کا وحشیانہ استعمال اور مغرب کی جانب سے اس کی حمایت شاید ابھی مزید فلسطینیوں کی جان لےگی لیکن اس مزاحمت کو نہیں کچل سکتی۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جنگ کے اعلان سے مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس جنگ کا ایک نقصان اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے لیے امریکی کوششوں کا پٹڑی سے اترنا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے شروع کیے گئے اس عمل میں گزشتہ ماہ اہم پیش رفت ہوئی تھی جب کسی اسرائیلی وزیر نے پہلی مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس دورے کا براہ راست تعلق اسرائیل-سعودی تعلقات کے حوالے سے ہونے والی بات چیت سے نہ ہو لیکن اسے دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنے کے طور پر دیکھا گیا۔
لیکن اس لڑائی سے ان مذاکرات کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو بتایا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ’تمام مذاکرات ختم کررہا ہے‘۔ بائیڈن انتظامیہ کے اقدام کو مشرق وسطیٰ میں امریکا کی پوزیشن پر دوبارہ زور دینے کے ایک اہم اقدام کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
امریکا نے یہ قدم اس وقت اٹھایا تھا جب چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک امن معاہدہ کیا۔ یہ دونوں ممالک برسوں سے خطے میں پراکسی جنگ میں مصروف تھے۔ اس معاہدے نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر مستحکم خطوں میں سے ایک میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو ظاہر کیا تھا۔
اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لیے امریکی سرپرستی میں کچھ پیش رفت تو ہوئی لیکن اس کے باوجود ابھی دونوں ممالک کے مابین کسی امن معاہدے کے امکانات نہیں تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت اسرائیلی بستیوں کے معاملے پر کسی سمجھوتے سے انکاری تھی۔ ماضی کے امریکی صدور کے برعکس، بائیڈن نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات کو فروغ دینے کے لیے براہ راست کوئی کوشش نہیں کی۔ فلسطینیوں کو اس عمل سے دور رکھنے سے مشرق وسطیٰ میں طویل مدتی امن قائم نہیں ہوگا۔
بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اس جنگ کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کا اب کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس بحران کا واحد حل اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور فلسطینیوں کے علیحدہ ریاست کے حق کو تسلیم کرنا ہے۔
بشکریہ: ڈان نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)