جب بھی قدرتی آفات یا حادثات رونما ہوتے ہیں، جیسے زلزلہ، سیلاب اور آتشزدگی وغیرہ ان کے اثرات سے لوگوں کی روزمّرہ کی زندگیاں بدل جاتی ہے۔ انسانی فطرت کے ڈھکے چھپے اور مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ ایسے میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں، جو اس تباہی وبربادی سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں سوچتے ہیں، لیکن وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو دوسروں سے ہمدردی کرتے ہیں، ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ان کی مصیبتوں میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
حادثہ طبقاتی تقسیم کو بھی ختم کر دیتا ہے۔ جب کوئی وباء آتی ہے تو وہ امیر و غریب کا فرق نہیں کرتی۔ حادثے کی صورت میں، جو نقصانات ہوتے ہیں، ان پر ذہنی طور پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے لیکن یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات سے سمجھوتہ کر لیتا ہے اور حادثات تاریخ کا حصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔
چھٹی صدی عیسوی میں شہرِ روم اس وقت اپنے عروج پر پہنچی ہوئی رومی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ اس سلطنت کی فتوحات کا دائرہ مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا تھا، لیکن اس کی شان و شوکت کا اظہار روم کے شہر میں نہیں ملتا ہے۔ شہر کا کیا ماحول تھا، کیا حالت تھی، اس کا تذکرہ Joseph J. Waslh نے اپنی کتاب The Great Fire of Rome میں بیان کیا ہے۔
ان کے مطابق شہر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، لہٰذا یہ سیلاب یا آتشزدگی سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا تھا۔ اشرافیہ کی حویلیاں پہاڑوں پر تھیں لیکن دوسری جانب ایک یا دو کمروں کے فلیٹس میں پورا خاندان رہا کرتا تھا۔ اُمراء کی حویلیاں پہاڑوں پر تھیں، لہٰذا یہ سیلاب یا آتشزدگی سے زیادہ متاثر نہیں ہوتی تھیں۔ دوسری جانب ایک یا دو کمروں کے فلیٹس میں پورا خاندان رہا کرتا تھا، باورچی خانہ اور ٹوائلٹ کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، لہٰذا یہ لوگ باہر فٹ پاتھ پر کھانا پکاتے تھے۔ یہ لوگ یا تو پبلک ٹوائلٹ استعمال کرتے تھے یا چیمبر پوٹ لے کر کمرے میں جاتے تھے اور اس کو استعمال کرنے کے بعد فضلے کو گلی میں پھینک دیتے تھے۔ بارشوں یا سیلاب کے موسموں مں یہ ساری گندگی بہہ کر گلیوں میں آ جاتی تھی۔ اس کے نتیجے میں وبائیں اور بیماریاں پھیلیتیں تھیں۔ مشہور حکیم گیلن کا کہنا تھا کہ اس کے پاس ہر بیماری کے مریض آتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ان بیماریوں کی تشخیص کرتا ہے۔
