اگرچہ ایک جیسی خوراک، ایک جیسا ماحول، ایک جیسا طرزِ زندگی، جہاں شادی شدہ جوڑوں میں ہم آہنگی اور خوشگوار ازدواجی زندگی کی وجہ بنتا ہے، وہیں ان کے لیے ایک جیسی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا امکان بھی بڑھا دیتا ہے
ایک نئی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ اگر شوہر اور بیوی میں سے کوئی ایک ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہو تو دوسرا بھی اکثر اس کا شکار ہو سکتا ہے
یہ تحقیق حال ہی میں جرنل آف امیریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع ہوئی ہے اور اس میں امریکہ، انگلینڈ، چین اور بھارت کے پچاس سال سے زیادہ عمر کے لگ بھگ چار ہزار شادی شدہ جوڑوں میں ہائی بلڈ پریشر کا جائزہ لیا گیا تھا
سائنس ڈیلی کے مطابق محققین کہتے ہیں کہ ادھیڑ اور معمر افراد کے لیے یہ ایک اہم رپورٹ ہے کہ اگر آپ کے شریک حیات ہائپر ٹینشن کا شکار ہیں تو آ پ میں اس کا شکار ہونے کا امکان بڑھ سکتا ہے
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ، امریکہ میں 2020 میں لگ بھگ ایک لاکھ بیس ہزار اموات کو بنیادی طور پر ہائی بلڈ پریشر سے منسلک کیا گیا تھا
2017 سے 2020 تک 46٫7 فیصد بالغ امریکی ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا تھے
اس تحقیق کے سینئیر مصنف پی ایچ ڈی ڈاکٹر چی ہوا نے بتایا کہ ”بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ ادھیڑ اور معمر افراد میں ہائی بلڈ پریشر عام ہوتا ہے لیکن ہم یہ جان کر حیرا ن رہ گئے کہ امریکہ، انگلینڈ، چین اور بھارت میں بہت سے معمر جوڑوں میں، شوہر اور بیوی، دونوں ہائی بلڈ پریشر کا شکار تھے۔”
یونیورسٹی آف مشی گن کے ڈاکٹر چی ہوا نے مزید کہا، ”مثال کے طور پر امریکہ میں پچاس سال سے زیادہ عمر کے 35 فیصد سے زیادہ جوڑوں میں شوہر اور بیوی دونوں ہی ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا تھے“
اس سے قبل کسی ایک ملک یا کچھ چھوٹے سے علاقائی نمونوں پر کی جانےوالی ریسرچ میں یہ جائزہ لیا گیا تھا کہ اگر شادی شدہ جوڑوں میں سے کسی ایک کو ہائی بلڈ پریشر یا کوئی دوسری بیماری ہے تو کیا دوسرا بھی اس کا شکار ہو سکتا ہے
لیکن اس تحقیق کے شریک مصنف جیتھن سام ورگہیز نے بتایا کہ یہ ایسی پہلی ریسرچ تھی جس میں امیر اور متوسط آمدنی والے ملکوں کے شادی شدہ جوڑوں میں ہائی بلڈ پریشر کے اس تعلق کا جائزہ لیا گیا
ڈاکٹر جیتھن نے جو اٹلانٹا کی ایمری یونیورسٹی کے گلوبل ذیابیطس سنٹر میں ایک اسسٹنٹ ریسرچ پروفیسر ہیں بتایا ”ہم یہ پتا لگانا چاہتے تھے کہ بہت سے شادی شدہ جوڑے جو اکثر اوقات ایک جیسی دلچسپیاں رکھتے ہیں اور ایک جیسے ماحول میں رہتےہیں ایک جیسے طرز زندگی ، ایک جیسی عادات اور ایک جیسی صحت رکھتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان دونوں میں بلڈ پریشر کی بیماری بھی مشترک ہو“
اس ریسرچ کے محققین نے امریکہ کے 3989 شادی شدہ جوڑوں، انگلینڈ کے 1086 ، چین کے 6514 اور بھارت کے 22389 شادی شدہ جوڑوں کے بلڈ پریشرکا تجزیہ کیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ انگلینڈ میں 47 فیصد ، امریکہ کے38 فیصد ، چین کے 21 فیصد اور بھارت کے 20 فیصد جوڑوں میں شوہر اور بیوی دونوں ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا تھے
امریکہ اور انگلینڈ میں ہائی بلڈ پریشر چین اور بھار ت کی نسبت زیادہ عام ہے تاہم چین اور بھارت میں جوڑوں میں اس مرض کا اشتراک امریکہ اور انگلینڈ کی نسبت زیادہ پایا گیا
ریسرچ کے شریک مرکزی مصنف کولمبیا یونیورسٹی کے پوسٹ ڈاکٹورل فیلو پائی یی لو کہتے ہیں کہ اس کی وجہ کلچر ہو سکتی ہے کیوں کہ چین اور بھارت میں خاندان بہت زیادہ جڑے ہوتے ہیں اور اس لیے جوڑوں کا ایک دوسرے کی صحت پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے
لی کہتے ہیں کہ یہ ریسرچ اس چیز کو اجا گر کرتی ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص اور علاج میں شوہر اور بیوی دونوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔ مثلاً اسکریننگ، اسکلز ٹریننگ یا پروگراموں میں مشترکہ شمولیت
اس ریسرچ میں شامل امریکی شوہروں کی اوسط عمر پینسٹھ سال سات ماہ تھی، انگلینڈ کے شوہروں کی چوہتر سال دو ماہ، چینی شوہروں کی اکسٹھ سال پانچ ماہ ،اور بھارتی شوہروں کی اکیاون سال ایک ماہ تھی
ریسرچ کے محققین کہتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ طرز زندگی تبدیل کیا جائے ، زیادہ فعال رہیں، تناؤسے بچیں اور صحت بخش غذائیں کھائیں۔ تاہم ان تبدیلیوں کو زندگی میں لانا مشکل ہو سکتا ہے اور خاص طور پر اگر آپ کا لائف پارٹنر آپ کے ساتھ ساتھ تبدیلی نہیں لا رہا
محققین کے مطابق عالمی صحت عامہ پر ہائپر ٹینشن کا بوجھ کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ تمام تبدیلیاں لانے کے لئے انفرادی، معاشرتی اور حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں
اس میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومتیں ایسی پالیسیاں وضع کریں جو اس مرض سے بچاؤ اور اس کی تشخیص اور علاج میں فائدہ مند ثابت ہوں
لیکن سو بات کی ایک بات کہ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کی صحت کا خیال رکھیں اور ایک دوسرےکو ٹینشن دینے سے بچیں کیونکہ بلڈ پریشر دونوں کا ہائی ہو سکتا ہے۔