سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط41)

شہزاد احمد حمید

ہم ’اٹک برج‘ پہنچے ہیں۔ خیبر پختون خوا اور پنجاب کو ملاتا یہ پل تاریخی مقام اور میرے دائیں طرف سے بہتے سندھو اور سامنے کالا چٹا پہاڑ کے دامن سے بہتے دریائے کابل کا سنگم بھی۔ اس پل سے ان دریاؤں کے سنگم کا نظارہ شاندار ہے۔ میرے بائیں ہاتھ جرنیلی سڑک کو چھوتی ’اٹک قلعہ‘ کی اونچی دیوار ہے۔ اس شاہراہ کے دائیں بائیں بہت سی پرانی تاریخی عمارات کے کھنڈر دور تک بکھرے ہیں۔ یوں سمجھ لیں اس سڑک کے اطراف مختلف ادوار کی پوری تاریخ کروٹیں لیتی نظر آتی ہے۔ میرا چشم تصور بھی تاریخ کی انہی بھول بھلیوں میں لے گیا ہے۔کہیں مجھے بدھ بھکشوؤں سے پالا پڑا ہے تو کہیں کوئی پروہت منتر کرتا نظر آیا ہے تو کہیں کوئی سادھو دھونی دیتا دکھائی دے رہا ہے تو کہیں مجھے لوگ کسی درویش کے گرد جمع اپنی اچھی قسمت جگانے یا مشکلات سے نجات پانے کے لئے دعائیں کرواتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سندھو کنارے کچھ قافلے اس پار اترنے کے لئے کشتیوں کے پل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ قریب ہی کچھ امراء اپنی خواتین سمیت شاہی کشتی پر سندھو کی سیر کو اترے ہیں۔ اکبری قلعے کے دامن میں مقامی خواتین کپڑے دھونے میں مصروف ہیں لیکن قلعے کا ماحول کچھ اداس ہے کہ یہاں آج حکومت کے باغی کو سولی چڑھانے کی تیاری ہے۔ ہر طرف سناٹا ہے۔حد نظر پہاڑ ہیں یا دونوں دریاؤں کا بہتا پانی۔۔

”سنو دوست!“ سندھو پھر سے داستان سنانے لگا ہے، ”اٹک برج مغربی جانب سے پنجاب میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ نامور مہم جو، تاریخ ساز بادشاہ، جرّی سپہ سالار اور عظیم بزرگ ہستیاں، مبلغ سبھی اسی تاریخی راستے سے گزرتے مختلف ادوار میں سندھو کے سینے کو چیرتے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جاتے دیکھ رہا ہوں۔ کچھ نے یہاں اپنے خاندان کی حکومتیں قائم کیں، کچھ نے اس دھرتی کو لوٹا، کچھ بربریت کی داستانیں رقم کر گئے، انسان سے محبت رکھنے والے کچھ اللہ کی برگزیدہ ہستیاں ذات پات میں بٹے ہندوستان میں اسلام کا محبت، امن اور رواداری کا درس دے کر امر ہو گئے۔“

حضرو ضلع اٹک پنجاب پاکستان کا ایک مشہور شہر ہے جو راولپنڈی اور پشاور کے تقریبا درمیان میں واقع ہے یہ شہر تحصیل حضرو کا صدر مقام ہے۔

”حضرو کی ثقافت صوبہ پختون خوا سے بہت ملتی ہے۔ لوگ مہمان نواز، سادہ اور فوجی ملازمت کے شوقین ہیں۔ خواتین پردے کی پابند ہیں جبکہ مرد محنت مزدوری کرتے ہیں۔ چھاچھی، پشتو اور ہندکو زبانیں یہاں بولی جاتی ہیں لیکن ہندکو مادری زبان کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ میرے کنارے یہاں جتنے بھی گاؤں آباد ہیں، وہاں رہنے والوں کی اکثریت ہندکو بولتی ہے۔ وہ دیکھو میرے کنارے کچھ خواتین دوپٹے سر پر باندھے اور کچھ ننگے سر کپڑے دھونے میں مصروف ہیں۔ (ایسے مناظر تمھیں آگے کے سفر میں اکثر دیکھنے کو ملیں گے)۔ مجھ میں نہاتی، گپ شپ لگاتی یہ خواتین دھلے ہوئے کپڑے سر پر اٹھائے گھروں کو لوٹیں گی تو دن کا زیادہ حصہ بیت چکا ہوگا۔ مجھ پر کپڑے دھونے کے لئے آنا میرے کنارے آباد بستیوں کی خواتین کی صدیوں پرانی روایت اور تفریح ہے۔“

