سندھو بتاتا ہے ”معصوم شاہ مینار کے علاوہ میرے کنارے 1934ء میں تعمیر کی گئی کنہیا لال کوٹج (آج کی ملک حویلی) اپنے منفرد طرزِ تعمیر کی وجہ سے دور سے ہی پہچانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر قابلِ ذکر مقامات میں ہندو راج کی عمارات کالی دیوی کا آستان، سادھ بَیلَو، بابا بکھنڈی، کباب ہاؤس، سوڈا ہاؤس، سنگر حلوہ اور لچھا چکن وغیرہ شامل ہیں۔ سادھ بیلو کے مندر تک زائرین کشتیوں سے آتے جاتے ہیں۔قدیم اروڑ شہر (قدیم دور کا اہم بحری اور بری تجارتی راستہ) کے کھنڈر یہاں سے آٹھ (8) کلو میٹر کی مسافت پر ہیں۔ قریب ہی محمد بن قاسم کی تعمیر کردہ مسجد کے کھنڈر بھی ہیں۔ روایت کے مطابق سکندر اعظم نے بھی اروڑ میں قیام کیا تھا۔ میر آف خیرپور اور میرآف تالپور بھی یہاں کے حکمران رہے ہیں۔ آؤ سات سہیلیوں سے جڑی داستان کے مقام ”ست سہیلیوں جو آستانو“ یعنی ’ستین جو آستان‘ چلتے ہیں۔کشتی (بیڑی) میں میرے کنارے سے اس مقام کا فاصلہ طے کرنے میں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ لگیں گے۔“
سندھو موج میں ہے کہانی سناتا جا رہا ہے؛ ”یہ کم وبیش چار (4) صدی سے زیادہ پہلے کی بات ہے جب ہند اور سندھ پر مغل حکمران تھے۔ سندھ کا ایک تاریخی مقام ’قاسم خوانی‘ عام طور پر ’ستین جو آستان‘ یا ’سات سہیلیوں کا آستانہ‘ کے نام سے اتنا مشہور ہوا کہ ایسی شہرت سندھ کا کوئی دوسرا مقام حاصل نہ کر سکا۔ ستین جو آستان کا محل وقوع ایسا ہے کہ بکھر آئی لینس ڈاؤسن برج، سکھر بیراج اور سادھو بیلہ کے درمیان جیسے چکور گھرا ہو۔ قریب ہی انگریزی دور کے تعمیر کردہ مختلف دفاتر ہیں۔ داستان سے وابسطہ دو روایات ہیں۔ پہلی روایت کے مطابق؛ یہاں سات(7) کنواری بیبیاں رہا کرتی تھیں جن کا یہ عہد تھا کہ وہ نہ توکسی نا محرم مرد کو خود دیکھیں گی اور نہ ہی کسی نا محرم مرد کو خود کو دیکھنے دیں گی۔ راجا داہر کے دور میں ان7 بیبیوں نے چند اوباش مردوں سے اپنی عزت بچانے کے لیے دعا مانگی ’اے اللہ! ہماری عصمت و آبر کو ان سے محفوظ رکھ۔‘ کہتے ہیں کہ ان کی دعا قبول ہوئی اور کرشماتی طور پر ایک چٹان بیبیوں پر آ گری۔ ان کی آبرو تو بچ گئی لیکن چٹان کے نیچے دب کر وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ آج بھی کسی مرد کو ان بیبیوں کے تربت والے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ایسی ہی کہانی چولستان میں ’الاہو رانیہ‘ کے مقام سے بھی منسوب ہے۔ دوسری روایت کے مطابق 7 بیبیاں چھپتے چھپاتے یہاں پہنچ گئیں۔ ان کا پیچھا کیا جا رہا تھا۔ پیچھے کرنے والوں کو ان کا سراغ ملا تو اس وقت کے بادشاہ سے ان کی قیمت طے ہونے کے بعد ان پاک باز اور باپردہ بیبیوں کو بادشاہ کے حکم سے اس عمارت کے تہہ خانے میں ہی زندہ جلا دیا گیا تھا۔“ اللہ عالم
ان روایات میں سے کون سی سچ ہے، وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یقین کریں اس زندان نما مقام پر عجیب سی خاموشی اور خوف ہے۔ میرے لئے تو یہاں زیادہ دیر قیام ممکن نہ رہا ہے۔ وہاں آج بھی مرد کو جانے کی اجازت نہیں البتہ خواتین جاتی ہیں۔
