نوٹ: مشہور مزاح نگار مجید لاہوری ’’حرف و حکایت‘‘ کے عنوان سے فکاہی کالم لکھا کرتے تھے۔ جناب شفیع عقیل صاحب نے ان کے فکاہی کالموں کا انتخاب ’’مجید لاہوری کی حرف و حکایت‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا۔ ان کی یہ تحریر 31 مارچ 1953ء کے کالم پر مشتمل ہے، لیکن ملک کے حالات دیکھ کر یہ آج بھی تازہ لگتی ہے۔
مجھے ووٹ دو۔۔۔۔۔۔
میں قارون ابنِ قارون ہوں۔ میں نے تجارت میں سیاست اور سیاست میں تجارت کی ملاوٹ کی ہے۔۔ اور اس کامیابی کے ساتھ ملاوٹ کی ہے کہ کوئی شخص ان کو الگ الگ نہیں کر سکتا۔ جب کبھی الیکشن کا موسم آتا ہے اور ووٹوں کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں، میں غریبوں کی خدمت کے لیے تھیلیوں کے منھ کھول دیتا ہوں، حسین وعدوں کے انبار لگا دیتا ہوں۔ اگر ہمیشہ نہیں تو کم از کم اس وقت تک، جب تک ووٹ صندوقچی میں نہیں پڑتے ہیں، غریبوں کی ہر طرح خدمت کرتا ہوں۔ میرا نام ’سیٹھ قارون‘ ہے۔
مجھے ووٹ دو۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ’بلیک مارکیٹ‘ کی محنت سے اور لائسنس بیچنے کی مشقت کی جو ’حلال کی کمائی‘ حاصل کی ہے، اس سے میں غریبوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ میں ان کو پلاؤ کھلاؤں گا۔ اس گرانی کے زمانے میں غریب بیاہ شادی کے موقعے پر بھی پلاؤ نہیں کھا سکتے کیوں کہ چاول نہیں ملتے، مسالے مہنگے داموں ملتے ہیں۔ میں غریبوں کی دل و جاں سے خدمت کروں گا۔ جب تک میں کامیاب نہ ہو جاؤں، میں حلف اٹھاتا ہوں کہ غریبوں کے ساتھ ’فٹ پاتھ‘ پر بیٹھوں گا۔ ان کی باتیں اس طرح سنوں گا جیسے میں ریڈیو پر خبریں سنتا ہوں۔ میرا نام ’بٹ مار خاں‘ ہے۔
مجھے ووٹ دو۔۔۔۔۔۔
میں اگرچہ پڑھا لکھا نہیں ہوں مگر میرے پاس دولت ہے، کاریں ہیں، ملازم ہیں۔۔ اگر علم کی دولت نہیں تو کیا ہوا، علم کی دولت کو کون پوچھتا ہے؟ میرے ملازموں میں بی اے پاس بھی ہیں۔ علم تو ٹکے سیر بِکتا ہے اور کوئی علم کو پوچھتا نہیں، اصل چیز دولت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت ہے، جس کو دولت کہتے ہیں۔ اللہ جس کو چاہتا ہے ’اِجّت‘ دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے ’جِلّت‘ دیتا ہے۔۔ ہم کو ’اِجّت‘ یہ سارا ’کُھدا‘ نے دیا۔۔۔ اب تم مجھ کو ’کرسی‘ دو۔۔۔۔۔۔ جب تک الیکشن چالو ہے، تم میرے دفتر میں آؤ، میں چائے پلاؤں گا، 555 کے سگرٹ پلاؤں گا اور تم کو کرسی دوں گا۔۔۔۔ میرا نام ’ٹیوب جی ٹائر جی‘ ہے۔
مجھے ووٹ دو۔۔۔۔۔۔
میں نے مسجد بنوائی ہے۔ مسجد میں نمازی نہیں آتے تو یہ میرا قصور نہیں ہے۔ میرا کام صرف مسجد بنوانا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں نے مسجد تو بنوائی ہے مگر میں خود، اس میں نماز پڑھنے کے لیے نہیں آتا۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ جتنے لوگ بھی میری مسجد میں نماز پڑھتے ہیں، ان کی نمازوں کا ثواب مجھے ملتا ہے۔ مولوی گل شیر خان نے بھی میرے حق میں فتویٰ دیا ہے۔ میں نے مسجد اسی دن کے لیے بنائی تھی کہ لوگوں سے ووٹ لوں، ورنہ مجھے کیا ضرورت تھی کہ میں مسجد پر پانی کی طرح اتنا روپیہ خرچ کرتا۔۔۔ میرا نام ’بینک بیلنس جی‘ ہے۔
مجھے ووٹ دو۔۔۔۔۔۔
میں وعدہ کرتا ہوں کہ سمندر کے سارے پانی کو میٹھا بنا دوں گا اور پانی کی قلّت دور ہو جائے گی۔ اس سے پہلے ہمارے دریاؤں کا پانی سمندر میں جاتا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ وہ پانی جو سمندر نے ہمارے دریاؤں سے حاصل کیا ہے، وہ واپس لے لیا جائے۔ ہم سمندر سے جتنا میٹھا پانی بنائیں گے، اس سے کھیتوں کی آب پاشی ہوگی اور غلّے کی کمی بھی دور ہو جائے گی۔ پانی، الگ ہو جائے گا اور نمک الگ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ جب سمندر کا پانی خشک ہو جائے گا تو لوگ پیدل حج کرنے کے لیے جائیں گے۔ جب سمندر خشک ہو گیا تو میں حج کے لیے فری بس سروس جاری کروں گا۔ جب تک ووٹ میری صندوقچی میں نہیں پڑتا، میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں اور جب میں کامیاب ہو گیا تو اس وعدے کو پورا کرنا میرا فرض نہیں ہوگا، کیوں کہ جو وعدے ووٹ لینے کے لیے کیے جاتے ہیں، ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ووٹ لیے جائیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہ وعدے کسی نے پورے کیے ہوں۔ اس لیے اے محترم، معزّز اور واجب الاحترام ووٹرو! مجھے ووٹ دو۔۔۔۔ میرا نام ’اسکیم بھائی پلان بھائی‘ ہے۔