یورپی ملکوں نے جب ایشیا اور افریقہ پر قبضہ کیا تو اسے تہذیبی مشن کا نام دیا۔ اپنے دورِ اقتدار میں یورپی سامراج نے جس جبر و ظلم کے ساتھ مقامی باشندوں پر حکومت کی، ان کے مالی وسائل کو برباد کیا اور تہذیب کے بجائے اپنے پیچھے قتل عام اور خونریزی کی داستانیں چھوڑیں۔ تاہم جب انہوں نے اپنے سامراجی دور کی تاریخ لکھی تو اس میں اپنے کارنامے بیان کئے۔ جرنیلوں اور سیاست دانوں کو، جنہوں نے بربریت کا مظاہرہ کیا تھا، انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ مقامی باشندوں کو غیر مہذب اور جاہل کہہ کر ان سے نفرت اور حقارت کاسلوک کیا گیا۔ سفید فام کی نسلی برتری کو ثابت کر کے اپنے لیے حکومت کا حق لے لیا۔ فرانسیسیوں نے اپنی سامراج کی تاریخ میں ان واقعات کا کوئی ذکر نہیں کیا، جن سے اس کی نسل پرستی اور مقامی باشندوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک سامنے آتا ہے۔ یہاں آکر فرانسیسی سامراج کی تاریخ خاموش ہو جاتی ہے۔
ہیے لوتم نے ایک کتاب ”The Memory of Colonialism in Britain and France“ لکھی، جس میں اس نے فرانسیسی اور برطانوی سامراج کی یادوں کو پیش کیا ہے۔ یہاں ہم فرانسیسی سامراج کے بارے میں بتائیں گے۔
فرانسیسی سامراج کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے 1834ء میں الجزائر پر قبضہ کر کے نہ صرف اسے کالونی بنایا بلکہ اس کو فرانس میں شامل کر کے اس کی آزادی اور شناخت کو ختم کر دیا۔ 162 سال فرانس نے الجزائر پر سیاسی تسلط قائم کر کے یہاں فرانسیسی نوآبادکاروں کو بسایا۔ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا۔ ان کے کلچر اور زبان کو ختم کر کے فرانسیسی بنانے کی کوشش کی۔ جب عربوں کی جانب سے ان کے خلاف مزاحمت ہوئی تو بغاوتوں کو سختی سے کچل دیا گیا۔ مزاحمت کرنے والوں کو اذیتیں دی گئیں اور طویل قید و بند کی سزائیں بھی۔ عربوں کے مظاہروں پر پولیس گولیاں چلاتی تھی اور ان کا قتل عام کرتی تھی۔ 1960ء کی دہائی میں الجزائر کے عربوں نے فرانسیسیوں کے خلاف خونریز جنگیں لڑیں اور بالآخر اپنے ملک کو آزاد کرایا۔
فرانس کی تاریخ میں الجزائر کی جدوجہدِ آزادی کا اس قدر کم مواد ہے کہ فرانسیسی عوام اس المیے کو بھول گئے۔ لیکن 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں فرانس میں بائیں بازو کی تحریکیں اُٹھیں، انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ فرانس کو اپنے سامراجی جرائم کا اعتراف کرنا چاہیے، الجزائر کے لوگوں سے معافی مانگنی چاہیے اور ان واقعات کو تاریخ کی خاموشی سے نکال کر عام کے سامنے لانا چاہیے۔ تاکہ فرانسیسی قوم کو اپنے جرائم سے آگاہی ہو اور وہ نسل پرستی اور تہذیبی عظمت سے نکل کر حقیقت کو سمجھیں۔ بائیں بازو کے اس نظریے نے فرانس کے معاشرے میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا۔
دائیں بازو کی جماعتیں اور سیاست دان اس نظریے کے سخت مخالف تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی فرانس کو الجزائر میں کوئی شکست نہیں ہوئی بلکہ اس نے رضاکارانہ طور پر اسے آزادی دی۔ ان کی دوسری دلیل یہ تھی کہ الجزائر فرانسیسی ریاست کا ایک حصہ تھا، لہٰذا یہ خانہ جنگی تھی، جس میں فرانس نے اہلِ الجزائر کے مطالبات کو منظور کیا۔ ان دونوں نظریات پر فرانس کے مورخوں نے کتابیں لکھ کر حمایت اور مخالفت میں اپنے دلائل پیش کیے۔
