ڈستھیمیا: ڈپریشن کی وہ قسم جس کی تشخیص مشکل سے ہوتی ہے

ویب ڈیسک

”میں اپنے آپ کو ایک حقیقت پسندانہ شخصیت سمجھتی تھی لیکن میں مایوس رہتی تھی۔ لوگ ایک ایسی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں، جس میں یہ بلکل عام بات لگتی ہے“

یہ کہنا ہے اینا بیکووس کا، جن میں ’ڈستھیمیا‘ کی علامات کم عمری میں ہی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ تیرہ سال کی عمر میں ان کو معاشرتی تعلقات میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ان میں اپنی بے قدری کا احساس پروان چڑھنے لگا اور انہیں یوں لگا کہ ان کی زندگی بلکل تاریک ہو گئی ہے

اینا کے والدین کو یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ ان کی بیٹی کا رویہ غیر معمولی تھا، دوسرا مرحلہ اس رویے کی وجہ سمجھنے کا تھا، بہرحال اینا کی طرف سے غصے اور چڑچڑے پن کا اچانک اظہار، اس بات کی نشاندہی تھی کہ انہیں مدد کی ضرورت ہے

اینا بتاتی ہیں ”مجھے اچانک بے انتہا خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ پھر وہ اچانک ختم ہو جاتی اور اس کی جگہ غم کا احساس لے لیتا“

ان علامات کے باوجود ان کی تشخیص اس وقت ممکن ہوئی، جب ان کا ڈپریشن بڑھ چکا تھا۔ طبی معائنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کو ڈستھیمیا ہے

اینا جیسے کئی مریض مرض کی تشخیص ہونے تک کئی سال علامات کے ساتھ گزار دیتے ہیں۔ اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسے مریض کا رویہ ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔ اور اسی وجہ سے مرض کی تشخیص میں دیر ہو جاتی ہے

ماہر نفسیات مارسیلو ہائیڈ کہتے ہیں ”عام طور پر ایسے مریض اسی وقت ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، جب ان کی علامات شدت اختیار کرتی ہیں اور تب ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو کوئی بیماری ہے“

ڈستھیمیا کیا ہے؟

ڈستھیمیا ایک ایسا متواتر ڈپریشن کا ڈس آرڈر ہے جو بچپن سے اکیس سال کی عمر تک ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارہِ صحت کے مطابق ’دنیا کی آبادی کا چھ فیصد حصہ اس مرض کا شکار ہے‘

ڈستھیمیا اور ڈپریشن کی عام قسم میں فرق یہ ہے کہ اس سے متاثرہ شخص عام زندگی میں تو نارمل دکھائی دیتا ہے لیکن کام کرنا، پڑھائی کرنا اور روزمرہ زندگی کے کچھ عام سے کام کرنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے

یونیورسٹی آف کیوریٹیبا میں ماہر نفسیات کے طور پر فرائض انجام دینے والی مارسیا ہیگ کہتی ہیں ”ایسے افراد کام تو کر سکتے ہیں لیکن ان کو بہت زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے“

تاہم ماہرین نفسیات کے مطابق: اس مرض کی وجوہات پر ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ بچپن میں شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنے سے، جینیات، کسی حادثے کا شکار ہونے یا معاشرتی وجوہات کی بنا پر یہ مرض ہو سکتا ہے

یونیورسٹی آف ساو پاولو میں سائیکولوجسٹ بیانکا بریڈا کہتی ہیں ”جب کسی ایسے مریض کی تفتیش کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بچپن میں وہ بہت خاموش سا رہتا تھا اور اس کو کام کرنے میں مشکل ہوتی تھی“

اینا کو اس کے کام کی وجہ سے اپنے مرض کو جاننے میں مدد ملی، جس میں وہ جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والے بچوں کو مدد فراہم کرنے والے ایک سینٹر میں کام کرتی تھیں

ڈستھیمیا کی شناخت

ڈپریشن کی دیگر اقسام کے مقابلے میں ڈستھیمیا کی علامات ڈھکی چھپی رہتی ہیں

طویل المدت ہونے کے علاوہ، اس کی عام علامات میں تھکاوٹ، بے قدری کا احساس، فیصلہ سازی میں مشکلات اور مایوسی شامل ہیں

عام ڈپریشن میں مریض کو غم کا شدید احساس ہوتا ہے، کام کرنے میں دلچسپی نہیں رہتی، بھوک کم ہو جاتی یا بہت بڑھ جاتی ہے اور دیگر ایسی علامات ہوتی ہیں، جن کی شناخت مریض خود بھی کر سکتا ہے

بریڈا کا کہنا ہے کہ ڈپریشن میں علامات میں شدت ہوتی ہے، جو کسی نہ کسی واقعے سے جڑی ہوتی ہے

