اسرائیل کیسے قائم ہوا؟

سعد اللہ جان برق

اسرائیل ملک کیسے بنا ہے اور قوم کب بنی ہے، اس کا احوال مذہبی کتابوں میں بھی درج ہے جبکہ تاریخ اس حوالے سے اپنا موقف رکھتی ہے۔

بہرحال یہودیوں اوران کے حامیوں نے یہودیوں کو دنیا کی پہلی تاریخ نویس ’قوم‘ مشہور کیا ہوا ہے، تاریخی حقائق جو خود یہودی بتاتے ہیں، ان کے مطابق اصل تورات کم سے کم چھ بار دنیا سے غائب ہوچکی ہے اور پھر کئی سال بلکہ صدیوں بعد یادداشت یا حافظے کی مدد سے مرتب کی گئی۔

آخری بار جب بخت نصر نے یروشلم کو تباہ کر دیا اور یہودیوں کو بابل میں اسیر کر لیا، ستر سال بعد ہنمامشی حکمران کورش اعظم، جسے سائرس اعظم کہا جاتا ہے، نے انھیں غلامی اور قید سے رہائی دلائی، تورات داریوش کے بیٹے اور ارد شیر کے عہد میں لکھوائی گئی۔ یروشلم کی تباہی پھر ستر سال کی اسیری پھر دربدری تک تقریباً ڈھائی سوسال کا عرصہ بنتا ہے۔

دراصل اساطیری افسانوں میں صرف ایک بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’بنی اسرائیل‘ خدا کی لاڈلی قوم ہے بلکہ خداوند کی قوم صرف بنی اسرائیل ہیں اور باقی ساری اقوام خدا کی ناپسندیدہ باغی اور ذلیل ہیں۔

وجہ اس کی ایک یہ بھی ہے کہ یہودیوں کا جن جن اقوام سے واسطہ پڑا، اپنی کرتوتوں کی وجہ سے اسے دشمن بنایا، جواب میں ان اقوام نے یہودیوں کو سزائیں دی چنانچہ ان کی فطرت ہی دوسری اقوام سے نفرت، دشمنی، حسد، عیاری، مکاری اور دغا بازی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ یہودی ایک دھوکہ باز، احسان فراموش، موقع پرست اور سازشی قوم سمجھی اور قرار دی جاتی ہے۔ ان کی فطرت کا اندازہ ان کہانیوں اور لطیفوں سے ہوتا ہے، جو دنیا میں مشہور ہیں۔

مثلاً ایک یہودی نے اپنے بیٹے کو الماری کے اوپر بٹھایا اور کہا، ’’نیچے کود جاؤ، ڈرومت، میں نیچے کھڑا ہوں، سنبھال لوں گا۔‘‘ بیٹا کود پڑا تو باپ ہٹ گیا اور بیٹا فرش پر گر پڑا۔ بیٹے نے شکایت کی کہ آپ نے تو کہا تھا، میں سنبھال لوں گا۔ باپ نے کہا، یہ تمہارا پہلا سبق ہے کہ باپ پر بھی بھروسہ مت کرنا۔

دنیا میں بزدل اور شریر لوگوں کی نشانی یہ سمجھی جاتی ہے کہ ایسے لوگ جب طاقتور یا مقتدر ہوتے ہیں تو ظالم ہوتے ہیں اور کمزور ہوں تو پاؤں پڑتے ہیں۔ آج یہ نشانی اسرائیل کے حکمرانوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جب کہ فطرت میں بہادر اور شریف لوگ دوستی اور دشمنی دونوں حالتوں میں کھرے ہوتے ہیں۔

کنعانی، مصری، بابلی اور پارسی اساطیری کہانیوں میں ایسے لوگوں کے بارے کثرت سے مثالیں مل جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیلابِ عظیم یا طوفانِ عظیم کا ذکر عہدِ قدیم کی کتب و کہانیوں میں ملتا ہے۔ دجلہ و فرات کے علاقے میں یہ کہانی داستان گلگامش کا حصہ ہے، ہندی اساطیر کے منو مہاراج کی کہانی بھی ہے اور اس کی کشتی ہمالیہ پر ٹھہری تھین یونان کی ہے، جس میں کشتی کی بجائے لکڑی کے صندوق میں پرومیتھس اور الی میتھس نامی ٹیٹانوں نے اپنے بیٹے ڈیوکلین اور بیٹی پیرہ کو بٹھایا تھا، یہ صندوق کوہ پرناسس پر ٹھہرا تھا۔ ایک کہانی پارسی جمشید کی ہے۔

