سندھو بتاتا ہے ”میرے ذریعہ تجارت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرے کنارے سرکش، لڑاکے اور قانون شکن قبائل آباد تھے اور تجارتی نقطہ نگاہ سے سفر کرنے والے قافلے خود کو کبھی محفوظ نہیں سمجھتے تھے۔ یہ قبائل اس قدر سرکش اور لڑاکے تھے کہ سکندر اعظم کے بہت سے سپاہی ان کے حملوں کی بھینٹ چڑھے اور محمود غزنوی کو بھی اپنی مہمات کے دوران ان کی مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔۔
”میرے کنارے صبح کا وقت دھند آلود ہوتا ہے۔ دیہاتی قسم کی کشتیوں میں لوگ میرے آر پار آتے جاتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ یہ سلسلہ اب کم ہو تا جارہا ہے۔“
میری خواہش رہی ہے کہ موقع ملے تو تربیلا سے سندھو کے ڈیلٹا تک موٹر بوٹ کے ذریعے سفر کیا جائے، یقیناً یہ بہت دلچسپ اور سنسنی خیز سفر ہوگا۔
’رتو ڈیرو‘ بھٹو خاندان کا آبائی حلقہ انتخاب، تقریباً 3 لاکھ کی آبادی کا قصبہ مگر انتہائی شکستہ حالت میں۔ ادھڑی سڑکیں، ٹوٹی گلیاں، ابلتے گٹر، نلوں میں چلتا آلودہ پانی، شکستہ سرکاری عمارات، اجڑے ہسپتال اور بے حال لوگ۔ یہ ہے بھٹو کا رتو ڈیرو۔ یہ بھٹو سے کیوں محبت کرتے ہیں، اس کا جواب انہیں کے پاس ہے۔ پچھلے پندرہ (15) برس سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی اگر بانیِ پیپلز پارٹی بھٹو کے آبائی حلقے کا یہ حال ہے تو سندھ کے دوسرے دیہی علاقوں کی زبوں حالی دیکھ کر مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا ہے۔ ہم رتو ڈیرو سے بھٹو خاندان کے مقبرے گڑھی خدا بخش چلے آئے ہیں۔ ہمارے سامنے سفید رنگ کی پر شکوہ عمارت سر اٹھا رہی ہے۔ اس سفید عمارت کے اندر وہ کردار ابدی نیند سوئے ہیں، جنہوں نے اس ملک کی ہی نہیں بلکہ برصغیر اور دنیا کی سیاست پر بھی اثرات چھوڑے ہیں۔ یہاں 2 وزیر اعظم، ایک خاتون اول، ایک وزیر اعظم کا بیٹا اور ایک وزیر اعظم کا بھائی ابدی نیند سوئے ہیں۔ اس اندھیری سڑک پر رات کو یہ مزار روشنی کا مینار بن جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اس خاندان کے سیاست دان غریب کی زندگی میں روشنی کی کرن تھے۔ بھٹو خاندان کی سیاست سے آپ جو بھی اختلاف کریں یہ مزار اور اس سے پھوٹتی روشنی آج بھی غریبوں، مزدوروں اور مظلوموں کے لئے ایک پیغام ہے۔ امید کا پیغام۔ فاتحہ پڑھ کر واپس انڈس ہائی وے پر آئے ہیں یہاں سے ہماری اگلی منزل لاڑکانہ کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ میرے بچپن کی کرشماتی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی لاجواب بیٹی مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا آبائی علاقہ۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی سیاست کی انتہائی قد آور شخصیت ہیں۔ جس سے آج بھی پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد محبت کرتی ہے۔ وہ بیگناہ پھانسی چڑھ کر امر ہو گیا اور اسے موت کی سزا دینے والے سبھی کردار منوں مٹی میں ہمیشہ کے لئے گم ہو کر گمنام ہو گئے ہیں۔ آج بھی ان کرداروں کو تاریخ اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتی ہے۔ عجیب اتفاق ہے سبھی غیر طبعی موت مرے۔ قدرت نے بھی خوب انتقام لیا۔ وجہ شاید بھٹو کا وہ تاریخی کارنامہ ہے، جب انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ اللہ کے ہاں کون مقبول ہے اور کون غیر مقبول، صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ بے شک قدرت اور تاریخ دونوں ہی اپنا انتقام لیتے ہیں اپنی مرضی سے، اپنے اصول سے اور اپنے طریقہ سے۔ تاریخ کے فیصلے عجیب اور حیران کر دینے والے ہوتے ہیں، جن سے آج تک نہ تو کوئی غاصب بچ سکا اور نہ ہی کوئی ظالم۔ مجھے شیخ سعدی ؒ کا قول یاد آ گیا؛”میں زندگی بھر دو لوگوں کو ڈھنڈتا رہا، پہلا جس نے کسی پر ظلم کیا ہو اور وہ اللہ کے غضب سے بچ گیا ہو اور دوسر وہ جو االلہ کی راہ میں صدقہ کرے اور مفلس ہو گیا ہو۔“
اس چھوٹے سے قصبہ ’گڑھی خدا بخش‘ کی جبین پر سنگ سفید سے تعمیر کی گئی بھٹوز (بھٹو، بے نظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو) کی قبریں سندھیوں کے ماتھے کا جھومر اور اس خاندان کے چاہنے والے ہزاروں عقیدت مندوں کو جذباتی کر دیتی ہیں۔ یہ درگاہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ہی نہیں بلکہ سندھ کی روحانی تاریخ کا بھی حصہ بن چکی ہے۔جس انداز میں باپ، بیٹی اور بیگم نصرت بھٹو کی موت ہوئی بے شک وہ ان قد آور شخصیات کا مقدر ہر گزنہیں ہونی چاہیے تھی۔ سندھی ثقافت میں وہ مظلوم قرار پائے اور اُس روحانی درجے پر فائز ہو گئے جو سندھی روحانی روایات میں اچھنبے کی بات ہر گز نہیں ہے۔ یہاں ایک عجیب سی اداسی ہے۔ کہتے ہیں مظلوموں کی درگاہیں اداس ہی ہوتی ہیں۔
سندھو بتاتا ہے ”دیہی سندھ سے گزرتے تمھیں یہ احساس ہوگا کہ غریب سندھیوں کے گھر آج بھی کچے اور مٹی سے ہی تعمیر کئے جاتے ہیں۔ مجھے 1842ء میں یہاں آنے والے ایک سیاح کی بات یاد آ گئی۔ وہ لکھتا ہے؛ ’تمام گھر مٹی کے بنے ہیں۔ بمشکل دس بارہ فٹ بلند چپٹی چھتیں۔ دیواروں میں ہوا اور روشنی کے لئے روشن دان۔ شدید بارش ان کو نقصان پہنچاتی ہے اور بعض دفعہ پانی کا تیز ریلہ ان کو بہا بھی لے جاتا ہے لیکن مٹی کے ان گھروندوں کی اچھی بات یہ ہے کہ انہیں آسانی سے دوبارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔“ اس تحریر کے تقریباً پونے دو سو سال بعد بھی ان آبادیوں کے حوالے سے کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ آج بھی سندھ کا دیہی علاقہ ایسا ہی ہے، جیسا سو سال پہلے تھا۔“ داستان گو کا حافظہ بھی بلا کا ہے۔
