سونے سے تین گنا قیمتی رنگ کی داستان، جسے پہننے پر لوگوں کو قتل کروا دیا جاتا تھا!

ویب ڈیسک

شام کے صحرا کے ایک کونے میں قطنی محل کے کھنڈرات ایک ایسی جھیل کے کنارے موجود ہیں، جو بہت عرصہ پہلے خشک ہو چکی ہے۔ یہ کھنڈرات پہلی نظر میں دھبے کی طرح دِکھتے ہیں

آج سے دو دہائیاں قبل 2002ع میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین یہاں ایک شاہی مقبرے کی تلاش میں مصروف تھے، جب انہوں نے ایک دریافت کی

ایک گہری سرنگ کے آغاز پر اطراف میں دو مجسمے محافظوں کی طرح ایک بند دروازے کے ساتھ ایستادہ تھے۔ اس دروازے کے اندر قدیم خزانہ ملا، جس میں زیورات اور ایک سونے کے ہاتھ سمیت دو ہزار اشیا موجود تھیں، لیکن زمین پر حیرت انگیز دھبے بھی موجود تھے۔ بعدازاں جب لیبارٹری میں ان دھبوں کے نمونوں کا جائزہ لیا گیا تو ایک مخصوص قسم کے جامنی رنگ کی تہہ واضح ہوئی

ان محققین نے انجانے میں قدیم دنیا کی نایاب چیز کا سراغ لگا لیا تھا۔ یہ ایک ایسی بیش قیمت چیز کی دریافت تھی، جو بادشاہوں کے تخت گرانے کی وجہا بنی اور جس نے دنیا پر راج کرنے والی سلطنتوں کی نسلوں کی طاقت کو قائم رکھا تھا

مصری ملکہ کلوپیٹرا کو اس سے اتنا لگاؤ تھا کہ ان کی کشتی کے بادبان اسی سے رنگے جاتے اور چند رومی شہنشاہوں نے حکم دے رکھا تھا کہ اگر ان کے علاوہ کسی کے پاس یہ موجود پایا گیا تو اسے سزائے موت دی جائے گی

یہ ایجاد ’ٹیریان پرپل‘ تھی، جسے ’شیل فش پرپل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 310 عیسوی کے ایک رومی حکمنامے کے مطابق یہ اتنا بیش قیمت تھا، کہ سونے کے مقابلے میں اس کی تین گنا قیمت ہوا کرتی تھی، لیکن اب کوئی نہیں جانتا کہ یہ رنگ کیسے بنتا ہے۔ پندرہویں صدی تک اس رنگ کو بنانے کی تراکیب اور نسخے کھو چکے تھے

لیکن یہ رنگ کیسے ختم ہوا اور کیا اسے دوبارہ سے زندہ کیا جا سکتا ہے؟

شمال مشرقی تیونس میں، جہاں زمانہ قدیم میں کارتھیج شہر ہوا کرتا تھا، ایک چھوٹے سے باغیچے میں ایک شخص گزشتہ سولہ برس سے سمندری گھونگھے ایک دیوار سے پٹخ رہا ہے۔ وہ ان کے اندر موجود ایک ایسا مواد نکالنے کی کوشش کر رہا ہے، جو ٹیریان پرپل سے ملتا جلتا ہے

صدیوں تک یہ رنگ معاشرے کے سب سے بااثر طبقے کے لیے مختص تھا۔ اسے طاقت، اقتدار اور دولت کی علامت مانا جاتا تھا

یہ رنگ گہرا لال جامنی سا تھا، جیسے جما ہوا خون ہوتا ہے اور اس میں کالے رنگ کی ہلکی سے آمیزش تھی۔ پلینی دی ایلڈر نامی قدیم مصنف نے اس رنگ کے بارے میں لکھا ہے ”جب اس پر روشنی پڑتی تو یہ چمک اٹھتا تھا“

یہ مخصوص رنگ آسانی سے اترتا بھی نہیں تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جنوبی یورپ، شمالی افریقہ سے لیکر مغربی ایشیا تک مختلف تہذیبوں کو یہ پسند تھا۔ فونیشیائی تہذیب کے ساتھ اس کا تعلق اتنا گہرا تھا کہ ان کو ’جامنی لوگوں‘ کا نام دے دیا گیا۔ اس رنگ کا نام بھی ٹائر نامی شہری ریاست سے منسوب تھا

