پاکستان میں بٹگرام جیسے دور افتادہ پہاڑی علاقے سے ایک پٹھان 130 سال قبل کیسے تھائی لینڈ پہنچا؟ اب اس کی تیسری نسل وہاں کیا کر رہی ہے؟ یہ جاننے کے لیے میں تھائی لینڈ جا پہنچا۔
جی تھائی لینڈ میں بھی پٹھان ہیں اور انہیں وہاں کے قومی شناختی کارڈ پر ’پٹان‘ لکھا جاتا ہے۔
دارالحکومت بینکاک سے ایک مہربان دوست فیاض خان کی مدد سے دو گھنٹے کی گاڑی میں مسافت پر آثارِ قدیمہ سے مالا مال ایوتھیا پہنچ گیا۔ یہاں نہ بینکاک کی طرح اونچی اونچی عمارتیں ہیں اور نہ رش۔ شام کا وقت تھا، لہٰذا زیادہ گھوم پھر نہیں سکے اور فیاض خان نے باہر باہر سے ایک دو تاریخی کھنڈر دکھا دیے۔
یہیں ایک فارم پر ’سومکھت رونگوٹ‘ رہتے ہیں، جن کے دادا رحمان ولی 130 سال قبل بٹگرام سے زمینی راستے بنگال اور پھر تھائی لینڈ بلکہ اس وقت کے سیام نامی اس ملک پہنچے تھے۔ بڑے سے ایک کمپاونڈ کے اندر کئی گاڑیاں کھڑی تھیں اور ایک جانب رہائشی عمارت میں لے جایا گیا، جس کا آغاز انگریزوں کے طرزِ تعمیر یعنی برآمدے سے ہوتا ہے۔
سامنے کی دیوار پر لکڑی کے دو بڑے بیل کے سر لگے ہوئے تھے اور درمیان میں ایک بڑی ٹھوس بھاری لکڑی کی ڈائنگ ٹیبل لگی تھی۔ ہم گپ شپ کے لیے اسی کے اردگرد بیٹھ گئے۔ اسی احاطے میں مسجد کے پاکستان سے گئے امام اور بٹگرام کے چند دیگر نوجوان بھی ہماری باتیں سننے بیٹھ گئے۔
پاکستانیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دنیا کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ تاثر کسی حد تک درست ہے لیکن یہ سلسلہ کوئی آج سے شروع نہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل بھی اس خطے کے لوگ بہتر حالات کی جستجو میں نقلِ مکانی کرتے رہے۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ رحمان ولی کے پوتے سومکھت رونگوٹ جلد سوتے ہیں، لہٰذا ادھر ادھر کی ہانکنے سے بہتر سمجھا کہ براہِ راست اصل مدّے پر آئیں۔ سومکھت انگریزی یا اردو نہیں جانتے لہٰذا ان کی باتوں کے ترجمے میں میری مدد ان کے پوتے نے کی۔
پوچھا کہ ان کے دادا آخر یہاں کیوں آئے؟ سومکھت کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں 130 سال قبل بھی (اس وقت) کے پاکستان میں معاشی حالات اچھے نہیں تھے۔ پاکستانی لوگ بہت جدوجہد کر رہے تھے۔ وہ کچھ نیا کرنا چاہتے تھے، نیا آغاز کرنا چاہتے تھے۔
مختصر جواب سے تسلی نہیں ہوئی تو دوبارہ دریافت کیا کہ رحمان ولی کو اس وقت کیا سوجھی کہ وہ دنیا بھر کو چھوڑ کر تھائی لینڈ آئے؟
سومکھت نے عاجزی سے کہا کہ ”اس کا جواب ہم نہیں دے سکتے کیونکہ ہم ان سے ان کی زندگی میں نہیں مل سکے تھے۔ پاکستان سے آنے والے پٹھانوں کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایڈوینچر زیادہ پسند کرتے تھے۔ میرے دادا نیپال، بنگلہ دیش اور مینمار سے ہوتے ہوئے تھائی لینڈ پہنچے تھے۔“
”میرے دادا نے تھائی مسلمان لڑکی سے شادی کر لی جنہیں ملائن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا تعلق ملائیشیا یا انڈونیشیا سے ہوتا ہے۔ پھر وہ ایوتھیا آئے اور یہاں کاروبار شروع کیا۔“
آج کل رحمان ولی کی پہلی اور دوسری نسل ان کا شروع کیا ہوا کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا ”جو میں نے سنا ہے، میرا دادا پہلا شخص تھا جو آیا تھا۔ میرے دادا سے پرانا نقل مکانی والا مجھے یہاں نہیں ملا ہے۔ تھائی لینڈ آنے والے پٹھان صرف بٹگرام، مردان، صوابی اور بونیر سے آئے ہیں۔ پشاور سے کوئی نہیں آیا“