کشتی سے اتر کر سیڑھیوں کی ایک لمبی قطار چڑھ کر ہم اس یادگار کے داخلی دروازے پر پہنچے ہیں۔ اس یادرگار کے تہہ خانے میں ست سہلیوں کا یادگاری کمرہ ہے۔ وہ کمرہ بھی ہے، جہاں بیبیوں کو جلایا گیا تھا۔ جس کے متعلق روایات اوپر بیان کر دی گئی ہیں۔ مجھے کشتی کے ملاح بابا دینو نے بتایا؛ ”سائیں! سندھو ندی ہمالیہ سے نکلتی ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی اس ندی کا رگ وید میں بھی ذکر ہے۔ ایسے بہت سے مندر اور درگاہیں اس کے کنارے صدیوں سے قائم ہیں۔“
سندھو بتاتا ہے ”ان روایات کی وجہ سے یہ جگہ ستین جو آستان (7 سہیلیوں کا مزار) کے نام سے مشہور ہوئی۔ لوگوں کی اکثریت ستین جو آستان سے منسوب سات بیبیوں کو آج بھی عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ مسلمان یہاں بیٹیوں کے بہتر مستقبل کی دعا مانگنے آتے ہیں جبکہ ہندو عقیدہ کے مطابق اس جگہ کا نام ’ستی‘ کی رسم سے منسوب ہے، جس کے مطابق ہندو عورت خاوند کی وفات پر خود کو زندہ آگ کے سپرد کر دیتی تھی۔ اس کے برعکس تاریخ نویسوں اور محققین کا خیال ہے کہ 7 بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور صرف روایات کی بنیاد پر ہی قائم ہے جو نسل در نسل ہم تک پہنچی ہے۔ تاریخ اس روایت کے حوالے سے کوئی مستند ثبوت یا شواہد پیش نہیں کرتی ہے۔ تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ اسے لکھتا کوئی اور ہے۔
ستین جو آستان کے نام سے شہرت پانے والی یہ جگہ درحقیقت ’قاسم خوانی‘ ہے جسے خان زمان گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین خاں نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا اور اس کا نام ’صفحہ صفا‘ رکھا تھا۔ خان زمان چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی رنگ و سرور کی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔“
”میرے دوست! تاریخی حوالہ سے بات کی جائے تو مسلمان ہوں یا غیر مسلم سندھو کو سبھی انتہائی اہمیت سے دیکھتے ہیں۔ ’ستین جو آستان‘ کی تعمیر کے لئے بھارت کے مختلف علاقوں سے قیمتی پتھر منگوائے گئے۔آستان پر موجود قبروں (یہ تقریباً 100 ہیں) پر شاندار کاشی کاری کی گئی ہے۔ ایسی کاشی کاری مکلی، ٹھٹہ، چوکنڈی، جام لوہار (تونگ) ضلع تھر پارکر، سندھ و بلوچستان کے سرحدی علاقوں کی قدیم عمارات پر بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ’ستین جو آستان‘ پر ماہر کاریگروں نے نقش و نگاری کرنے کے علاوہ عربی و فارسی زبان میں قبروں پر عمدہ کندہ کاری کرکے اپنی مہارت اور فن کی چھاپ رہتی دینا تک چھوڑ دی ہے۔“