سنہ 40ع میں ماریطانیہ کے بادشاہ کو روم میں شہنشاہ کے حکم پر قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کی وجہ حیران کن تھی۔ ماریطانیہ کا یہ بادشاہ رومیوں کا دوست مانا جاتا تھا لیکن اس سے ایک بڑا جرم سرزد ہوا تھا۔ گلیڈی ایٹر کا ایک مقابلہ دیکھنے کے لیے اس نے اسی جامنی رنگ کا شاہی چوغا پہن لیا تھا

کہا جاتا ہے کہ اس رنگ سے جڑے حسد کا موازنہ اکثر ایک قسم کے پاگل پن سے کیا جاتا تھا

عجیب بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں دنیا کے سب سے مشہور رنگ کی ابتدا کسی خوبصورت پتھر کی طرح نہیں ہوئی جیسا کہ لیپس لازولی ہے۔ بلکہ اس کا جنم ایک مادے کی شکل میں ہوا جو سمندری گھونگھے پیدا کرتے تھے

ٹیریان پرپل تین قسم کے گھونگھے ہی پیدا کرتے ہیں اور ان تینوں کا رنگ ایک جیسا نہیں ہورا۔ ان میں ہیزاپلیکس ٹرنکولس (جو نیلا جامنی ہوتا ہے)، بولینس برانڈارس (لال جامنی) جبکہ اسٹرامونیٹا ہیماسٹوما لال ہوتا ہے

اس رنگ کو بنانے کے لیے طویل وقت اور محنت درکار تھی۔ سب سے پہلے گھونگھے اکھٹے کرنے ہوتے تھے، جس کے بعد ان کے غدود کو چھری سے کاٹ کر یہ مادہ نکالا جاتا تھا۔ ایک رومی مصنف نے واضح کیا کہ ’زخموں سے یہ مادہ ایسے نکلتا جیسے آنسو بہہ رہے ہوں۔‘ پھر اس مادے کو مٹی کے برتنوں میں اکھٹا کیا جاتا اور ہلایا جاتا

پھر بھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے بعد کیا ہوتا تھا۔۔ گھونگھوں کے اس بے رنگ گاڑھے سے مادے کو افسانوی رنگ میں کیسا بدلا جاتا تھا، یہ معاملہ مبہم، متضاد اور مختلف کہانیوں سے بھرا ہوا ہے

ارسطو کے مطابق اس کی تیاری میں ایک جامنی مچھلی کے حلق سے نکلنے والے غدود استعمال ہوتے تھے، لیکن یہ معاملہ مزید پیچیدہ اس لیے بھی ہے کیوں کہ رنگ ساز اپنے کام کے بارے میں کافی محتاط ہوا کرتے تھے اور زیادہ معلومات فراہم نہیں کرتے تھے۔ ہر رنگ ساز کی اپنی ترکیب ہوا کرتی اور متعدد پیچیدہ اقدامات سے بھرپور فارمولا ایک راز رکھا جاتا تھا

لزبن یونیورسٹی میں پروفیسر ماریا میلو کا کہنا ہے کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں نے اہم قدم تحریر نہیں کیے ہیں۔‘

اس بارے میں سب سے تفصیلی معلومات پلینی کی جانب سے ہی حاصل ہو سکی ہیں، جنہوں نے پہلی صدی عیسوی میں اس رنگ کو تیار کرنے کے عمل کی وضاحت کی تھی

ان کے مطابق گھونگھوں کے غدود خالی کرنے کے بعد اس مادے میں نمک ملایا جاتا اور پھر تین دن کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ پھر اسے مناسب درجہ حرارت پر پکایا جاتا تھا اور یہ عمل تب تک جاری رہتا، جب تک اس مادے کی مقدار کافی حد تک کم نہ ہو جاتی۔ دسویں دن رنگ کو کپڑے پر لگا کر دیکھا جاتا کہ یہ اصلی ہے یا نہیں۔ اگر مطلوبہ رنگ کپڑے پر نمودار ہو جاتا تو اس کا مطلب تھا کہ اب یہ تیار ہو چکا ہے