سومکھت نے بتایا کہ میں اپنے والد کی وفات کے بعد 34 سال قبل بٹگرام پہلی بار اپنے دوستوں کے ساتھ گیا تھا۔ ”اب تک میں چار بار جاچکا ہوں لیکن اب میں سال میں ایک مرتبہ ضرور جاتا ہوں“
”میں اس لیے جاتا ہوں کیونکہ ہمارا اس جگہ سے تعلق ہے۔ دنیا میں کئی مقامات زیادہ دلکش ہوں گی لیکن ہمارا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہاں (بٹگرام) ہمارا دل ہے۔“
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے والد سے کبھی دادا کی کوئی کہانی نہیں سنی تھی۔ ”بس ایک دن خیال آیا کہ چلو بٹگرام جا کر دیکھتے ہیں۔ جب میں پہلی مرتبہ گیا تو مجھے (بٹگرام سے) پیار ہو گیا۔ اب میرے بچے بھی جاتے رہتے ہیں۔“
دادا نے پاکستانی شہریت کیوں نہیں رکھی؟ اس سوال پر انہوں نے کہا ”اگر آپ ہم سے پوچھیں کہ ہمیں پاکستانی شہریت چاہیے یا نہیں تو ہم چاہیں گے کہ ملے، لیکن اس میں حکومتی مسائل ہیں۔ جب دادا آئے تھے تو ان کے پاس کوئی زیادہ دستاویزات نہیں تھیں لہٰذا ہمارے لیے شہریت لینا مشکل ہوگا“
گائے کے فارم ہاؤس پر بٹگرام سے لائے گئے چند رشتہ دار پاکستانی نوجوان بھی کام کرتے ہیں۔ سومکھت نے بتایا کہ ”جنہیں ہم یہاں لائیں ہیں، ان میں اکثر ہمارے رشتہ دار ہیں۔ ان میں ہمارے کزن کے کزن بھی شامل ہیں اگر انہیں وہاں کوئی کام نہیں ملتا تو ہم انہیں یہاں لے آتے ہیں۔ اس وقت بھی چھ پاکستانی میرے فارم پر کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالٰی کی برکت کی وجہ سے کام چل رہا ہے۔“
”وہاں سے آنے والے پٹھان اور مقامی مزدروں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ پاکستانی ہمارے رشتہ دار ہیں، خاندان کے لوگ ہیں۔“
سومکھت نے بتایا کہ ان کے والد کبھی بٹگرام نہیں گئے ہاں چچا اور چچی گئے تھے۔
پٹھان ہونے پر فخر ہے؟ اس سوال پر سومکھت نے بتایا کہ اگر انہیں فخر نہ ہوتا تو وہ بار بار کیوں پاکستان جاتے۔ ”سارا تھائی لینڈ پٹھانوں کی عزت کرتا ہے۔ جب پہلی مرتبہ بٹگرام گیا تو جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی مہمان نوازی تھی۔ میں چاہتا ہوں کہ پٹھان یہ روایت مضبوط رکھیں۔“
ان کے مترجم پوتے نے بتایا کہ وہ بھی دو مرتبہ بٹگرام جا چکے ہیں اور چترال سے ایک پاکستانی لڑکی سے شادی بھی کی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان سے ان کے کنکشن اب بھی مضبوط ہیں
سومکھت نے خاندانی پسِ منظر بیان کرتے ہوئے کہا ”میرے دادا کے 16 بچے تھے لیکن ان میں سے آدھے نہیں بچ سکے تھے۔ چار بھائی اور چار بہنیں زندہ ہیں۔ بڑی بہن نے بٹگرام میں شادی کی اور اب وہاں آباد ہے۔“
پشتونوں کی پسندیدہ نسوار تو تھائی لینڈ میں دستیاب نہیں، لیکن جڑی بوٹیوں سے بنی ایک ہربل کھانے کی چیز اس کی کمی مسحوس نہیں ہونے دیتی۔
سومکھت نے گفتگو میں وقفے کے دوران ان کے فارم کے جانوروں کے علاوہ حجرے میں پڑی بٹگرام کی چارپائیاں بھی دکھا دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں وہ اتنی پسند آئیں کہ اپنے لیے بنی بنائی دو تین ساتھ لے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ تھائی لینڈ کے ترکھان اگر انہیں کھول کر لائیں تو اس طرح دوبارہ نہیں بنا سکتے لہٰذا وہ بنی بنائی لائے۔
انہوں نے اکوڑہ خٹک کے مرحوم مذہبی رہنما سمیع الحق کے ساتھ اپنی ایک دورے کے دوران تصویر بھی دکھائی۔ ملاقات اور گروپ فوٹوز کے بعد روانگی کے وقت سومکھت کے فارم اور مکان کے صدر دروازے پر پاکستانی پرچم دیکھ کر یقین ہوگیا کہ انہیں واقعی پاکستان پر فخر ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)