وڈیرے کے ڈیرے سمیت ہر شے پر رات اتر آئی ہے۔ سورج ڈھلنے سے رات اترنے تک کا مختصر سفر ایسے دل موہ لینے والے منظر تراشتا ہے کہ دیکھنے والے کا اللہ کی قدرت پر ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے۔ تصور کریں ڈھلتا سورج، تاحد نظر پھیلا نیلا شفاف افق، سندھو کا انتہائی وسیع پاٹ، شام کی ٹھنڈی ہوا میں جھومتی فضاء۔ انسان تصور میں ہی جھوم جائے۔ سبحان اللہ۔ آسمان پر کہکشاں سجنے کو ہے۔ چندا ماموں کا جوبن بھی دیکھنے والا ہوگا کہ یہ چودھویں کی رات ہے۔ وڈیرے کے ڈیرے میں بچھی چارپائیوں پر چاندنی اترنے لگی ہے۔ نین اندر زنان خانے جا چکی ہے۔ باورچی خانے سے اٹھنے والی کھانے کی خوشبو سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ میرے میزبان کی دعوت پرخلوص اور پرتکلف ہوگی۔ چاولوں اور بھنے گوشت کی خوشبو، دیسی گھی کا تڑکا لگی مسور کی دال۔ واہ واہ۔ اس خوشبو نے بھوک خوب چمکادی ہے۔ نماز عشاء کی اذان کانوں میں پڑ رہی ہے۔ ان علاقوں میں نماز عشاء کے ساتھ ہی کھانا چن دیا جاتا ہے اور نندیا پری بھی جلد ہی اتر آتی ہے کہ دیہات کے رہنے والے صبح جلدی اٹھنے کے عادی ہیں۔ ویسے ساری ترقی یافتہ دنیا میں رات کا کھانا جلدی کھانے کی روایت ہے۔ اسلام کا یہ اصول بھی ان مغرب والوں نے ہی اپنایا ہوا ہے جبکہ وطن عزیز میں جلدی کھانا کھانے والے کو ”پینڈو“ سمجھا جاتا ہے۔ اس ملک میں نئے نئے امیر ہونے والے دیر سے کھانا کھانے کو اپنی امیری کی نشانی سمجھتے یہ بھول چکے ہیں کہ دیر سے کھانا کھانا صحت بربادی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ عشاء کی قصر نمازسے فارغ ہوئے تو کھانے کی بھینی بھینی خوشبو ہمیں سیدھے محمدی دسترخوان پہ لے آئی ہے۔ کھانے کے دوران ہمارا میزبان اور اس کے دونوں بچے میزبانی کا حق ادا کرتے رہے ہیں۔ یہ ان کا خلوص اور بڑا پن ہے۔ اس پرتکلف، پر خلوص اور لذیذ کھانے کا لطف مدتوں یاد رہے گا۔
گڑ والی چائے کا دور چل رہا ہے کہ وڈیرہ نور حسن کہنے لگا؛ ”سر! صبح ہم 8 بجے روانہ ہوں گے۔ ہمیں گڈو سے ہوتے سکھر جانا ہے۔ انشا اللہ۔ آپ لوگ بھی دن بھر کے تھکے ہیں آرام کریں۔ صبح ملاقات ہوگی۔“ دن بھر کی تھکان سبھی کو نیند کی وادی میں اتارنے لگی ہے۔ میں کچھ دیر اپنے دوست ستاروں اور چندا ماموں سے باتیں کرتا کب خواب خرگوش ہوا، یاد نہیں۔۔ البتہ صبح میاں جی کی بانگ پر ہی میری آ نکھ کھلی ہے۔ باس اور مشتاق بھی جاگے ہیں کہ یہ دونوں صبح کی نماز قضاء کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اللہ نے ان دونوں کو یہ توفیق مدت سے دے رکھی ہے۔ مجھے بھی نماز کی طرف راغب کرنے میں میرے ماں باپ کے بعد باس کا بڑا ہاتھ ہے۔