بات دراصل یہ تھی کہ ہر گھونگھے میں اس مادے کی مقدار کم ہوتی تھی اور ایک صرف گرام رنگ کے لیے دس ہزار کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ جن علاقوں میں یہ رنگ تیار ہوتا تھا، وہاں اربوں کی تعداد میں گھونگھوں کے شیل ملے ہیں

کہا جاتا ہے کہ اس رنگ کی تیاری کی وجہ سے دنیا کی پہلی کیمیائی انڈسٹری کی بنیاد پڑی تھی

یونان میں ارسٹوٹل یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں کاراپاناگیوٹس کہتے ہیں ”اس رنگ کو پانا ہرگز آسان نہ تھا۔۔ یہ رنگ باقی رنگوں سے مختلف تھا کیوں کہ اسے تیار کرنے کے لیے درکار مواد نایاب اور صرف درست حالات میں ملتا تھا“

29 مئی 1453 کو قسطنطنیہ پر ترکوں کا قبضہ ہوا تو مشرقی رومی سلطنت یا بازنطینی شہنشاہت کا خاتمہ ہوا۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس رنگ کا بھی خاتمہ ہو گیا

اس زمانے میں اس انڈسٹری کا مرکز قسطنطنیہ میں تھا، اور یہ رنگ کیتھولزم کے ساتھ جڑ گیا تھا، جسے مسیحی مذہبی شخصیات پہنتیں تھیں اور مذہبی کتابچوں میں اس کا استعمال ہوتا تھا، لیکن اس سے پہلے بھی اس رنگ پر ٹیکس کی وجہ سے کافی اثر پڑ چکا تھا۔ پوپ نے فیصلہ کیا کہ مسیحی طاقت کی علامت بدل کر لال رنگ کر دی جائے، یہ باآسانی اور سستا بن سکتا تھا۔

اس رنگ کے زوال کی ایک اور وجہ بھی ممکن ہے۔ 2003 میں سائنسدانوں نے سمندری گھونگھوں کا ایک ڈھیر جنوبی ترکی میں ایک قدیم بندرگاہ سے دریافت کیا۔ ان کے اندازے کے مطابق یہ ڈھیر چھٹی صدی عیسوی کا تھا، جس میں ساٹھ ملین گھونگھوں کی باقیات شامل تھیں

حیران کن طور پر اس ڈھیر کے نیچے کچھ پرانے نمونے بھی موجود تھے، جو حجم میں چھوٹے اور عمر کے حساب سے کافی جوان تھے

اس حوالے سے ایک وضاحت یہ دی گئی کہ سمندری گھونگھوں کو بہت زیادہ استعمال کیا گیا اور ان کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ اور اسی وجہ سے علاقے میں اس رنگ کو بنانے کی صنعت زوال پذیر ہوئی

تاہم اس دریافت کے چند سال بعد ہی ایک اور دریافت ہوئی، جس نے اس قدیم رنگ کو زندہ کرنے کی امید کو جنم دیا

ستمبر 2007 کا ایک دن تھا، جب محمد غسان تیونس کے مضافات میں کھانے کے بعد پیدل چل رہے تھے

وہ بتاتے ہیں ”ایک رات پہلے طوفان کے باعث ساحلی ریت پر جیلی فش، کیکڑے اور دیگر اشیا موجود تھیں۔۔ تب میں نے ایک رنگ دیکھا جو ایک ٹوٹے ہوئے سمندری گھونگھے سے نکل رہا تھا۔“

غسان کو فوراً اسکول میں پڑھی ایک کہانی یاد آئی، جس میں ٹیریان پرپل کا ذکر تھا۔ وہ مقامی بندرگاہ گئے، جہاں انہوں نے ویسے ہی گھونگھے دیکھے، لیکن مچھیروں کو ان سے نفرت تھی کیوں کہ یہ جال میں پھنس جاتے تھے

غسان نے بہت سے گھونگھے لیے اور گھر لے آئے، لیکن ان کا ابتدائی تجربہ کافی مایوس کن رہا۔ اس رات انہوں نے گھونگھوں کو توڑ کر وہ مادہ تلاش کرنے کی کوشش کی، جو ان کو سمندر پر دکھائی دیا تھا

لیکن گوشت کے علاوہ ان کو کچھ نہیں ملا۔ انہوں نے گھونگھوں کو ایک بیگ میں ڈالا تاکہ صبح ان کو پھینک سکیں۔۔ مگر اگلے دن اس بیگ میں موجود مواد بدل چکا تھا!

