چلتے رہنا بھی ایک موت ہے (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

رشید امجد

جوں ہی رات دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوتی ہے، کارنس پر رکھا مجسمہ آہستہ سے نیچے اترتا ہے اور اس کے سرہانے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے، وہ پوچھتا ہے۔۔۔ ’’کون؟‘‘

مجسمہ کہتا ہے۔۔۔ ’’میں؟‘‘

’’میں کون؟‘‘

’’میں ماضی ہوں۔‘‘

وہ سر اٹھا کر اسے دیکھتا ہے۔۔۔ ’’لیکن میں تمہیں نہیں پہچانتا۔‘‘

مجسمہ مسکراتا ہے۔۔۔ ’’ماضی سے سب کو خوف آتا ہے۔‘‘

وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا اور مجسمہ کی پتھرائی آنکھوں میں منجمد یادوں کو کریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ مجسمہ کی پتھرائی آنکھوں میں شناسائی کی گرماہٹ سر ابھارتی ہے، اسے اپنا آپ ڈوبتا محسوس ہوتا ہے۔ چند لمحوں میں کمرے کی ساری چیزیں ایک ایک کر کے گم ہونے لگتی ہیں۔ چاردیواری اپنا دامن سمیٹ لیتی ہے۔

وہ دیکھتا ہے کہ موجیں مارتا دریا اس کے سامنے ہے اور وہ مجسمے کی انگلی تھامے اس کے کنارے کنارے چلا جا رہا ہے۔

’’یہ کون سا دریا ہے؟‘‘ وہ پوچھتا ہے۔

مجسمہ لمحہ بھر کے لیے دریا کو دیکھتا ہے پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’یہ وقت ہے اور وقت کسی کا نہیں بنتا۔‘‘

کچھ آگے جا کر کسی شہر کے آثار شروع ہوتے ہیں۔

’’یہ کون سا شہر ہے؟‘‘

’’یہ ہمارا وجود ہے، جسے ہم جانتے ہیں اور نہیں بھی جانتے۔‘‘

وہ شہر میں داخل ہوتے ہیں۔

سڑکوں پر عجب ویرانی ہے۔

وہ چلتے چلے جاتے ہیں، لیکن کسی سے ملاقات نہیں ہوتی۔۔

’’یہ کیسا شہر ہے، جہاں کوئی نہیں رہتا۔‘‘

مجسمے کی پتھریلی آنکھوں میں زندگی رینگنے لگتی ہے اور اس کی پتھر انگلی میں لمس لہراتا ہے۔

وہ پھر اپنا سوال دہراتا ہے۔۔۔ ’’یہ کیسا شہر ہے؟‘‘

مجسمہ ہنستا ہے اور ہنستے ہنستے اس کا پتھریلا جسم ملائم ہوتا جاتا ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ اس جیسے جیتے جاگتے آدمی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

وہ چونک کر اس قلبِ ماہیت کا منظر دیکھتا ہے۔

مجسمہ، جو اب آدمی بن گیا ہے، اپنے ہاتھوں کو جھٹک کر پورے جسم کو ہلاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی شہر کی گلیوں، سڑکوں پر آدمی ایسے نمودار ہوتے ہیں، جیسے پلک جھپکتے میں زمین سے اگ آئے ہوں۔

وہ لمحہ بھر کے لیے ڈر جاتا ہے۔

چاروں طرف لوگوں کے بولنے کا شور اور ان کے چلنے پھرنے کی حرکتیں اسے بوکھلا دیتی ہیں۔

’’یہ کیا ہے۔۔۔ کیا میں کسی طلسم میں پھنس گیا ہوں؟‘‘

مجسمہ، جو اب آدمی بن گیا ہے۔۔۔ کہتا ہے۔۔۔ ’’یہ سب میں ہوں اور میں تم ہو۔۔۔ اس لیے یہ سب کچھ تم ہی تم ہو۔‘‘

اسے کچھ سمجھ نہیں آتا۔

شہر کا منظر کھلتا چلا جاتا ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں باتیں کرتے لوگ اس کی موجودگی سے بے خبر اپنی اپنی دنیا میں گم ہیں۔ دفعتاً منظر بدلتا ہے، ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے لوگ یک دم، کسی غیبی اثر سے، اپنی بانہیں چھڑا کر دور دور ہٹ جاتے ہیں اور پھر چشمِ زدن میں ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک دوسرے کو لہو لہان کر دیتے ہیں۔ چیختے چلاتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ وہ بھی اسی دھکم پیل اور مار دھاڑ میں بھاگ پڑتا ہے، بھاگتے بھاگتے اس کی نظر ایک بچے پر پڑتی ہے، جسے دوسرا بچہ نیچے گرا کر مارنے لگتا ہے۔ وہ چیختا ہے، یہ تو میرا بیٹا ہے۔ پھر اسے خیال آتا ہے، نہیں یہ میں ہوں، پھر دفعتاً ایک اور خیال آتا ہے، نہیں یہ میرا باپ ہے۔ نہیں یہ نہیں۔۔۔ نہیں میرا بیٹا۔۔۔ نہیں میرا باپ۔۔۔ ہم ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ وہ مارنے والا ہے اور نیچے گرا ہوا اس کا بیٹا ہے۔ نہیں نہیں مارنے والا اس کا باپ ہے اور نیچے گرا ہوا وہ ہے۔ وہ چیختا ہے۔ مجھے مت مارو مجھے مت مارو۔۔۔ وہ چیختا چلاتا جاتا ہے۔ منظر آہستہ آہستہ بدلتا ہے۔ شہر اور لڑتے لوگ دھندلے ہوتے ہوتے گم ہو جاتے ہیں۔ اس کا کمرہ آہستہ سے اسکرین پر ابھرتا ہے، رات دبے پاؤں اس کے کمرے سے نکل جاتی ہے اور مجسمہ کارنس پر جا کر پھر سے پتھر ہو جاتا ہے۔

وہ گھبرا کر ساتھ والے بستر پر سوتی بیوی اور بیٹے کو دیکھتا ہے۔

’’شکر ہے۔‘‘ وہ اطمینان کا سانس لیتا ہے۔

دن دروازے پر دستک دیتا ہے۔ وہ بستر سے اٹھتے ہوئے اپنے آپ سے کہتا ہے، ’آج کی رات بھی بیت گئی۔‘ لیکن اسے خوف ہے کہ کسی صبح جب وہ سو کر اٹھے گا یا تو ساتھ والے بستر پر اس کا بیٹا نہیں ہوگا، یا وہ خود نہیں ہوگا۔

اور کارنس پر رکھے مجسمہ کے ساتھ ایک اور مجسمے کا اضافہ ہو جائے گا!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close