◼️ڈستھیمیا کی تشخیص مشکل کیوں ہے؟

ڈستھیمیا ڈپریشن کی ایسی قسم ہے، جس کی تشخیص مشکل سے ہوتی ہے، کیونکہ اکثر مریضوں کی علامات کو ان کی شخصیت کا حصہ سمجھ لیا جاتا ہے یعنی یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا مزاج ہی ایسا ہے

یہی غلطی تشخیص میں تاخیر کی وجہ بنتی ہے اور اس کے شکار مریضوں کو درست علاج کروانے میں دیر ہو جاتی ہے

ماہرین کہتے ہیں ”یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص بور ہے، یا وہ ساری زندگی سے ایسا ہی ہے، اس لیے وہ تبدیل نہیں ہو سکتا“

مارسیلو ہائیڈ کے مطابق ”ڈستھیمیا چھپ کر آہستہ آہستہ آتا ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ اس کا اثر شدت اختیار کر لیتا ہے۔ مریض کو طرح طرح کے نام دیے جاتے ہیں جیسا کہ موڈی یا کچھ اور۔۔۔ ثقافتی طور پر اس کو تسلیم کرنے سے تشخیص نہیں ہوتی اور دوسری جانب یہ ایک ایسی شخصیت کو تقویت دیتی ہے، جس میں متاثرہ لوگ ہر چیز کو منفی انداز سے دیکھتے ہیں“

جہاں تک اینا کی بات ہے تو ان کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انہیں اسکول میں مشکلات ہوئیں لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کہ ایسا کیوں ہے؟

وہ بتاتی ہیں ”مجھے ہمیشہ عدم تحفظ کا احساس رہا خصوصاً محبت کے معاملے میں۔۔۔ لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ ایسا کیوں ہے“

اینا کا بھی یہی خیال تھا کہ یہ احساسات ان کے رویے کا حصہ ہیں اور وقت کے ساتھ یہ ختم ہو جائیں گے

لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور ان کے موڈ کا اتار چڑھاؤ بڑھتا چلا گیا

اینا کہتی ہیں ”ڈستھیمیا سے متاثر افراد کا اپنے آپ سے متنازع تعلق ہوتا ہے۔ کسی وقت آپ کو خود پر ہی غصہ آ جاتا ہے“

ڈستھیمیا کا علاج

اکثر ماہر نفسیات کے پاس جانے سے گریز کیا جاتا ہے اور کسی بیماری کی صورت میں عام ڈاکٹر سے کوئی اور تشخیص ہو جاتی ہے جس سے نقصان ہوتا ہے لیکن ڈستھیمیا کے مریض کے لیے مناسب طبی مدد حاصل کرنا بہت ضروری ہے

مارسیا ہیگ کے مطابق ”ڈپریشن کے 50 فیصد کیسز کی تشخیص اس لیے نہیں ہو پاتی کیوں کہ عام طبی ماہرین اس کو پہچان نہیں پاتے“

وہ کہتی ہیں ”پھر سوچیں ڈستھیمیا کے مریضوں کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا۔ یہ عام ہے کہ اس کی علامات کو کسی اور نفسیاتی مرض سے جوڑ دیا جائے یا پھر منشیات کے استعمال سے۔۔۔“

ان کا کہنا ہے ”ڈستھیمیا اور ڈپریشن جسم کو متاثر کرتے ہیں اور کئی عام بیماریوں جیسا کہ ذیابیطس، ہائپر ٹینشن میں شدت لا سکتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو دوا کی زیادہ مقدار کی ضرورت پیش آ سکتی ہے“

نسفیاتی مسائل سے جڑے معاشرتی رویے کی وجہ سے یہ مرض اور بھی پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے ماہرین کا مشورہ ہے کہ ماہر نفسیات سے رابطہ کیا جائے تاکہ وہ معائنے کے بعد درست علاج تجویز کر سکیں جو ادویات یا پھر سائیکو تھراپی سے ہی ممکن ہوتا ہے

جب اینا میں اس مرض کی تشخیص ہوئی تو انہوں نے سائیکو تھراپی کا راستہ چنا، کیونکہ ان کی عمر کی وجہ سے ڈاکٹر نے ادویات کا استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا

اگرچہ چند سال اپنے کام کی وجہ سے وہ یہ سیشن نہیں لے سکیں، لیکن کورونا کی وبا کے دوران انہوں نے باقاعدگی سے سائیکو تھراپی کروائی اور انہوں نے دیکھا کہ اس سے بہت بہتری آئی

ماہرین کہتے ہیں ”اس مرض کے علاج میں تعطل نہیں ہونا چاہیے جب تک ایک ماہر اس کی تجویز نہ دے تاکہ مریض کو مستقل طور پر جانچا جا سکے“

واضح رہے کہ یہ طبی علاج مہینوں یا برسوں جاری رہ سکتا ہے لیکن مریض کی علامات اور زندگی کا معیار بہتر بنانے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close