وہ بتاتے ہیں ”اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ جامنی رنگ شروع میں پانی کی طرح کا ہوتا ہے“

سائنسدان اب جانتے ہیں کہ گھونگھوں میں موجود اس بے رنگ مادے میں موجود کیمیائی اجزا کو ہلانے کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلے یہ مادہ پہلے رنگ کا ہو جاتا ہے، پھر سبز، نیلا اور آخرکار جامنی رنگ کا ہو جاتا ہے

کاراپانگیوٹس کہتے ہیں ”اگر آپ کسی روشن دن میں یہ عمل کریں تو صرف پانچ منٹ لگتے ہیں“

یہیں سے غسان کو یہ جنون سوار ہوا کہ وہ اس رنگ کو بنانے کے گمشدہ طریقے کو دریافت کریں۔ اگرچہ کئی لوگوں نے سمندری گھونگھوں سے خارج ہونے والے مادے کی تفتیش کی ہے، جس میں سے ایک سائنسدان نے بارہ سو گھونگھوں سے ایک عشاریہ چار کلو پاؤڈر بھی بنا لیا تھا، لیکن غسان یہ سب پرانے طریقے سے ہی کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس اصل رنگ کو دریافت کر سکیں، جس کو صدیوں تک بیش قیمت اور مقدس مانا جاتا تھا

جب وہ پہلی بار گھونگھے اپنے ساتھ گھر لے کر گئے تھے تو ان کی شادی کو ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا۔ وہ بتاتے ہیں ”میری بیوی ان کی بُو سے چڑ گئی اور اس نے تقریباً مجھے گھر سے ہی نکال دیا۔۔ لیکن مجھے یہ کام کرنا تھا“

پہلا پاؤڈر رنگ تیار کرنے میں ان کو کئی سال لگے، لیکن یہ پہلا رنگ ٹیریان پرپل جیسا بلکل نہیں تھا۔ برسوں تک غلطیوں سے سیکھ کر غسان آخرکار ایسی ترکیبیں جاننے میں کامیاب ہوئے، جو ان کے خیال میں زمانہِ قدیم میں استعمال کی جاتی تھیں۔ یعنی سورج کی روشنی اور اندھیرے کا استعمال، مختلف دورانیے کے لیے پکانا اور پلینی کی تحریر کے مطابق مختلف گھونگھوں کے مادے کی آمیزش۔۔

اپنے کام کے لیے غسان نے بازنظینی بادشاہ جسٹینیئن اول اور ان کی اہلیہ تھیوڈروا کی تصاویر کا استعمال کیا ہے۔ تاہم بعد میں انہوں نے اس زمانے کے کپڑوں سے بھی اپنے رنگ کا موازنہ کیا۔ آخرکار وہ ایسا رنگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جو ٹیریان پرپل کے اصل رنگ سے بہت حد تک ملتا جلتا تھا

وہ کہتے ہیں ”رنگ بہت جاندار ہے۔ روشنی کے حساب سے یہ بدلتا ہے اور چمکتا ہے اور آپ کی آنکھوں سے کھیلتا رہتا ہے“

کئی برسوں کے تجربات کے بعد غسان کو اب اپنا رنگ دنیا بھر میں نمائشوں میں دکھانے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ لندن کے برطانوی میوزیئم سمیت امریکی بوسٹن فائن آرٹس میوزیئم میں بھی ان کو بلایا جا چکا ہے۔ ٹیریان پرپل رنگ کی ترکیب جاننے کی کوشش اب وہ گھونگھوں کے کھانوں کی تراکیب میں بھی ماہر ہو چکے ہیں

لیکن ٹیریان پرپل پھر سے خطرے میں ہے۔ اس بار خطرہ یہ ہے کہ یہ مخصوص میوریکس گھونگھے نایاب ہو رہے ہیں۔ سمندری آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سٹرامونیٹا ہیماسٹوما پہلے ہی غائب ہو چکا ہے

اگرچہ بہت زیادہ کوششوں کے بعد یہ رنگ دوبارہ سے زندہ ہو چکا ہے لیکن میوریکس گھونگھوں کی نایابی کے باعث ایک بار پھر موت اس کے سر پر منڈلا رہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close