میرا تخیل مجھے سندھو کنارے لے گیا ہے۔۔ مثلث نما بادبانوں والی کشتیاں سندھو کی سطح پر تیرتی نظر آ رہی ہیں۔ ماہی گیر نیلے پر سکون دریا پر اپنے جال پھلائے ہیں۔ سیاہ مویشی آہستہ آہستہ کنارا آب تک آتے اور پانی میں کھڑے ہو کر مزے سے پانی پی رہے ہیں۔ کناروں پر کہیں کہیں سفید آبی پھول کھلے ہیں۔ مجھے شفاف پانی کی ایک جھیل بھی دکھائی دی ہے سبز پہاڑوں کے نشیب میں ڈوبی ہوئی جھیل کی نیلگوں سطح کے اوپر بادلوں کے سفید گالے بکھرے آسمان کی وسعتوں میں آوارہ پھر رہے ہیں۔ کنول کے پھول اس کے پانیوں میں تیر رہے ہیں۔ میں ان پھولوں کو چھونے کے لئے جھیل میں اترنے لگا تو باس کی آواز نے مجھے اپنی حقیقی دنیا چلا آیا ہوں۔۔
بڑی دیر کے بعد مجھے سندھو کی سرگوشی سنائی دی ہے۔ شاید وہ بھی باتیں سناتے سناتے تھک سا گیا ہے، کہنے لگا؛ ”صبح جلدی اٹھنے کا جو لطف ہے، اس کا اندزاہ دیر تک سونے والا کر ہی نہیں سکتا ہے۔ صبح اٹھنا اچھی صحت کی نشانی ہے۔ اپنے اللہ کو یاد کرنے اور اس سے باتیں کرنے کا بہترین وقت ہے۔ صبح کی تازہ ہوا دن بھر تازہ رہنے کا نسخہ کیمیا ہے۔ صبح جلدی اٹھنے سے روح بھی دن بھر ترو تازہ رہتی ہے۔ یقین کریں قرآن کی تلاوت اور اللہ کو یاد کرنے کا اس بہتر وقت ہو ہی نہیں سکتا۔ صبح جلدی اٹھنے والے، اللہ کو یاد کرنے والے، بے شک اللہ کے دوست ہیں۔“
مقامی مسجد میں نماز فجر سے فارغ ہوئے۔ واک کرتے ہم سندھو کے کنارے چلے آئے ہیں۔ صبح خنک ہے اور ہوا تازہ۔ سندھو کے پانی پہ ہلکی ہلکی سی دھند چھائی ہے۔ لہریں جھکی جھکی اور نرم سی ہیں، جیسے یہ بھی اللہ کی شکر گزاری بیان کر رہی ہیں۔ درخت جھوم رہے ہیں اور خوش الحان پرندے بھی اپنی اپنی بولیوں میں جیسے اللہ کی ثناء بیان کرنے لگے ہیں اور کچھ ہی دور میں رزق کی تلاش میں نکل جائیں گے۔ ہمیں بھی کچھ دیر میں اللہ کی قدرت کے نظاروں سے لطف اٹھانے کے لئے گڈو سے ہوتے سکھر جانا ہے۔ سندھو کی صبح ہر جگہ نرالی ہی ہوتی ہے۔ طلوعِ آفتاب سے لے کر آفتاب کے افق پر پھیلنے تک کا وقت اس عظیم دریا کے کنارے قدرت کی بہترین کاریگریوں میں سے یقیناً ایک ہے۔ پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں اور میدانی علاقوں، ہر جگہ اچھوتا ہی ہے۔ سیر سے واپس گھر آئے، فریش ہوئے تو ناشتہ تیار ہے۔چاٹی کی لسی، پراٹھے، آلو کی بھجیا، آملیٹ، اچار اور گھر کا گرما گرم دودھ۔ ”تم اللہ کی کس کس نعمت کا شکر ادا کرو گے۔“ ہم اس کی نعمتوں کا شکر ادا بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ ناشتے سے فارغ ہوئے، سامان جیپوں میں رکھا اور ہم کشمور کو روانہ ہوئے ہیں،گڈو بیراج کے لئے۔۔
