کرسپر ٹیکنالوجی سے تبدیل شدہ دنیا کا پہلا گنّا تیار

ویب ڈیسک

فلوریڈا : گنّا دنیا بھر کی مقبول اور ہمارے لیے ضروری فصل ہے لیکن اس کی بہترین اور ماحول دوست اقسام کی ضرورت ہمیشہ محسوس ہوتی رہی ہے۔ اب کرسپر ٹیکنالوجی کی بدولت گنّے کی ایک قسم تیارکی گئی ہے جو قدرے ماحول دوست بھی ہے

موقر جریدے جینوم ایڈٹ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روایتی طریقوں سے گنّے کی نئی فصلیں تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا کیونکہ اس میں بہت محنت اور وقت صرف ہوتا ہے۔ اب CRISPR سی ایس نائن جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے بہت تیزی سے ایک بالکل نئے قسم کا گنّا اگایا گیا ہے

گنّا شکر کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے پتےاور تنے کا تیل بایوایتھانول جیسا ماحول دوست ایندھن فراہم کرتا ہے اور غیرمضرپلاسٹک بھی دیتا ہے۔ لیکن اس کی ماحولیاتی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ گنا کاشت کا وسیع رقبہ نگل لیتا ہے جس سے جنگلات سکڑتے ہیں اور اس کی کاشت کے لیے پانی کی بڑی مقدار بھی درکار ہوتی ہے۔ گنّے کی فصل اگنے کے بعد اس کے کچرے کو ٹھکانے لگانا ایک الگ مسئلہ ہوتا ہے

اب کرسپر بایوٹیکنالوجی کی بدولت یہ ممکن ہے کہ کسی بھی فصل اور جاندار کے مخصوص جین بند کئے جاسکتے ہیں، انہیں کاٹ کر الگ کیا جاسکتا ہے یا انہیں مفید جین سے بدلا جاسکتا ہے۔ یوں کئی جینیاتی امراض ختم کرنے میں کرسپر ٹیکنالوجی نے غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے

لیکن گنّے کا جین کا مجموعہ (جینوم) بہت پیچیدہ ہے کیونکہ اس میں کئی کروموسوم ہیں اور جین کی یکساں کاپیاں بار بار سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس طرح کسی بیماری یا خرابی کی وجہ بننے والے جین کی شناخت کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن اب یونیورسٹی آف فلوریڈا کے شعبہ جینیات اور اسی شہر میں واقع ڈی او ای سینٹر فار ایڈوانسڈ بایوپراڈکٹس نے مشترکہ طور پر کچھ مخصوص جین تلاش کر لیے ہیں، جو گنّے کے پودے کے ظاہری خدوخال تبدیل کرسکتے ہیں

پہلے مرحلے میں تو سائنسدانوں نے گنّے میں ان جین کا سوئچ آف کر دیا، جو میگنیشیئم چیلیٹیز بنا رہے تھے، جو ایک اینزائم ہے،  جس کی مدد سے پودا کلوروفِل بناتا ہے۔ اب اس کی کمی سے پودا رنگت کھوگیا اور اس کے پتے ہلکے سبز اور پیلے ہونے لگے۔ اس طرح ہلکا سبز گنا نائٹروجن فرٹیلائزر کا استعمال کم کرتا ہے لیکن فصل اور اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا

اسی طرح ایک اور مطالعے میں کرسپر استعمال کرتے ہوئے انفرادی نیوکلوٹائیڈز متعارف کرائے گئے تو اس سے وہ ضارکش دواؤں (ہربیسائڈز) کا بہتر مقابلہ کرنے لگے اور یوں ان پر کم دوا چھڑکنے کی ضرورت پیش آئی

ان دو کامیابیوں سے دنیا بھر کے کھیتوں میں ایسے گنّے کی کاشت ممکن ہو سکے گی، جس سے کئی ماحولیاتی مسائل کم ہونگے گے اور اس کے معیار و پیداور پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close