پچھلے کئی دنوں سے پرانا گھر میرا پیچھا کر رہا ہے،
اس گھر میں میری زندگی کے بہت سے سورج طلوع اور غروب ہوئے۔ میں نے زندگی کے پہلے زینہ پر وہیں قدم رکھا تھا اور جب میں وہاں سے نکلا تو زندگی کے زینے اتر رہا تھا۔ وہاں کی ایک ایک دیوار پر میری خواہشوں اور تمناؤں کے نقش کھدے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے ان دیواروں ہی میں سے جنم لیا ہے اور کسی دن مجھے انہی دیواروں میں گم ہو جانا ہے، میری طرح کچھ لوگ ایسے ہوں گے، جو دیواروں سے مکالمہ کرتے ہوں اور دیواروں کی گود میں بیٹھ کر ایک نئے جہان کی سیر کرتے ہوں، میں نے ان دیواروں سے بہت مکالمہ کیا ہے، اپنے جاننے، ہونے، پانے اور کھو جانے کے بارے میں بے شمار سوال کئے ہیں اور دیواروں نے مجھے جواب دئیے ہیں، کبھی مطمئن کرنے والے، کبھی پیاس کو اور بڑھا دینے والے، کبھی مایوس کر دینے والے۔۔۔ اور ان کی گود، ایک ایسی بکل ہے جس میں گم ہو کر میں ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہوں ، ایک ایسی دنیا جو یا تو میری اس ظاہری دنیا کا عکس ہے، یا پھر یہ ظاہری دنیا اس کا عکس ہے۔۔۔ عکس اور حقیقت کا یہ مغالطہ، میرے ہونے یا نہ ہونے کا کھیل۔۔۔ ہاں یہ سب ایک کھیل ہی ہے، جس کا تعلق میرے اس پرانے گھر سے ہے اور اسی سے مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ انسانوں کے علاوہ چیزیں بھی جذبے رکھتی ہیں اور تعلقات بنانا جانتی ہیں۔ انسانوں کے تعلقات میں تو رشتے کی کوئی نہ کوئی نوعیت ضرور ہوتی ہے، لیکن چیزوں کے رشتے عجیب ہیں، شاید ان کی بھی ایک روح ہوتی ہے اور یہ جو ہم پرانی چیزوں سے، آثار قدیمہ سے محبت کرتے، ان کی قدر دانی کرتے ہیں تو یہ اسی روح کا تسلسل ہے۔۔۔ ایک روحانی تسلسل، جو نسل در نسل چلتا اور ورثے میں منتقل ہوتا ہے، لیکن جس طرح جذبے اور تعلقات اپنی کئی تہیں رکھتے ہیں، اسی طرح اس گھر کے ساتھ میرا تعلق بھی کئی طرح کا ہے۔۔ میرے بیوی بچوں کا اس سے تعلق اتنا ہی ہے کہ یہ گھر پرانے محلہ میں ہے اور اب ہماری ضرورت کے لحاظ سے رہنے کے قابل نہیں، لیکن میرا تعلق اس سے اور طرح کا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ اس کے پرانے پن اور چھوٹے سے احاطہ کے اندر ایک بڑا جہان چھپا بیٹھا ہے، میں نے اس جہان کو دریافت کر لیا ہے اور میرے بیوی بچے اسے دریافت نہیں کر سکے، چنانچہ ان کا یہ مسلسل اصرار کہ بچے اب بڑے ہو گئے ہیں، اس لیے گھر بدلنا چاہئے اور یہ کہ یہ جگہ اب رہنے کے قابل نہیں، انہیں اندرونِ شہر گندگی اور بدبو کا احساس ہوتا ہے اور مجھے اندرونِ شہر اپنائیت اور خوشبو محسوس ہوتی ہے۔۔۔ یہ بھی اپنی اپنی دریافت ہے، چیزوں سے اپنا اپنا رشتہ، اپنا اپنا مکالمہ، لیکن ایک عمر کے بعد آدمی صرف اپنا نہیں رہتا، بیوی بچوں کا ہو جاتا ہے۔۔۔ میں نے ان کی بات مان لی اور یہ گھر چھوڑ دیا۔
جس دن ہم سامان منتقل کر رہے تھے، مجھے ذرّہ بھر بھی احساس نہیں تھا کہ اس گھر سے میرا رشتہ کیا ہے۔ اسے چھوڑتے ہوئے ایک بے اطمینانی اور اداسی ضرور تھی، لیکن پرانے پڑوسیوں سے رخصت ہونے کی رقّت آمیزی اس پر حاوی ہو گئی۔
نئے گھر کی پہلی رات، سٹیشن پر بکھرے سامان کے ساتھ گاڑی کے انتظار کی کیفیت میں گزر گئی، پھر ایک رات اور۔۔۔ دوسری رات شاید کئی راتیں، نئے گھر کی آرائش، نیا ماحول۔ میں پلٹ کر پرانے محلہ میں نہ جا سکا، لیکن کئی راتوں کے بعد، ایک رات، رات گئے کال بیل مسلسل بجتی رہی، آنکھ کھلی تو حیرت کا احساس ہوا کہ میرے سوا کوئی نہیں جاگا۔۔۔ کال بیل مسلسل بجے جا رہی تھی، مجھے لگا یہ صرف میرے لیے ہے اور اسے سن کر کوئی میرے اندر پکارے جا رہا ہے۔۔۔ لبیک، لبیک۔۔۔ لبیک۔