”تربیلا یہاں سے بیس(20) اور بروتھا پچاس(50) کلو میٹر کی مسافت پر ہیں۔ ماضی قریب تک ان بستیوں میں رہنے والوں کی زیادہ تر باراتیں سجی سجائی کشتیوں پر ہی آتی جاتی تھیں، گو اب یہ رواج کم ہو گیا ہے۔ آج کی باراتیں سجی ہوئی لاریوں اور دلہا سجی ہوئی کار میں سوار ہوتا ہے۔ کبھی مجھ میں پانی کی آمد اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ دریائے کابل کا پانی آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے حضرو تک کا علاقہ ڈوب جاتا لیکن اب ایسا کم کم ہی ہوتا ہے۔ معاشی لحاظ سے حضرو خوشحال علاقہ ہے۔ یہاں کے بسنے والوں کی بڑی تعداد اب برطانیہ میں آباد ہو چکی ہے۔“

آسمان پر اڑتے پرندے گھونسلوں کی راہ لئے ہیں۔ یہ شام کا سندیسہ اور مغرب کا وقت ہے۔ آسمان پر دونوں وقت مل رہے ہیں اور زمین پر دو دریا، دریائے سندھ اور دریائے کابل۔ (دریائے کابل، کابل شہر سے بہتر (72) کلو میٹر مغرب میں ہندو کش (یونانی ہندوکش کو ”کوپس“ kophes کہتے تھے) کے ذیلی پہاڑی سلسلے کی شاخ ’سنگلاخ رینج‘ سے جنم لیتا کابل وادی کو شاداب کرتا جلال آباد سے گزرتا، ہلمند اور کابل کے صوبوں کے درمیان سرحد کا کام کرتا طورخم کے مقام سے پاکستان میں داخل ہو کر وارسک پر چار سو(400) میگا واٹ بجلی پیدا کرتا، چار سو پینتیس (435) کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے اٹک کے مقام پر سندھو میں گر تا ہے۔ اس سنگم کے قریب ہی ’کنڈ پارک‘ ایک بڑا تفریحی مقام ہے۔ یہ پارک ایک چھوٹے سے جزیرے کا منظر پیش کرتا ہے۔ مقامی لوک گلوکار رباب اور طبلے جیسے مقامی آلات موسیقی سے روایتی چوپال میں لوک گیت کی دھنیں فضا میں بلند کرتے رہتے ہیں۔ اس چوپال سے کچھ ہی فاصلے پر سیاح کشتی رانی سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ پارک 2000ع میں کالے ریچھ کے تحفظ کے لئے ’ورلڈ سوسائٹی فار پرو ٹیکشن آف اینی ملز‘ (world society for protection of animals)نے تعمیر کیا تھا لیکن 2010ء کے سیلاب نے اسے تباہ کر دیا اور پانی کا بڑا ریلہ یہاں رکھے نایاب ریچھوں کو بھی بہا لے گیا، نتیجتاً پنجرے خالی رہ گئے جو آج بھی خالی ہی ہیں۔

اٹک بھی عجیب نام ہے۔ دراوڑی زبان کے لفظ اٹک کے معنی ہیں ’دلدلی زمین‘۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق؛ ”ترکی زبان میں لفظ ’اتک‘ سے مراد ’دامنِ کوہ‘ ہے، کیونکہ یہ شہر کالا چٹا پہاڑی سلسلہ کے دامن میں آباد ہے اسی لئے اسے اتک کہا جاتا تھا جو بعد میں بگڑ کر اٹک بن گیا۔“ اس کا ایک اور نام ’کیمبل پور‘ بھی تھا۔ 1849ء میں پنجاب کے گورنر ’سر کالن کیمبل‘ کے نام کی نسبت سے۔ یہ پنجاب کے جنوبی ترین ضلع راولپنڈی سے اسی (80)اور پشاور سے سو (100) کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ پاکستان ائیر فورس کا مان ’کامرہ ائیرو ناٹیکل کمپلیکس‘ یہا ں سے صرف چھ (6) کلو میٹر دور ہے۔ 1978ء میں اس شہر کا پرانا نام اٹک بحال ہوا اور قدیم شہر اٹک خورد کہلانے لگا۔ یاد رہے اٹک خورد ہی وہ قدیم قصبہ ہے، جو سکندر اعظم کے دور میں بھی آباد تھا اور “گیٹ وے ٹو سنٹرل ایشیاء‘ کہلاتا تھا اور شاید آج بھی ایسا ہی ہے۔