”کیا تم جانتے ہو“؟ سندھو نے مجھ سے پوچھا اور حسب عادت میرا جواب سننے بغیر خود ہی کہنے لگا؛ ”اس دور میں میرا رخ اروڑ کی جانب تھا۔ ابوالقاسم نے اپنے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا تھا، جو سطح زمین سے تقریباً چالیس (40)فٹ بلند تھی۔400 سال قبل جب یہاں تعمیر کا آغاز ہوا تو بکھر (سکھر) کا عروج تھا۔ یہ ’گیٹ وے ٹو سندھ‘ کہلاتا تھا۔ کابل، چین جانے والے تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے قیام کرتے تھے۔ پرانا راستہ وہی ہے جس سے آج انڈس ہائی وے گزرتی ہے۔ خان زمانہ کی محفل رقص و سرور کے مواقع پر سیکیورٹی کے خاص انتظامات کئے جاتے تھے اور محافظوں کے لئے سیڑھیوں کے قریب ہی گارڈ پوسٹ تھیں جو آج بھی زمانے کے تغیر سے محفوظ اُس دور کی یاد دلاتی ہیں مگر اب یہاں نہ کوئی چوکیدار ہے نہ کوئی محافظ، نہ انسانوں کی بھیڑ اور نہ ہی کسی مغینہ کی آواز گونجتی ہے۔ یہاں اب خاموشی کا راج ہے۔“
مجھے ایک سیانے کی بات یاد آ گئی؛ ”خاموشی خالی نہیں ہوتی اس میں لاتعداد باتوں کا جواب ہوتا ہے۔ خاموشی کا ادب کرو۔ یہ آوازوں کی مرشد ہے۔“
کچھ ایسی ہی کیفیت یہاں کی خاموشی میں ہے۔ ’موئن جو دڑو‘ کی تباہی کے کچھ عرصہ بعد راجہ داہر کے دور میں اروڑ آباد ہوا، اس کے کچھ عرصہ بعد ماضی کا بکھر موجودہ سکھر آباد ہوا۔ مغلیہ دور میں گورنر ابو لقاسم نے اس جگہ (ستین جو آستان) کو اپنا ٹھکانا بنایا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیکھ بھال بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ستین جو آستان کو بھی گردش زمانہ نے خوب نقصان پہنچایا ہے۔ تعمیر کردہ بارہ میناروں میں سے چند ایک کے سوا باقی مینار خستہ حال ہو چکے ہیں۔ ستین جو آستان کے نیچے لائم اسٹون تیزی سے خراب ہو رہا ہے اور ایک لیزر کی طرح ہوا اور نمی نے پہاڑی کا بہت سا حصہ کاٹ دیا ہے۔ دور سے دیکھا جائے تو یہ پیالے کی مانند نظر آتے ہیں۔
”وصیت کے مطابق ابو قاسم المعروف نمکین خاں اور ان کے قریبی عزیز و اقارب کو اسی مقام پر دفن کیا گیا اور ان کی قبروں کی تزئین، خطاطی اور نقش ونگاری کے لئے ہندوستان سے بہترین کاریگروں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ یہاں دفن ہونے والوں کو ان کے رتبے کے مطابق مخصوص جگہ پر ہی دفن کیا جاتا تھا۔ خان زمان میر ابو قاسم المعروف نمکین خاں گورنر سندھ سب سے اونچے مقام پر دفن ہیں (شاید یہ بھول کر کہ اللہ کے ہاں اونچا مقام پرہیز گار کو حاصل ہے) جبکہ گورنر کے اہلخانہ، عزیزو اقارب اور قریبی تعلق داروں کی قبریں راجستھان کے زردی مائل پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔ ستین جو آستان میں کم و بیش سو (100)چھوٹی بڑی قبریں ہیں جن میں کچھ پر اکبراعظم کے دور کے رسم الخط کے کتبے نصب ہیں۔ چار سو (400) سال قبل خان زمان کا بنائے جانے والے ستین جو آستان پر آمدورفت کوئی آسان نہ تھی۔ دشوار گزار راستوں سے گزر کر آخری سرے تک پہنچنا پڑتا اور اوپر جانے کے لئے پتھر کی سیڑھیاں بنوائی گئی تھیں جوآج تک قائم ہیں۔ ان سیڑھیوں سے چڑھنا بھی کوئی آسان نہیں ہے لیکن جیسے جیسے آپ بلندی کو جاتے ہیں ارد گرد کا نظارہ دلکش ہے اور ان نظاروں کی سب سے بڑی دلکشی خود سندھو کا بہنا ہی ہے۔“
