ایک اور نکبہ، گردن اور تلوار کا مکالمہ

محمد حنیف

پاکستانی نژاد پروفیسر ارسلان خان نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے اگر ہم اپنے ماتھے پر یہ لفظ کنندہ کروا لیں کہ میں حماس کی مذمت کرتا ہوں تو بھی ہمیں اس بات کی اجازت نہیں ملے گی کہ ہم اس بارے میں بات کریں کہ اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے، جو فلسطینی علاقوں پر قابض ہے اور کیا فلسطین کی آزادی پر بات ہو سکتی ہے۔۔۔

اس بحث میں نہیں پڑتے کہ سب سے معتبر مغربی میڈیا بھی یہ کیوں لکھتا ہے کہ اسرائیلی ہلاک کر دیے گئے اور فلسطینی مر گئے۔ ہم اسرائیلی شہریوں پر حماس کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اگر مگر بھی نہیں کرتے، جن اسرائیلی ماں باپ نے اپنے بچے کھوئے ہیں، ان کو گلے لگاتے ہیں، ہلاک ہونے والوں کے لیے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔

کیا اب ہم 75 سال پہلے ہونے والے واقعات کا ذکر کر سکتے ہیں؟

چونکہ فاتح اور مفتوح کی تاریخ مختلف ہوتی ہے، اس لیے کیا بنیادی حقائق کے لیے ہم اقوام متحدہ کی ویب سائٹ سے رجوع کر سکتے ہیں؟

اقوام متحدہ کے مطابق ’نکبہ‘ کا مطلب ہے بڑی تباہی، بڑا عذاب۔

1948 سے پہلے فلسطین میں مسلمان، عیسائی اور یہودی ساتھ رہتے تھے۔ بھائیوں کی طرح نہیں، ہمسائیوں کی طرح۔ دیوار گریہ کے ایک طرف مسلمان عبادت کرتے تھے تو دوسری طرف یہودی اور چند گلیاں چھوڑ کر حضرت عیسیٰ عہ کے ماننے والے۔

1948 میں جنگ کے نتیجے میں فلسطینیوں کی نصف سے زیادہ آبادی اپنے گھر، گاؤں، کھیت چھوڑنے پر مجبور ہوئی۔ ان کی تیسری نسل کئی عرب ممالک میں بنے پناہ گزین کیمپوں میں پل کر جوان ہو رہی ہے اور نسل در نسل گھر واپسی کے خواب دیکھتی رہی ہے۔

لیکن اہل یہود کے صیہونی سیانوں نے کہا کہ ہم گھر واپسی کا خواب دو ہزار سال سے دیکھ رہے ہیں۔ مقدس صحیفوں میں لکھا ہے کہ فلسطین ہمارا گھر ہے۔ اب دنیا میں جہاں بھی یہودی ہیں، انھیں حق حاصل ہے کہ وہ اسرائیل آئیں اور فوری شہریت پائیں۔

مغربی ممالک نے یا یوں کہہ لیں کہ گورے ممالک نے اسرائیل کے قیام اور پھر اس کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ یہودیوں پر سب سے بڑا ظلم یورپ میں ہوا، خود یورپ والوں نے کیا اور پھر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے انھیں عین مشرق وسطی کے بیچ ایک ملک بنا کر دیا اور کھلی چھوٹ دی کہ جو ہم نے تمھارے ساتھ کیا تھا اب تم وہی فلسطینیوں کے ساتھ کرو۔ اسلحہ بارود، پیسے اور سب سے بڑھ کر بیانیہ چاہیے تو ہمارے سب سے لائق فائق عالم، استاد، مورخ اور صحافی حاضر ہیں۔

فلسطینیوں کو اپنے مسلمان بھائی کہنے والی مسلم اُمّہ کبھی دھمکی، کبھی دلیل، کبھی منھ زبانی ہمدردی دکھاتی رہی۔ اقوام متحدہ قراردادوں پر قراردادیں پاس کرتی رہی۔ اسرائیل اپنے خدائی مشن کو بڑھاتا گیا۔

پہلے نکبہ کے 75 سال کے بعد اسی سال کے آغاز میں پہلی دفعہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں اس کی یاد منانے کی اجازت دی گئی۔ ایک چھوٹی سی تقریب ہوئی، تقریریں ہوئیں، ایک ثقافتی شو ہوا۔ کچھ لوگوں کو لگا کہ تین چوتھائی صدی پہلے شروع ہونے والے ظلم کو اقوام متحدہ روک تو نہیں سکی لیکن کم از کم اب یہ ماننے کو تو تیار ہے کہ ظلم ہوا تھا۔

یورپ کے چند اور شہروں میں بھی نکبہ کے 75 سال مکمل ہونے پر تقریبات ہونے والی تھیں۔ پھر حماس نے اسرائیل پر حملے کیے (پہلے مذمت کر چکے ہیں لیکن پھر کیے دیتے ہیں) جس کے جواب میں اسرائیل نے کہا کہ تم نے نکبہ دیکھا ہی کہاں ہے، اب تمھیں دکھاتے ہیں کہ نکبہ ہوتا کیا ہے۔

اور اب مہذّب دنیا، جمہوریت کے گیت گاتی دنیا، یوکرین پر آنسو بہاتی دنیا، آزادی اظہار رائے کے دعوے سناتی دنیا، پاپ کارن لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہے اور نعرے لگا رہی ہے کہ مارو ان دہشت گردوں کو۔ ہم تمھارے اوپر بم گراتے رہیں گے، تم حماس کی مذمت کرتے جاؤ۔

حماس بننے سے بہت پہلے بھی فلسطین میں مزاحمت کی تحریکیں موجود تھیں۔

غسان کنفانی فلسطینی ناول نگار تھے اور مزاحمت کا حصہ تھے۔ ایک انٹرویو میں ان سے ایک دردمند مغربی صحافی نے پوچھا کہ آپ بندوقیں ایک طرف رکھ کر مزاکرات کیوں نہیں کرتے۔

پہلے غسان کہتے ہیں کہ آپ کا مطلب ہے کہ ہم غلامی قبول کر لیں۔ صحافی مصر تھا کہ مکالمہ ہونا چاہیے۔ غسان کنفانی نے کہا کہ ’یہ ویسا ہی مکالمہ ہو گا جیسا گردن اور تلوار کے بیچ ہوتا ہے۔‘

1972 میں اسرائیلیوں نے غسان کنفانی کو ایک کار بم دھماکے میں ہلاک کر دیا۔ ان کے ساتھ ان کی 17 سالہ بھانجی بھی ہلاک ہو گئیں۔

بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close