اٹک اور سندھو کا بڑا گہرا اور پرانا تعلق ہے۔ یہ علاقہ خام تیل کے ذخائر کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ (پاکستان میں تیل کا پہلا کنواں اسی ضلع میں ”کہار“ کے مقام پر 1915ء میں دریافت ہوا تھا)۔اسی ضلع کی تحصیل ’جنڈ‘ آئل اینڈ گیس فیلڈکی وجہ سے ملک گیر شہرت رکھتی ہے۔ ’کالا چٹا‘ اور کٹا پھٹا ’مکھڑ جنڈال‘ پہاڑی سلسلے بھی اسی ضلع میں ہیں۔ سندھو کالا چٹا پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ تقریباً اسی (80) کلو میٹر تک بہتا دلفریب نظارہ دیتا ہے۔ ’سون وادی‘ (کچھ لوگ اسے سواں وادی بھی کہتے ہیں) بھی اسی ضلع میں ہے۔ مری کی پہاڑیوں سے جنم لینے والا ’سون ریور‘ اس وادی کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتا ہے۔ سون ریور سمیت اس وادی کی دیگر ندیاں سبھی سندھو میں گرتے ہیں۔

مجھے سندھو کی آواز نے متوجہ کیا ہے؛ ”میں اٹک قلعے کی طرف بڑھ رہا ہوں۔ اٹک خورد پر بنے پرانے پل سے میں سطح سمندر سے تقریباً دو (2000) ہزار فٹ کی بلندی پر بہتا ہوں۔ لوگوں کے لئے اٹک قلعہ خوف کی علامت ہے، جبکہ یہ مجھ سے ڈرتا ہے۔ کبھی یہاں صرف پہاڑ تھے۔ بہت سے حملہ آور اسی جگہ سے مجھے عبور کر کے ہندوستان کے مختلف علاقوں کی طرف بڑھے۔ میں مغرب سے آنے والے مہم جوؤں کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہوں۔ آج بھی میرا رعب و دبدبہ ہے۔ سکندر اعظم ہو یا امیر تیمور، غزنوی ہو یا غوری، بابر ہو یا نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی ہو یا فرنگی سبھی یہاں سے گزرے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ میرے ہی کنارے جلال الدین خوارزم شاہ نے چنگیز خاں کا شیر دلی سے مقابلہ کیا تھا۔ جب ہار یقینی ہو گئی اور چنگیز خاں سمجھا کی اب خوارزم شاہ کو گرفتار کرنے کی اُس کی دلی خواہش پوری ہونے کو ہے اور جلال الدین اس کے ہاتھ آنے ہی والا ہے (یاد رہے کہ چنگیز خاں کو ساری عمر یہ کلک رہا کہ وہ جلال الدین خوارزم شاہ کو زندہ گرفتار نہ کر سکا تھا۔) تو خوارزم نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور کالا چٹا پہاڑ کی ایک بلند چٹان سے خود کو گھوڑے سمیت میری موجوں کے سپرد کر دیا۔ میں بھی بہادروں کا قدر دان ہوں۔ میں نے بھی خوب اُس کی قدر کی اور اس کے گھوڑے کو ڈوبنے نہیں دیا اور سلامتی سے پار لگا دیا۔ وہ شیردل زخمی حالت میں بھی اپنے وفادار گھوڑے سمیت میرے دوسرے کنارے جا نکلا۔ چنگیز خاں دور پہاڑی چٹان پر کھڑا یہ سب دیکھ کر جلال الدین کی بہادری پر ششدر رہ گیا تھا۔ خوازم شاہ چنگیز کو دیکھ کر مسکرایا۔ اس وقت چنگیز خاں نے یہ تاریخی جملہ بولا جو اس کے ’منشی عطاءالملک الجوانی‘ اور ’ابن خلدون‘ نے اپنی اپنی تصنیف میں رقم کیا ہے؛ ’بیٹا ہو تو ایسا۔ خوش قسمت ہے وہ باپ، جس کا ایسا بہادر بیٹا ہو۔‘