شہر کی گلیاں تنگ ہوتی تھیں۔ ان تنگ گلیوں میں گھوڑا گاڑیاں بھی ہوتی تھیں، گھڑسوار بھی ہوتے تھے، پالکیوں میں سوار امراء بھی سفر کرتے تھے، خچر لدے ہوئے سامان کے ساتھ گلیوں میں نظر آتے تھے، پیدل چلنے والوں کے لیے بہت کم جگہ ہوتی تھی۔ گلی میں نیچے دوکانیں ہوتی تھیں اور اُوپر رہائش۔ دوکاندار اپنا سامان دوکان کے آگے رکھ دیتے تھے، جس سے گلی اور بھی تنگ ہو جاتی تھی۔ شوروغل کی وجہ سے گھروں میں رہنے والوں کے لئے نیند یا سونا مشکل تھا۔ مشہور فسلفی سنیکا کے گھر کے نیچے حمام تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ حمام میں آنے والے ورزش کرتے تھے۔ شوروغل بھی مچاتے، نہاتے بھی تھے، جس کی وجہ سے اس کا آرام کرنا مشکل تھا۔
گلیوں میں کھانے پینے کی چیزیں ٹھیلوں پر بکتی تھیں۔ گردوغبار اور دھول اُڑ کر اُن کے کھانوں میں بھی جاتی تھی، مگر لوگ بغیر کسی احتیاط کے اس اسٹال سے کھانا کھاتے تھے اور بیمار بھی ہوتے تھے۔ شہر میں ایک گروپ ایسا تھا جو پیشہ ور تھا اور کسی سے بھی معاوضہ لے کر مخالفوں کو زہر دیتا تھا۔ روم میں زہر کی وارداتیں بہت ہوتی تھیں۔ حکمران طبقے ایک دوسرے کو زہر دیا کرتے تھے۔ رات کے وقت شہر غیر محفوظ ہوتا تھا۔ چوروں اور ڈاکوؤں کے گینگ تھے، جو اکیلے شخص کو دیکھ کر نہ صرف لوٹتے تھے بلکہ جان سے بھی مار دیتے تھے۔ شہنشاہ نیرو کا یہ مشغلہ تھا کہ وہ رات کو اپنے محافظوں کے ساتھ نکلتا تھا اور کسی شخص کو اکیلا پا کر اسے مار کر نالے میں پھینک دیتا تھا۔ شہر کی روزمرّہ کی زندگی اسی بھیڑ بھاڑ میں اور شوروغل میں گزرتی تھی۔
یہ وہ ماحول تھا کہ جب 601ء میں روم کے شہر میں سب سے بڑی آتشزدگی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ آگ دوکانوں سے نکلی اور پھیلتی ہوئی عمارتوں تک آئی، چونکہ غریبوں کی زیادہ عمارتیں لکڑی سے بنی تھیں، اس لئے آگ نے ان کو جلا کر اور زیادہ خوفناک بنا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ پورے شہر میں پھیل گئی۔ عمارتیں بھسم ہو کر گرنے لگیں۔ لوگ پناہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھاگنے لگے مگر پناہ کی کوئی جگہ نہ تھی۔ آگ نے اُمراء کی حویلیوں کو بھی جلایا مگر ان کا زیادہ نقصان نہ ہوا۔
شہنشاہ نیرو اُس وقت شہر سے دور عیاشی میں مصروف تھا۔ جب اس کو آگ لگنے کی خبر ملی تو وہ اپنے محل میں آیا اور محل کے بلند و بالا مینار پر چڑھ کر آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو دیکھنے لگا۔ لوگوں کی چیخ و پکار کو سنا اور کہا جاتا ہے کہ آگ کے شعلوں کو دیکھ کر وہ اس قدر محظوظ ہوا کہ اس نے میوزک کے آلات بجا کر گانا گایا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اس نے گانا نہیں گایا بلکہ ہومر کی ایلییڈ سے وہ حصہ پڑھا، جس میں اس نے ٹرائے کے جلنے کا حال بیان کیا ہے۔