میں آہستگی سے اٹھا اور دروازہ کھول کر باہر آیا۔۔۔ سامنے پرانا گھر کھڑا تھا۔۔۔ میں چپ چاپ اسے دیکھے گیا، اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، نہ کوئی شکوہ، نہ اداسی، نہ خوشی، بس چپ چاپ کھڑا تھا، میں بھی اس کے سامنے خاموش کھڑا رہا،
شاید ایک لمحہ بیتا۔۔ یا ایک صدی یا کئی صدیاں۔۔۔
پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے اندر سمو لیا۔۔۔
وہی سیلن زدہ دیواریں، زندگی کی مہک سے لبالب، وہی بوسیدہ چھت تحفظ کے احساس سے چمکتی دمکتی، میں اپنے چھوٹے سے وجود سے نکل کر اس کی کائنات میں گم ہو گیا اور نہ جانے کتنی دیر وہاں رہا، شاید رات کے پچھلے پہر تک، کائنات کے اختتام تک۔۔۔ ازل سے ابد تک۔
اور اب یہ روز کا معمول ہے کہ رات گئے، پرانا گھر کال بیل بجاتا ہے، جسے صرف میں سنتا ہوں، میں خاموشی سے باہر آتا ہوں اور اس کے کھلے دروازے میں داخل ہو کر ایک نئی دنیا میں پہنچتا ہوں۔۔۔ یہ نئی دنیا اس باغ کی طرح ہے، جہاں کبھی خزاں نہیں آتی۔
کہتے ہیں، ایک بادشاہ کا ایک باغ تھا۔ اس میں چاروں طرف خوشبودار پودے اور ہریالی تھی۔ آرائش سے خالی کوئی جگہ نہ تھی۔ خوبصورت اور دلکش چشمے، قسم قسم کے طیور شاخوں کے اطراف میں خوش الحانیاں کرتے تھے۔ اس باغ میں طاؤس بھی تھے۔ ان طاؤسوں میں سے ایک کو بادشاہ نے پکڑا اور حکم دیا کہ اس کو چمڑے میں سی دیا جائے تاکہ اس کے پروں کے نقوش ظاہر نہ ہوں اور نہ ہی وہ باوجود کوشش کے اپنے حسن و جمال کا نظارہ کر سکے۔ بادشاہ نے یہ حکم بھی دیا کہ اس کے اوپر ایک ٹوکری رکھ دی جائے۔ اس ٹوکری میں باجرے کے دانے ڈالے جائیں تا کہ وہ اس کی خوراک کا ذریعہ اور معیشت کا سامان بنیں۔ اس طرح ایک مدت بیت گئی۔ اس طاؤس نے رفتہ رفتہ وطن کو، خود کو، باغ کو، اپنے ہمدموں کو فراموش کر دیا۔ اسے سوائے اس گندے اور فضول چمڑے کے کچھ دکھائی نہ دیتا۔ شروع شروع میں باغ کی کشادگی، ہریالی اور خوشبو بہت یاد آتی لیکن آہستہ آہستہ ناہموار اور تاریک جگہ میں اس کا دل لگ گیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس ٹوکری کے پیندے سے زیادہ وسیع کوئی جگہ نہیں، لیکن کبھی کبھی ہوا کے جھونکوں سے باغ کے پھولوں، اشجار کی خوشبو ٹوکری کے سوراخوں کے راستے اس تک پہنچتی رہتی۔ اسے عجیب لذت حاصل ہوتی اور طبیعت میں اضطراب پیدا ہو جاتا۔ اڑنے کی لذت کا احساس ہوتا اور دل میں شوق چٹکیاں لیتا۔۔ لیکن یہ اندازہ نہ ہوتا کہ اس کے گرد منڈھے چمڑے اور ٹوکری کے علاوہ اور کیا ہے۔ عرصہِ دراز کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ اس طاؤس کو اس کے سامنے پیش کیا جائے اور اسے ٹوکری اور چمڑے سے رہائی دی جائے۔ جب اسے رہائی دی گئی تو وہ اپنے آپ کو پہچان نہ سکا اور اس وہم میں مبتلا ہو گیا کہ اس کا اصل روپ کیا ہے۔
وہ چمڑا منڈھا بدبو دار گندہ روپ،
یا یہ چمکیلے پروں والا خوبصورت انداز،
بس ایک اسرار ہے کہ کھلتا نہیں،
ایک کسک، ایک تڑپ، ایک سفر۔۔۔
دن بھر بدبو دار چمڑے میں منڈھے ہوئے ٹوکری کے نیچے دانہ دانہ رزق کی تلاش اور رات گئے جب کوئی مسلسل کال بیل بجائے جاتا ہے، جس کی آواز صرف میں ہی سنتا ہوں تو طاؤس ٹوکری کے نیچے سے نکلتا ہے، بدبو دار چمڑا اتارتا ہے اور وہ اپنے اصل روپ میں آ جاتا ہے۔
ایک تماشا۔۔ مسلسل تماشا۔۔۔۔
لیکن یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ ان میں سے حقیقت کون سی ہے اور خواب کون سا؟