”زیادہ تر حملہ آور سردیوں میں گھوڑوں، کشتیوں سے یا کشتیوں کا پل بنا کر مجھے عبور کیا کرتے تھے کیونکہ اس موسم میں مجھ میں پانی کی مقدار کافی کم ہوتی ہے۔ مغل شہنشاہ بابر نے تو مجھے تیر کر بھی عبور کیا ہے۔ کیا زبردست انسان تھا۔ بقول مؤرخ ’لین پول‘ ، ’وہ تاریخ کے نامور بادشاہوں میں بہترین بادشاہ تھا۔ بہادر، رحم دل، ذہین، قول کا پکا، جان نثار دوست، محبت کرنے والا باپ، غم گسار شوہر، رحیم بھائی، اعلیٰ سپہ سالار۔‘
میں نے بادشاہوں،فقیروں، گداؤں، درویشوں، اولیاء کرام، تاریخی ہستیوں، قافلوں اور مختلف قوموں کی افواج کو یہاں سے گزرتے دیکھا ہے۔ اٹک قلعہ کی تعمیر کا بھی میں گواہ ہوں۔ یہیں دریائے کابل مجھ میں ملتا ہے۔ وہ دیکھو سبز پانی جو تمہیں دکھائی دے رہا ہے، دریائے کابل ہی ہے۔ قدرت کا کمال دیکھو ہم دونوں دریاؤں کا مختلف رنگ کا پانی کافی دور تک ساتھ ساتھ بہتا ہے، پہلو بہ پہلو بنا ایک دوسرے میں مدغم ہوئے۔“

باس نے پوچھا؛ ”یہ قلعہ کب تعمیر ہوا تھا۔“ سندھو نے جواب دیا؛ ”1583ء میں اکبر اعظم کے وزیر خواجہ شمس الدین خاقانی کی سرپرستی میں تعمیر کیا گیا۔ تب فوج رہتی تھی، قدیم سلطنتوں کے باغی بھی یہاں پابند سلاسل ہوتے، جرائم پیشہ بھی اور بعد کے دور میں سیاسی کارکن بھی یہاں باندی بنا کر لائے جاتے رہے ہیں۔ کچھ کو اس جہاں سے اگلے جہاں بھیجنے کے لئے، کچھ کی سیاسی وفاداریاں بدلنے کے لئے، کچھ کو صرف اذیت دے کر زبان بند کرانے کے لئے اور کچھ کو باقی عمر زندان میں گزارنے کے لئے۔۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا اور آج بھی یہ کھیل جاری ہے۔حکومتوں پر تنقید یا سچ بولنے کی قیمت ہر دور میں انسان کی زبان بندی سے کی جاتی رہی ہے۔ ازل سے شروع یہ سلسلہ ابد تک رہے گا۔ ہم صرف وہ آوازیں سننے کے عادی ہیں جو ہمیں پسند ہوں یا جو ہم سننا چاہیں۔ سیاسی نظرئیے پر قائم سچے لوگ مٹ گئے لیکن اپنے نظرئیے سے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے۔ ضیاء الحق نے تو ذوالفقار علی بھٹو کے جیالوں کو ان کا حوصلہ توڑنے کے لئے بھی یہاں نظر بند کیا تھا۔ وہ ان کا عزم اور حوصلہ توڑنے کی خواہش دل میں لئے ملک راہی عدم ہو گیا۔“

”اکبر اعظم کا تعمیر کردہ یہ قلعہ آج دنیا کی چند بہترین کمانڈو فورسز میں سے ایک ’پاکستان اسپیشل سروسز گروپ‘ (ایس ایس جی) کی ایک بٹالین کا ہیڈ کواٹر ہے۔ اکبری قلعہ آج بھی فخر سے سر اٹھائے کھڑا اکبر کے دور کی گہری یاد دلاتا ہے۔ سکھ دور میں سندھو کے دوسرے کنارے اکبری قلعے کے بالمقابل ’خیرا آباد‘ کا قلعہ تعمیر کیا گیا تھا لیکن اب اس کے کھنڈر ہی باقی ہیں۔ اکبری قلعہ آج بھی کھڑا ولولہ انگیزی کی داستان سنا رہا ہے جبکہ سکھ دور کا قلعہ تباہی کا نوحہ بیان کرتا ہے۔ یہ قلعے آمنے سامنے ہیں جنہیں سردی کے موسم میں کشتیوں کے پل سے ملایا جاتا تھا۔ کشتی کے یہ پل سرد موسم میں ہی استعمال ہوتے تھے۔ 1886ء میں انگریز نے یہاں اسٹیل (لوہے) کا مستقل پل تعمیر کیا جس کے اوپر سے ریل اور نیچے سے سڑک گزرتی ہے۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close