دریائے سندھ رحیم یار خان کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”ریتی“ کے مقام سے صوبہ سندھ میں داخل ہوتا ہے اور سندھ کے وسیع زمین کو سیراب و شاداب کرتا، زندگی عطا کرتا سمندر میں اترتا ہے۔ ایک بات طے ہے، جہاں سندھ کی زمینوں کی خوشحالی میں اس کا بڑا ہاتھ ہے، وہاں ہاری مزدور اور کسان بھی اس کی شادابی کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ وہ ان زمینوں پر پسینہ بہاتے، ہل چلاتے، محنت کرتے، تکالیف اٹھاتے ہیں اور پھر ان کی محنت اور اللہ کی رحمت سب مل کر ان زمینوں کو شادابی بخشتے ہیں۔ فرمان قرآن کا مفہوم ہے: ”اے انسان غور کر ایک ہی طرح کی زمین ایک ہی طرح کا پانی اور پھر یہ اللہ ہی ہے جو طرح طرح اور مختلف ذائقوں کے پھل پھول اور سبزیاں اس سے اگاتا ہے۔“
ہم وڈیرہ نور کے گاؤں سے واپس مرکزی شاہراہ پر پہنچے ہیں۔ صادق آباد سے گڈو تک کا سڑسٹھ (۷۶) کلومیٹر کا سفر طے کرنے میں تقریباً سوا گھنٹہ لگتا ہے۔ سڑک اچھی، مطلع صاف اور دھوپ تیز ہے۔”کوٹ سبزل“ پنجاب کا آخری قصبہ ہے اور ”چیک پوسٹ دانوالہ“ پنجاب سندھ کا باڈر ہے۔ یہ باب السلام سندھ کا آغاز ہے۔ شاہراہ سر سبز کھیتوں، آم کے باغوں سے گزرتی ہے۔ نور حسن نے گاڑی میں ایک سندھی گیت لگایا ہے۔ اس گیت کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:
وطن کو واپس آؤ، دل بہت اداس ہے
ہماری محبت بیچ میں رہ گئی ہے،
ہاتھ پکڑ کر چلو، وطن کو واپس آؤ، دل بہت اداس ہے۔۔
اس گیت کے بول سادہ جتنے دل میں اترتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اس گیت کی موسیقی دل و دماغ میں اترتی ہے۔ گانے والے نے بھی خوب آواز کا سوز جگایا ہے۔ یہ گیت کئی بار سنا اور ہر بار پہلے سے زیادہ دل کو چھو گیا ہے۔ باتیں کرتے اور گیت سنتے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب کشمور پہنچے ہیں۔ ہمارے سامنے گڈو بیراج ہے۔ اس بیراج کے چونسٹھ (64) دروازے ہیں اور ہر در کی چوڑائی اٹھارہ (18) میٹر یا ساٹھ (60) گز ہے اور ان دروں سے میرا دوست سندھو بڑی شان سے بہہ رہا ہے۔ فروری 1957 ء میں اس بیراج کی تعمیر کا افتتاح جنرل سکندر مرزا کے ہاتھ سے ہوا اور ایک اور فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خاں نے مارچ 1962 میں اس کا افتتاح کیا۔ تیرہ سو پینسٹھ (1365) میٹر لمبے اس بیراج سے 4 نہریں نکالی گئی ہیں جو کشمور، لاڑکانہ، سکھر، جیکب آباد (سندھ) اور نصیر آباد (بلوچستان) کے اضلاع کے تقریباً تین لاکھ (300000) ایکڑ رقبے کو سیراب کرتی ہیں۔ اس بیراج کا بنیادی مقصد سندھو کے سیلاب کو کنٹرول کرنا اور آب پاشی کے لئے پانی مہیا کرنا ہے۔ چھ سو چالیس (640) میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا پاور ہاؤس 1980 ء میں روس کی مالی امداد اور چیکو سلاوکیہ کی مشینری سے قائم کیا گیا ہے۔ 2014ء میں اس بجلی گھر میں توسیع کی گئی، جب دو سو تنتالیس (243) میگا واٹ کی 2 گیس ٹربائینز کا اضافہ کیا گیا اور یوں اس پاور ہاؤس کی کل پیداواری صلاحیت بارہ سو (1200) میگا واٹ ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