فرانسیسی سامراج کی تاریخ کا دوسرا پہلو کریبین آئی لینڈ تھے جو فرانس کے قبضے میں تھے۔ وہاں افریقی غلاموں کو لا کر ان سے محنت و مشقت کرائی جاتی تھی۔ فرانس دوسری یورپی اقوام کی طرح غلاموں کی تجارت میں ملوث تھا۔ اگرچہ فرانسیسی انقلاب نے 1791ء میں غلامی کا خاتمہ کر دیا تھا، مگر نیپولین نے دوبارہ سے غلامی کو نافذ کیا۔ سینٹ ڈومینگو کے افریقی غلاموں نے 1791ء میں بغاوت کر کے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ نیپولین نے فوجی بھیج کر باغیوں کے خلاف جنگیں کیں اور اس کے راہنما Toussaint Louverture کو دھوکے سے قید کرکے فرانس بھجوا دیا، جہاں اس کی وفات ہوئی۔ کریبین آئی لینڈز کے افریقی باشندوں نے اس پر احتجاج کیا کہ فرانس کی تاریخ میں غلامی کا تذکرہ بھی ہونا چاہیے اور فرانس نے افریقی غلاموں سے جو محنت مشقت کرائی تھی، اس کا اعتراف کر کے اسے تاریخ کا حصہ بنانا چاہیے۔
سامراجی تاریخ کے خلاف تیسرا گروہ یہودیوں کا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جب جرمنی نے فرانس پر قبضہ کیا تو یہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی اور اس کے ذریعے فرانسیسی یہودیوں کو یا تو جلاوطن کیا یا انہیں جرمنی میں گیس چیمبر میں بھجوا دیا۔ اب یہودیوں کا مطالبہ تھا کہ فرانس اپنے جرائم کا اعتراف کرے کیونکہ یہودیوں کی لابی بہت طاقتور تھی، اس لیے فرانس کے صدر Jacques Chirac (d.2019) نے یہ تسلیم کیا کہ نازی قبضے کے دوران فرانس کے باشندوں نے یہودیوں کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لیا تھا۔
ایک اور گروہ، جو سامراجی تاریخ کو تبدیل کرنا چاہتا تھا، وہ ان لوگوں کا تھا جو الجزائر کی آزادی کے بعد فرانس آئے۔ ان کی نئی نسل کے لیے فرانس ایک نیا ملک تھا۔ وہ الجزائر کے ماحول کے عادی تھے، اس لیے فرانس میں خود کو اجنبی سمجھتے تھے۔ انہیں اس کا شکوہ تھا کہ فرانس نے ان کی حفاظت نہیں کی اور انہیں بے سہارا چھوڑ کر چلا آیا۔ وہ فرانس اور الجزائر کے رشتوں کو باہمی نقطہ نظر سے دیکھتے تھے۔ نئی سیاسی صورت حال میں ان کا مطالبہ تھا کہ فرانس نے ان کے ساتھ جو غداری کی ہے، اس کا اعتراف کرے اور فرانس میں رہتے ہوئے یہاں کے ماحول کو ان کے لیے سازگار بنائے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک تو وہ تاریخ ہے، جو حکمران طبقے اپنے مفادات کے تحت لکھواتے ہیں، جہاں ان کے مفادات پر حرف آتا ہے وہاں تاریخ کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔ حکمران طبقوں کے مقابلے میں ایسے طبقے اور جماعتیں ہوتی ہیں، جنہیں تاریخ کا حصہ نہیں بنایا جاتا ہے، لیکن موجودہ زمانے میں جب کہ لوگوں میں شعور اور آگاہی آگئی ہے اور جمہوری اداروں نے انہیں وہ حربے دے دیئے ہیں کہ جن کو استعمال کر کے وہ تاریخ میں اپنے وجود کو تسلیم کراتے ہیں۔
یورپی سامراجی ملکوں کے لیے یہ مشکلات ضرور ہیں کہ وہ اپنے جرائم کا اعتراف کریں، لیکن اب تاریخی واقعات کو چھپا کر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ مورخین برابر کوشش کر رہے ہیں کہ گمشدہ تاریخ کو سامنے لایا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ شاید طاقتور ممالک اس سے سبق سیکھ سکیں کہ تاریخ کی یادداشت گم نہیں ہوتی اور یہ وقت کے ساتھ اُبھرتی ہے۔ تاریخ نویسی میں تصحیح کرنے کی ذمہ داری ان اقوام کی بھی ہے، جو یورپی سامراج کے ماتحت رہے تھے۔ انہیں چاہیے کہ کلونیل تاریخ کے مقابلے میں اپنی تاریخ لکھ کر سامراجی جرائم کو اشکارا کریں اور خود بھی اس سے سیکھیں کہ وہ بھی اپنے تسلط کے لیے تاریخی واقعات کو چھپانے کی کوشش نہ کریں۔ مسخ شدہ تاریخ کبھی بھی نئی سوچ و فکر نہیں دیتی ہے بلکہ یہ گمراہی کا باعث ہوتی ہے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)