آگ کے ختم ہونے کے بعد نیرو نے شہر کو دوبارہ سے آباد کرنے کا منصوبہ بنایا، کیونکہ دولت شہنشاہ ہی کے پاس تھی، وہی اس منصوبے کو پورا کر سکتا تھا۔ ایک تو اس نے اعلان کیا کہ بے گھر لوگ شاہی محل میں پناہ لے لیں اور شاہی باغات میں بھی قیام کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ جلے ہوئے ملبے کو شہر سے لے جا کر شہر کو صاف کیا جائے۔ اس کام میں ہزاروں غلام اور لوگ مصروف ہوئے۔ جب ملبے کو اُٹھایا جا رہا تھا تو اس میں لوگ اپنی چیزیں تلاش کرنے آ گئے۔ ملبے میں جلی ہوئی لاشیں بھی تھیں، جن کی پہچان مشکل تھی۔ کہا جاتا تھا کہ نیرو نے حکم دیا کہ قیمتی اشیاء شاہی محل میں دے دی جائیں۔ اس کے بعد نیرو نے رومی سلطنت کے عام صوبوں پر ٹیکس لگایا تاکہ روم کو دوبارہ سے آباد کیا جائے۔ ٹیکس کے ساتھ ساتھ نیرو کے فوجیوں نے صوبوں میں جمع شدہ نوادرات بھی لوٹے۔ کہا جاتا ہے کہ پندرہ ہزار نوادرات کو لوٹ کر روم لایا گیا۔ اب جب نئے شہر کی تعمیر شروع ہوئی تو اس میں اُمراء نے بھی دولت اکٹھی کی۔ عام لوگوں کے لیے نئے فلیٹس بنائے گئے، لیکن اس بار ان میں لکڑی کی جگہ پتھروں کا استعمال کیا گیا اور ان کو زیادہ کرائے پر عام لوگوں کو دیا گیا۔ گلیوں کو چوڑا رکھا گیا اور صفائی کے انتظامات بھی کیے گئے۔
شہر کے بیچ میں آگ کے بعد جو ایک میدان خالی ہوا تھا، نیرو نے وہاں اپنا نیا محل تعمیر کرانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مرحلے پر بعض مورخ یہ کہتے ہیں کہ یہ آگ نیرو نے خود لگوائی تھی تا کہ اسے اپنا محل بنانے کی جگہ مل جائے۔ یہ شاندار محل تعمیر کیا گیا، اس محل میں ایک بڑا باغ تھا، جس میں پرندے اور دوسرے جانور رکھے گئے تھے۔ کانسی کا ایک بہت بڑا نیرو کا مجسمہ باغ میں ایستادہ کیا گیا تھا۔ محل کی زیب و زینت کے لیے بیشمار سونا، ہیرے اور جواہرات استعمال کیے گئے۔ انجینیروں اور ماہرینِ تعمیرات نے اس کو خوبصورت اور نادر بنانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا تھا۔ اس کے ڈائینگ ہال کی چھتیں گردش کرتی تھیں۔ جب چھت کے حصوں کو علیحدہ کیا جاتا تھا تو اوپر سے مہمانوں پر خوشبوؤں کی بارش ہوتی تھی۔ جب محل تیار ہوا تو نیرو کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے، جہاں میں آرام سے رہ سکتا ہوں۔
نیرو پر بہت الزامات لگائے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک یہ الزام بھی کہ اس نے شہر میں آگ لگا کر اپنا محل تعمیر کرایا اور سلطنت کی دولت خرچ کر کے اپنی شان و شوکت کا اظہار کیا، لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ آتشزدگی کے بعد جب شہرِ روم دوبارہ سے تعمیر کیا گیا تو اس میں رہنے والوں کے لئے سہولتیں بھی تھیں۔ حمام تھے، جہاں یا تو داخلہ مفت تھا یا معمولی سی فیس تھی۔ شہر کا چوراہا تھا، جہاں لوگ سیر و تفریح کرتے تھے اور دوسرے شہروں سے آنے والے بھی یہاں خرید و فروخت کرتے تھے۔ لہٰذا آگ کے حادثے نے روم کو بدل ڈالا اور آنے والوں نے اس میں مندر تعمیر کرائے، باغات کی بنیاد ڈالی۔ کھیلوں کے لیے کولوسیم کی تعمیر ہوئی، جہاں رتھ دوڑیں ہوتی تھی یا جنگجوؤں کی آپس میں لڑائی کرائی جاتی تھی اور شہر کے لوگ یہاں آ کر محظوظ ہوتے تھے۔ رومی شہنشاہ بھی یہ تفریح دیکھنے والوں میں شامل ہوتا تھا۔ لہٰذا تباہی نے شہر کو نئی زندگی دی، جس میں آنے والی صدیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)