سیلفی کا جنون: ایک نفسیاتی بیماری

خالد رحمٰن

لڑکی نے موبائل فون سے اپنی تصویر لے کر دیکھی تو اسے بہت بھلی لگی، جس پر وہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے یہ اپنی سہیلی کو بھیجی اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی لکھا کہ ”ہماری دوستی کتنی پیاری ہے۔“

پیغام بھیجتے وقت اسے اندازہ نہ تھا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری خوشگوار لمحہ ہوگا۔ جب سہیلی نے یہ تصویر دیکھی تو اسے اپنی دوست کو لاحق خطرے کا احساس ہوا۔ اُس نے اسے محتاط رہنے کا پیغام بھیجا جس کا کوئی جواب نہ ملا۔ اضطرابی کیفیت میں اُس نے لڑکی کی ماں کو وہ تصویر ارسال کی تاکہ وہ اپنی بیٹی کو خطرے سے خبردار کر سکے لیکن تب تک لڑکی کی موت واقع ہو چکی تھی۔

تصویر میں آخر ایسی کیا بات تھی، جو بچی کی موت کاسبب بن گئی؟

معلوم ہوا کہ گھر سے نکلتے ہوئے اس نے اپنی ماں کو بتایا تھا کہ وہ چہل قدمی کے لیے جا رہی ہے۔ غالباً اسی دوران اسے خیال آیا کہ وہ بلندی پر جا کر اپنی اچھی سی تصویر بنائے۔ ایک ایسی تصویر، جس کے پسِ منظر میں شہر اور گردونواح کا پورا علاقہ نظر آ رہا ہو۔ اس نے یہ سیلفی عمارت کی 17ویں منزل پر واقع بالکونی پر بیٹھ کر لی۔ اسی عمارت کے ایک بلاک میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔

تصویر اسے بہت اچھی لگی چنانچہ اس نے ریلنگ پر بیٹھے بیٹھے ہی اسے اپنی سہیلی کو بھیجنا چاہا۔ تصویر تو اپنی منزل مقصود کی طرف چلی گئی لیکن اس دوران وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور نیچے گر گئی۔ اتنی بلندی سے گرنے کے بعد کوئی معجزہ ہی اسے بچا سکتا تھا، لیکن ظاہر ہے کہ معجزات روز روز رونما نہیں ہوتے۔

سڑک پر چلتے راہگیروں نے اس کی نعش دیکھی تو پولیس کو مطلع کیا، جس نے ضابطے کی کارروائی مکمل کی۔

حادثہ کوئی بھی ہو، تفتیش تو ہر زاوئیے سے کی جاتی ہے۔ چنانچہ مرنے والی لڑکی کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیات بھی زیرِ بحث آئیں لیکن کوئی ایسی وجہ سامنے نہ آئی، جس سے خودکشی کا گمان ہوتا ہو۔ تعلیمی اعتبار سے وہ ایک کامیاب طالبہ تھی اور معمول سے ہٹ کر کچھ اضافی کورسز بھی کررہی تھی۔ وہ ایک ہنس مکھ لڑکی تھی اور اچھا خاصاحلقہ تعارف رکھتی تھی، لہٰذا اس کے لئے تنہائی بھی مسئلہ نہ تھا۔ اس کی دوست نے بتایا کہ اسے سوشل میڈیا کے لیے ذرا ہٹ کے سیلفیاں لینے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔

منفرد اور غیرمعمولی سیلفی لینے، اسے دوستوں کے ساتھ شیئر کرنے یا سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے شوق کو پورا کرنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں ہے۔ ایسے واقعات دنیا کے ہر حصے میں رونما ہو رہے ہیں اور ان کی خبریں بھی ذرائع ابلاغ میں آتی رہتی ہیں۔ کہیں کوئی نوجوان کھڑی یا چلتی ٹرین کی چھت پر چڑھ کر سیلفی لینے کی کوشش میں جان سے گیا تو کہیں اسی کوشش میں گاڑی بے قابو ہو کر حادثے کا شکار ہو گئی۔اسی کوشش میں پُل سے گرنے، دریا میں ڈوب جانے، ساحل سمندر پر لہروں کی نذر ہو جانے اور اپنے ہاتھ میں پکڑی بندوق کا ٹریگر دب جانے اور نتیجتاً فرد کے زخمی یا ہلاک ہوجانے کے بیسیوں واقعات منظرعام پر آ چکے ہیں۔

اس تناظر میں بڑھتے ہوئے حادثات نے فطری طور پر ماہرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔ ایسے میں حادثات کی روک تھام کے لیے اقدامات اور امکانی ضابطوں کے علاوہ سیلفی لینے کا رجحان بھی زیرِ بحث ہے جو لوگوں، بالخصوص نوعمروں میں ایک وباء کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اے پی اے (American Psychological Association) نے کثرت سے سیلفیاں لینے کی بے قابو ہو جانے والی خواہش کو ذہنی بیماریوں میں شمار کر لیا ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ تحقیق کا ایک شعبہ قرار پایا ہے اور اس میدان میں کام کرنے والوں کے لئے سیلفی ٹسٹ selfitist کی اصطلاح بھی وضع کی گئی ہے۔ اس ”ڈس آرڈر“ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص دن میں تین سیلفیاں تو لے لیکن انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ نہ کرے تو اسے یہ بیماری لگی نہیں، تاہم وہ اس کی سرحد پر کھڑا ہے۔ اگر وہ یہ تینوں تصویریں پوسٹ بھی کر رہا ہے تو وہ مرض کا قلیل المیعاد (acute) سطح پر شکار ہو چکا ہے۔ اگر کوئی شخص چھ سیلفیاں روزانہ پوسٹ کرے تو اس کا مرض طویل المیعاد (chronic) ہو چکا ہے۔ اے پی اے کے نقطہ نظر پر قانونی اور علمی بحث سے قطع نظر، کسی ایسے شوق میں جنون کی کیفیت پیدا ہوجائے تو اسے بہرحال سنجیدگی سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔

اپنے بارے میں سوچنا، اپنے آپ کو خوب تر بنانے کی جدوجہد کرنا اور عزیز و اقارب کے حلقے میں اس حوالے سے سرگرمیاں کرنا ایک حد تک انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ سلیفی نے اس نفسیاتی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک نئی راہ سجھائی ہے، تاہم اس رجحان کا حدود سے تجاوز کرتے چلے جانا اس بات کی بھی علامت ہے کہ لوگوں کے سامنے ’ہلے گلے‘ یعنی زندگی سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے سے بڑا مقصد کوئی نہیں ہے۔ اسی سوچ کے زیرِ اثر وقت اور توانائیوں کابڑا حصہ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوششوں میں ہی صرف ہو رہا ہے۔

اگر زندگی کاکوئی بڑا مقصد سامنے ہو تو اس کے حصول کے لیے کرنے کو اتنے کام نکل آتے ہیں کہ اس طرح کے شوق خود بخود اعتدال میں آ جاتے ہیں۔

بشکریہ: شفا نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close