مجھے یاد آیا بہت برس قبل موت پیدائش کے اندراج کے طریقہ کار کا جائزہ لینے کے حوالے سے ایک سرکاری وزٹ کے دوران مجھے سندھ کے ایک دور افتادہ گاؤں ایک ہندو ساتھی جے کمار کے ہمراہ جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ گاؤں کے بہت سے کچے مکانوں میں ایک کچے مکان پہنچے تو سندھی زبان میں ایک نسوانی آواز سنائی دی، ”مہمان چانھ پیئندا۔“ (مہمان چائے پئیں گے۔) لمحوں کی خاموشی کے بعد یہ آواز دوباہ سنائی دی۔ مہمان چانھ پیئندا۔۔ میرے منہ سے ”ہوں“ کا ہنکارہ نکلا۔ میری ہوں سن کر اس خاتون کے چہرے پر مسکان آ گئی۔ اس نے چولہے میں لکڑیاں رکھیں، آگ جلائی اور پیتل کی میلی سی پتیلی میں چائے بنانے لگی ہے۔ میں نے اس کا جائزہ لیا۔ اس کے بازوؤں پر رنگ برنگی چوڑیاں ہیں۔ گلے میں تسبیح کے دانے کی طرح کا ہار اور ہاتھ کی انگلیوں میں دیسی نگوں والی انگوٹھی ہے۔ یہ اس گھر کی بہو اور کرشن کمار کی بیوی لال وتی ہے۔ بتانے لگی؛ ”اس کچی جھونپڑی میں وہ اور اس کا سسر رام لال رہتا ہے۔ اس کا خاوند کرشن کمار گاؤں سے دور نوکری کرتا ہے اور ہر ماہ کے پہلے 2 دن گزار کر واپس چلا جاتا ہے۔ ہم نے شکاری کتے اور سانپ پال رکھے ہیں۔ باہر سے آئے سیاحوں، شکاریوں اور مہمانوں کے لئے رام لال گائیڈ کا کام بھی کرتا ہے۔ اس کے کتے شکار میں مدد گار ہوتے ہیں اور وہ یہ معاونت بلا معاوضہ نہیں کرتا ہے البتہ سانپ پالنا اس کا خاندانی پیشہ ہے۔ ان کا زہر وہ بیچتا بھی ہے اور سانپ کاٹے کا علاج بھی کرتا ہے۔ یہی اس کی گزر اوقات ہے۔“ جے کمار کے پوچھنے پر لال وتی نے بتایا ”رام لال باہر گیا ہے بس آتا ہی ہوگا۔“ میں نے اسے پوچھا؛ ”تمھیں اکیلے ڈر نہیں لگتا یہاں۔“ کہنے لگی؛ ”ڈر کیسا، چار ٹانگوں والے ان کتوں سے ڈرتے ہیں اور دو ٹانگوں والوں کے لئے میں خود ہی کافی زہریلی ہوں۔“
اس جھونپڑی کا کچن بھی کیا ہے؟ بس مٹی کا چولہا، قریب رکھی خشک لکڑیاں، چند مٹی کے برتن، دوتین سلور کی پتیلیاں ایک پرانی دری، جس میں سوراخ نمایاں ہیں۔ زمین پر بچھی یہ دری کچا فرش چھپانے کی ناکام کوشش ہے۔ جھونپڑی کے دوسری طرف پڑی 2 چارپائیوں پر بوسیدہ کیس بچھے ہیں۔ چھت سے چند کپڑے اور روٹی رکھنے والی چنگیر لٹک رہی ہے۔ قریب ہی لالٹین رکھی ہے اور مٹی کے تیل کی بوتل بھی جو چولہا جلانے اور رات کچھ وقت کے لئے لالٹین روشن کرنے کے کام آتی ہے۔ ایک کونے میں کرشنا کی مورتی سجی ہے۔ 2 کمروں پر مشتمل جھونپڑی نما یہ گھر صاف ستھرا، عمدگی سے لیپ شدہ دیواریں اور صحن مگر ہے یہ کچا۔
