وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، گورنر سندھ عمران اسماعیل اور کنوینر ایم کیو ایم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے مشترکہ اعلان کیا ہے کہ 2023ع کے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں گے
تفصیلات کے مطابق بہادر آباد میں ایم کیو ایم کے عارضی مرکز پر مشترکہ نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ گزشتہ مردم شماری ہماری حکومت نے نہیں کرائی تھی اور اس پر اعتراضات کراچی کے علاوہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے بھی آئے تھے
اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر سیاست کرنے والی جماعتوں سے پوچھتا ہوں صرف اس مرتبہ نہیں ماضی کی کسی مردم شماری کو تسلیم نہیں کیا گیا، ہمیشہ اس پر اعتراضات رہے ہیں، کراچی کے شہریوں کے مطابق ان کی درست گنتی نہیں کی گئی، تحریک انصاف کی حکومت گزشتہ غلطیوں کو درست کرنا چاہتی ہے
وفاقی وزیر اسد عمر نے قبل از وقت مردم شماری کے انعقاد کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کابینہ کے فیصلے کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لے سید امین الحق کی سربراہی میں کابینہ کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو اپنی سفارشات مرتب کرکے کابینہ کو پیش کرے گی جس کے بعد نئی مردم شماری کرائی جائے گی
انہوں نے کہا کہ ایک ٹیکنیکل کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جس کا نوٹیفکیشن ہوچکا ہے اور وہ پوری دنیا کے دیگر ممالک میں ہونے والی مردم شماری کا جائزہ لے کر ٹیکنیکل بنیادوں پر ایک نظام وضع کر کے کابینہ کی خصوصی کمیٹی کو اپنی سفارشات دے گی جس کے بعد وسائل کی تقسیم اور نئے انتخابات میں درست نمائندگی کی بنیاد بنے گی
اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ مردم شماری پر بہت سی جماعتیں سیاست کر رہی ہیں، جماعت اسلامی سے درخواست کرتا ہوں اس معاملے پر پشاور سے بھی ریلی نکالیں، یہ مسئلہ صرف کراچی کا نہیں پورے پاکستان کا ہے، ہمیں نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور ہم مردم شماری کے بہترین نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں
اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان ہونے والے معاہدے میں مشترکہ اور متفقہ نقطہ تنازع مردم شماری تھا، جس کی جزیات پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گئی اور اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ آئندہ مردم شماری قبل ازوقت کرائی جائی گی، مردم شماری کے لیے بجٹ میں رقم بھی مختص کی جائے گی اور انتظامی فیصلے بھی ہوں گے، یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ 2017ع میں ہونے والی مردم شماری پر نہ صرف سندھ اور بالخصوص کراچی بلکہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بھی شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