حال ہی میں وفاقی حکومت کے انٹر بورڈ کوآرڈینیشن کمیشن (آئی بی سی سی) کی جانب سے ملک بھر کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں 100 میں سے 33 کی بجائے 40 نمبروں پر پاس قرار دینے کس فیصلہ کیا گیا ہے، جس کو تعلیمی ماہرین، والدین اور طلبہ کی اکثریت نے سراہا ہے
آئی بی سی سی کے اس فیصلے کے مطابق اب امتحانات میں حاصل کردہ نمبروں پر مجموعی گریڈ پوائنٹ اوسط یعنی (سی جی پی اے) نکال کر گریڈنگ کی جائے گی
آئی بی سی سی کے چیئرمین ڈاکٹر غلام علی نے بتایا، ”ہم نے پاسنگ مارکس 40 اس لیے کیے تاکہ بچوں کو زیادہ محنت کرنی پڑے، جس سے تعلیمی کارکردگی میں بہتری نظر آئے گی۔ پہلے بچوں کا ہدف 33 نمبر ہوتا تھا اب 40 ہوگا“
ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیز 45، 50 اور 60 فیصد والوں کو داخلہ دے رہی ہیں، جس کا 33 فیصد والے کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا
ڈاکٹر غلام علی نے بتایا کہ اس تبدیلی پر رواں سال عمل درآمد ہوگا اور 2023 میں ہونے والے نویں اور گیارہویں جماعت کے امتحانی نتائج، جو 2024 میں آئیں گے، ان پر یہ لاگو ہوگا، جبکہ اگلے برس سے یہ دسویں اور بارہویں جماعتوں پر بھی لاگو ہو جائے گا
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد ہائبرڈ سسٹم چلے گا اور 2025 میں نویں سے بارہویں جماعت تک مکمل طور پر گریڈنگ سسٹم پر چلا جائے گا
چیئرمین آئی بی سی سی کے مطابق، ”ہم نے بچوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے، والدین میں بچوں کے نتائج کو لے کر غیر ضروری مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔ اسکولوں اور اداروں کا مقابلہ شروع ہو گیا، نتائج ایک طرح سے مارکیٹنگ ٹول بن گئے۔ لوگ بورڈز میں پہنچ جاتے ہیں کہ ان کے بچوں کو پوزیشنیں مل جائیں، اس سب سے بچنے کے لیے ہم گریڈنگ سسٹم لا رہے ہیں“
ان کا کہنا تھا کہ ایک مسئلہ یہ تھا کہ جب یونیورسٹیوں میں یہ بچے داخلے لیں گے تو وہاں نمبرز کے بغیر کیسے داخلہ ہوگا، جس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ ہم ان بچوں کو جی پی اے دیں گے
انہوں نے اس کی تفصیل بتائی کہ سب سے زیادہ جی پی اے 95 سے 100 فیصد نمبروں پر پانچ رکھا ہے اور گریڈ اے پلس پلس ہوگا
اسی طرح تین پوائنٹس کم کیے جاتے رہیں گے اور 90 سے 95 فیصد نمبروں پر 4.7 جی پی اے ملے گا اور گریڈ اے پلس ہوگا۔
جبکہ 90 سے 85 فیصد نمبروں پر 4.3 جی پی اے اور گریڈ اے، 85 سے 80 فیصد نمبروں پر 4 جی پی اے اور گریڈ ڈبل پلس بی ہو گا۔
80 سے 75 فیصد نمبروں پر 3.7 جی پی اے ملے گا اور گریڈ بی پلس ہو گا، 75 سے 70 فیصد نمبروں پر جی پی اے 3.3 اور بی گریڈ، 70 سے 60 پر جی پی اے 3 ہو گا اور سی گریڈ ملے گا
60 سے 50 پر سی جی پی اے 2 ہوگا اور گریڈ ڈی ہوگا، 50 سے 40 پر جی پی اے ایک ہوگا اور گریڈ ای ملے گا