باتوں ہی باتوں میں دروازہ کھلا اور پچاس ساٹھ برس کی عمر کا شخص داخل ہوا ہے۔ ”یہ ہے رام لال میرا باپو۔“ مجھے اس کی آواز سنائی دی۔ گہرا سانولا رنگ، چھوٹی چھوٹی داڑھی، بکھرے ہوئے سر کے سفید اور کالے بال۔ ان گوٹھوں میں رہنے والوں کی کوئی زندگی نہیں۔ اوپر آسمان اور نیچے سردار یا وڈیرا۔ اس خدائی زندگی کا مالک زمینی وڈیرا ہے۔ اُس کی مرضی غریب کی مرضی ہے۔ جان بھی اس کی، امان بھی اس کی، ووٹ بھی اس کا، عزت بھی اس کی۔ یہ غریب لوگ تو بس چلتی پھرتی زندہ لاشیں ہیں جن کی غمی خوشی شادی بارات سبھی وڈیرے یا سردار کے ہاتھ ہے۔اندرون سندھ سرداروں، وڈیروں یا ان کے کارندوں کا راج ہے۔ وڈیرے کی خواہش پوری ہوئی تو انعام اور انکار ہوا تو سزا۔۔ ویسے انکار کا لفظ اس دھرتی میں شاید ہے ہی نہیں۔ سچ تو یہ ہے”یہاں زمینی خدا بستے ہیں۔ ظالم، بے رحم اور معاف نہ کرنے والے۔“
ہمارا سفر جاری ہے۔۔ ابر آلود مطلع آفتابی کرنوں کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ صبح ابھی بھرپور نہیں ہوئی ہے۔ ہوا البتہ تازہ ہے۔ میں خیالوں کی دنیا میں گم دھائیوں قبل کے زمانے میں جا پہنچا ہوں۔ جیپ کے زور دار جھٹکے سے میرا ماضی کا سپنا ٹوٹ گیا۔ میں چونکا اور حقیقت کی دنیا میں واپس آگیا ہوں جہاں نین شعر سنا رہی ہے۔ بقول ایک سیانے کے ”شاعری جھوٹ کی اولین سچائی ہے۔“ محبت کا پہلا ثمر بڑا شیریں ہوا کرتا ہے۔ دل کی دھڑکن کا یہ ایسا پیغام ہے، جو روح کو گرما اور تڑپا دیتا ہے۔
کیا حسن اتفاق ہے ان کی گلی میں ہم،
اک کام سے گئے تھے، ہر کام سے گئے۔۔
ہم لاڑکانہ پہنچے ہیں۔ ثقافتی اور زرعی اعتبار سے یہ شہر ہمیشہ ہی خوشحال رہا ہے۔یہاں کا پانی میٹھا، امرود اور آم شیریں ہیں۔ ہندوستان اور ملکی سیاست میں اس ضلع نے نامور لوگ پیدا کئے جن میں سر فہرست بھٹو خاندان ہے۔ مجھے اللہ ڈنو بھٹو نے بتایا؛ ”سائیں! بھٹو شہید کے دور میں یہاں کے پارکوں، باغوں، سڑکوں کنارے سینکڑوں پھول کھلتے تھے، باغ باغیچے بلبل کے گیتوں سے سجتے تھے، پارکوں میں عمدہ اور خوبصورت درخت تھے۔ آہ! بھٹو سائیں کی پھانسی کے بعد یہ سب بھی مرجھا گئے اور آج تک مرجھائے ہی ہیں۔ شاید بھٹو کی موت کا سوگ انہیں آج بھی کھلنے نہیں دیتا۔“
مجھے بھٹو شہید کا قتل کے اُس مقدمے میں سپریم کورٹ میں دیا بیان یاد آ گیا ہے: ”کچھ طاقتیں مجھے منظر سے ہٹانا چاہتی ہیں وہ شاید اس میں کامیاب بھی ہو جائیں۔ میرا جرم قادیانیوں کو کافر قرار دینا ہے۔ میں چلا گیا تو ہمالیہ روئے گا، اس ملک کا کسان، مزدور محنت کش روئے گا۔ آپ (ججوں کی طرف اشارہ کرکے) روئیں گے۔“
اس وقت یہ باتیں سمجھ سے باہر تھیں۔ جو بھٹو صاحب نے کہا تھا، آج بڑی حد تک شاید سچ ہی ثابت ہوا ہے۔ بقول دانشورحسن نثار صاحب؛ ”اس ملک کو بھٹو کی بد دعا ہے۔“
میرا ہمدم، میرا ہمراز، میرا رفیق، میرا داستان گو سندھو کہنے لگا؛ ”چھوڑو! بات کہاں سے کہاں نکل گئی ہے۔ برا نہ مان لینا۔ آؤ واپس لاڑکانہ کی سڑکوں پر چلتے ہیں، جہاں دھول ہے۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