”سابق خان زمان المعروف نمکین خاں کے متعلق کہا جاتا ہے، کہ انہیں پھلوں میں خربوزہ سب سے زیاد پسند تھا۔ ستین جو آستان کے نزدیک وسیع علاقے پر سبزیوں سمیت خربوزہ کی فصل بھی کاشت کرائی جاتی تھی۔ مقامی خربوزہ انتہائی لذیذہوتا تھا، بعض کتابوں میں تحریر ہے کہ ابوقاسم خربوزے کو اتناپسند کرتے تھے کہ وہ دن میں کئی کلو خربوزہ کھایا کرتے اور اپنے دوستوں کی خاطر تواضع اسی پھل سے کرتے تھے۔“
آئیے سائیں، جیرو (اصل نام نذیر ملکانی) کی کشتی میں ’سادھ بھیلو‘ چلتے ہیں۔ سکھر کا ایک اہم اور متبرک مقام۔ ’سادھ بیلو‘ ۔ دریائے سندھ میں سکھر کے قریب ایک جزیرہ ”تیرتھ استھان“ میں واقع ہندوؤں کا بڑا مندر اور متبرک مقام ہے۔ سادھو بیلہ بننے سے پہلے یہاں دو پہاڑیاں تھیں اور یہاں کا گھنا جنگل ’منک پربت‘ (menak parbat) کہلاتا تھا جس کا ذکر ہندو مذہب کی پہلی مقدس کتاب رگ وید میں بھی ہے۔ یہ مقام سندھو کے عین وسط میں ہے۔ مجھے کشتی میں سوار ہندو پنچایت کے مکھی ایشور لعل ماکیھ نے بتایا؛ ”جس طرح ہندوؤں میں ہمالیہ سے نکلنے والی گنگا اپنے تقدس کی وجہ سے اہم مانی جاتی ہے اور اس کے کنارے بسے ہوئے کاشی، پریاگ، ہری دوار وغیرہ مقدس مقامات مانے جاتے ہیں اور وہاں نہانا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے، اسی طرح ہندوؤں کے اس تیرتھ استھان خاص مواقع پر نہانا یا اشنان کرنا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں عظیم درویشوں اور یوگیوں نے پوجا، چلہ کشی اور تپسیا (بندگی) کی ہے۔ اسی لئے اس مقام کا تقدس زیادہ ہے۔ ہماری مذہبی کتابوں کے مطابق یہاں بڑے بڑے رشی منی (مہارشی) پوجا کرتے تھے اور ان سے اس جگہ کی تعریف سن کر روایت کے مطابق ایک ہندو سادھو ’بابا بکھنڈی مہاراج‘ 7 صدیاں قبل نیپال سے یہاں پدھارے اور میناک پربت کے اُسی مقام پر سادھو بیلہ کی بنیاد رکھی۔ یہ 1880ء بیساکھ کا بڑا دن تھا۔ اس مقام پر انہوں نے جگت گرو سر پچند مہاراج کی تپسیا کی اور جگت گرو نے درشن دیتے ہوئے دعا دی کہ یہ استھان دنیا بھر میں مقدس مانا جائے گا۔ بابا سرپچند بابا گرونانک کے بڑے فرزند تھے اور انہیں شوشنکر کا اوتار مانا جاتا ہے۔۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ہندو دھرم میں دریائے سندھ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ریگ وید میں سندھو کا ذکر 100 بار جبکہ گنگا کا صرف 2 بار آیا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق نجات حاصل کرنے کے لئے یہاں ’چکر تیرتھ‘ اور ’برہم تیرتھ‘ ہیں۔ دریائے سندھ پہلے ’نارائین سر‘ سے سمندر میں اترتا تھا لیکن ایک زلزلے کی وجہ سے یہ علاقہ سمندرر میں غرق ہو گیا اور پھر سندھو کیٹی بندر کے قریب سمندر میں اترنے لگا ہے۔“
ایک دوسری کمزور روایت کے مطابق ایک عرب کمانڈر ”سعید“ نے اس جزیرے کو فتح کیا اور اسی کے نام پر اس جزیرہ کا نام ہے۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