مذہبی نوشتوں اور کہانیوں سے صَرفِ نظر کر کے جب ہم مستند تاریخ میں دیکھتے ہیں تو بنی اسرائیل ایک ’’جد‘‘ کی اولاد یا ایک نسل ہرگز ثابت نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں مشہور مورخ فلپ کے حتی نے ’’تاریخ شام‘‘ (اردو ترجمہ غلام رسول مہر) میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کی بنیاد فونیقی یا فونیشن قوم ہے، جسے تاریخ میں پہلی تجارتی قوم کہا جاتا ہے۔ فونیشا بحیرہ روم کے کنارے ایک پٹی کو کہتے ہیں، جسے عرب لوگ کنعان کہتے ہیں۔ ان دونوں الفاظ کا مفہوم سرخ یا ارغوانی رنگ ہے کیوں کہ فونیقی لوگ ایک خاص قسم کی مچھلی سے رنگ بنا کر کپڑا رنگتے تھے اور پھر بحری جہازوں میں ڈال کر برطانیہ تک بیچتے تھے۔

یہ فونیشی تجارت یا بزنس میں ہی مشہور نہ تھے بلکہ کاروبار میں بے ایمانی اور فریب کے بھی موجد تھے۔ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ یہ موقع ملنے پر کسی بھی جزیرے یا ملک سے عورتیں بھی اغوا کر کے دوسری جگہوں پر بیچ دیتے تھے۔

اس نے لکھا ہے کہ یہ لوگ بحیرہ روم کے کنارے ایک ملک کے ساحل پر جہاز لنگر انداز کر کے شام تک وہاں کپڑا بیچتے رہتے، شام کو اس ملک کی شہزادی اپنی سہیلیوں کے ہم راہ وہاں کپڑا خریدنے آئی۔ فونیشی تاجر نے شہزادی سے التجا کر کے کہا، اگر مزید اچھا مال چاہیے تو بحری جہاز کے اندر آئیے، جب شہزادی اور اس کی کنیزیں جہاز پرچڑھ گئیں تو فونیشیوں نے لنگر اٹھایا اور سمندر میں غائب ہو گئے۔

عہدِ قدیم میں مصر پر ہیکسوس نامی چرواہے لوگوں نے حکومت قائم کر لی تھی، یہودی جب مصر آئے تو اس وقت یہی ہیکسوس حکمران تھے۔ دراصل یہاں ہی اسرائیلی نامی قوم کے اجزاء ترکیبی تیار ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ان ہند یورپی ہیکسوس سے رشتے ناطے بھی ہوئے جیسے کنعان میں حتیوں، حوریوں، موآبیوں اور کنعانیوں سے ہوئے تھے، پھر جب قبطی مصریوں نے انڈو یورپی ہیکسوس کو بھگا کر اپنی قبطی سلطنت بحال کی تو سابق حکومت کے منظورِ نظر ہونے کی وجہ سے یہودی بھی غلامی میں آئے۔

حضرت موسیٰ نے ان کو قبطی مصریوں کی غلامی سے آزاد کرایا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک یہ لوگ مختلف اقوام سے گڈمڈ ہوتے رہے، ایک ہزار سال تک یہاں وہاں بھٹکتے بھٹکتے انھوں نے اسی فلسطین میں حکومت بنائی۔ تاریخ میں ان فلسطینیوں کا ذکر پلستیوں اور فلستیوں کے ناموں سے کیا گیا ہے۔ پھر اسرائیلیہ یا سامریہ کے نام سے الگ الگ سلطنت بنی، اسرائیلیہ کو اشوریوں نے تباہ کیا جبکہ بخت نصر نے یہودیہ کو بھی مٹا ڈالا اور یہ لوگ ایک مرتبہ پھر دجلہ و فرات پارس، مصر اور عرب میں بکھر گئے۔

ساری دنیا میں منتشر اور آوارہ تھے لیکن جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ اور امریکا کی مہربانی سے یورپ میں بسنے والے یہودی فلسطینیوں کے سینے میں خنجر کی طرح گھونپے گئے، حالانکہ یہ خطہ یا کوئی اور خطہ ان کا کبھی کوئی وطن رہا ہے نہ ملک۔ انھیں کبھی’دھرتی کے بیٹے‘ کے نام سے نہیں پکارا گیا۔سرزمینِ فلسطین میں تو ان کی حکومت ایسی ہی تھی، جیسی ہندوستان پر انگریزی حکومت رہی ہے یا سکندر کے وقت یونانیوں کی، داریوش کے عہد میں ہندوستان پر ایرانیوں کی۔

فلسطین یا دنیا کا کوئی بھی حصہ ان کا مستقل وطن نہیں تھا اور نہ ہی ان میں حب الوطنی یا وطن پرستی کا جذبہ کبھی رہا ہے، یہ تو امریکا نے عربوں کے لیے اپنا مورچہ بنایا ہوا ہے جبکہ یورپ نے اپنے ہاں سے انھیں باہر نکال کر فلسطین میں بسا دیا۔ کہتے ہیں کسی نے ایک یہودی سے پوچھا تم جنت جانا پسند کروگے یا دوزخ ؟ تو اس نے کہا ، جہاں دو پیسے منافع ہوا، وہاں چلا جاؤں گا۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close