ڈاکٹر غلام کا کہنا تھا کہ آئی بی سی سی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ’امتحانی نظام میں یہ تبدیلی لانے کے لیے تمام صوبوں کے متعلقہ لوگ بیٹھے تھے اور سب نے متفقہ فیصلہ کیا کہ ہم اس سسٹم کی طرف جائیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ نئے نظام پر عمل درآمد حکومت تو کروائے گی، لیکن تعلیمی بورڈ کا اپنا بورڈ آف گورنرز بھی کروائے گا
ان کا کہنا تھا ”حکومت تبدیل ہونے سے اس امتحانی سسٹم پر کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ تعلیمی بورڈز نے یہ فیصلہ کیا ہے اور صوبائی حکومت اور بورڈ آف گورنرز اس پر عمل درآمد کروائیں گے“
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس نظام کے تحت دو امتحان متعارف کروائے جا رہے ہیں، پہلا فائنل امتحان جو مارچ – اپریل میں ہوگا اور پھر دوسرا فائنل امتحان جو ستمبر – اکتوبر میں ہوگا
”اگر کوئی بچہ پہلے فائنل امتحان میں رہ جاتا ہے تو وہ دوسرے میں اس کا امتحان دے سکتا ہے، اس طرح اس کے رزلٹ میں سپلیمنٹری امتحان نہیں لکھا جائے گا“
راول پنڈی کے ایک سرکاری اسکول کی سابقہ پرنسپل ثمینہ شکور کے خیال میں ’امتحان میں پاس ہونے کے لیے 40 فیصد نمبر حاصل کرنے کا فیصلہ درست ہے کیونکہ دنیا بھر کے تعلیمی میدانوں میں اتنے سخت مقابلے ہیں، داخلوں کے مسائل ہیں تو 33 فیصد نمبر لے کر ہم اس دھارے میں کیسے شامل ہوں گے؟“
انہوں نے بظاہر پرسنٹیج کو بہتر سمجھا لیکن ساتھ ہی کہا کہ ایف ایس سی کے بعد جتنی بھی بڑی ڈگریز ہیں، ان میں جی پی اے ہی دیکھا جاتا ہے
دو بچوں کی والدہ زریں ہارون کا کہنا تھا ”مجھے ایک سابق طالب علم ہونے کے ناطے سن کر اچھا لگ رہا ہے کہ یہ سسٹم متعارف کروایا جا رہا ہے۔ آپ دیکھیں نا ایسا کون سا طالب علم ہے، جس نے سو میں سے 33 نمبر لیے اور ہم نے اس سے کہا شاباش بہت اچھے آپ کو پاس کیا جاتا ہے“
زریں اسے ایک مثبت فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں ”اگر آپ نجی تعلیمی اداروں یا او اور اے لیولز والوں کو دیکھیں تو وہاں 50 فیصد والا پاس ہوتا ہے تو پبلک سیکٹر میں امتحان پاس کرنے کے لیے کم از کم 40 فیصد نمبر لینا تو ضروری ہونا چاہیے“
گیارہویں جماعت کے طالب علم بلال سندھو نے بھی اسے ایک اچھا فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب بچے زیادہ محنت سے پڑھیں گے اور ہو سکتا ہے کہ ان کی یہ محنت انہیں مزید اچھا نتیجہ دے دے۔
بلال کا یہ بھی کہنا تھا کہ پبلک کالجوں یا اسکولوں میں میرٹ پر ایک ایک نمبر پر لڑائی ہوا کرتی تھی، مثلاً ایک طالب علم نے 1100 میں سے 550 نمبر لیے ہیں یعنی 50 فیصد نمبر تو اس کا نام تو میرٹ لسٹ کے آخر میں آگیا لیکن 549 والا داخلہ لینے سے رہ گیا
انہوں نے کہا ”سی جی پی اے کے بعد میرٹ دیکھتے ہوئے یا تو سی اور ڈی گریڈ کو داخلہ دیں گے یا نہیں دیں گے۔ اس سے میرے خیال میں گھپلے کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے لیکن اس کے لیے حکومت کو تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی نشستیں بڑھانی ہوں گی۔“