اس واہیات گاؤں میں ویسے ہی گنتی کے چند بلب تھے، جو کوتاہ قد دیواروں سے ذرا اوپر ٹِکے، سہمے سہمے انداز میں یوں جھانکتے تھے، جیسے شریف زادیاں گلی سے گذرتے کسی وجیہہ اجنبی نوجوان کو سب سے نظریں بچا کر پردوں کی اوٹ سے جھانکتی ہیں۔۔ ایسے میں جونہی لائٹ گئی، اندھیرا کسی مکروہ وِلن کی طرح بھیانک قہقہے لگانے لگا اور اس اماوس زدہ رات میں میرے اندر اندھیرے سے نفرت اور خوف کا جن گویا ‘ہُو ہا ہا ہا’ کرتا بوتل سے باہر آ گیا۔
اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا مَیں ابھی اپنی قسمت کو کوس ہی رہا تھا کہ میرے جیسا شہری بابو اپنے پینڈو دوست کی شادی میں شرکت کرنے اس نحوست زدہ گاؤں میں کیوں چلا آیا۔۔۔ کہ اچانک ایک لالٹین میرے چہرے کے عین سامنے ہَوا میں جُھولنے لگی!
”سیدھے چلتے رہو۔۔۔ وہ سامنے چارپائی ہے۔۔۔ اس پر بیٹھ جاؤ۔۔۔ خبردار مُڑ کر میری طرف نہ دیکھنا ورنہ عمر بھر پچھتاؤ گے!“ اس منمناتی مگر تحکمانہ آواز نے گویا میری عین پشت پر میرے کانوں میں سرد سی سرگوشی کی۔
ایسی آواز تھی کہ مجھے لگا جیسے کسی نے برف کی ڈلی گردن کے پشت سے میرے کالر کے اندر سِرکا ڈالی ہو اور اب وہ ریڑھ کی ہڈی کی سیدھ میں آہستہ آہستہ خوف بن کر میرے وجود کے پاتال میں اُترتی چلی جا رہی تھی۔۔۔
”مجھ سے باتیں کرو!“
”کک۔۔۔ کون سی باتیں۔۔۔ مم۔۔۔ مجھے باتیں نہیں آتیں۔۔۔ لوگ تو میری خاموش طبعی کی وجہ سی مجھ سے کوسوں دُور بھاگتے ہیں!“ مَیں گھگھیا کر بمشکل بولا۔
”خاموش رہے تو بچ نہیں سکو گے۔۔۔ چلو باتیں کرو۔۔۔ عام سی باتیں۔۔۔ ڈھیروں باتیں۔۔۔ وہ جو تم اندر ہی اندر صرف اپنے آپ سے گھنٹوں کرتے ہو۔۔۔ اور کبھی کسی سے نہیں کرتے۔۔۔ ادھر تمہاری باتیں ختم ہوئیں۔۔۔ سمجھو اُدھر تمہاری موت آئی!“ اس جملے نے میرے وجود کو برف کی سلِ میں بدل ڈالا۔
ڈرتے ڈرتے مَیں نے عام، بےتُکی اور بے ربط باتیں شروع کیں۔ بند کھلا تو دھیرے دھیرے روانی خود بخود بڑھنے لگی اور خوف و دہشت کا احساس بتدریج کم ہونے لگا۔ ذات کی خاموش جھیل میں گفتگو کا کنکر پہلی بار گرا تو دائرے سفر کرتے کرتے کناروں سے سر مارنے لگے۔۔ حتیٰ کہ مَیں یہی بھول بیٹھا کہ کہاں اور کس سے ہمکلام تھا۔ برسوں سے میرے اندر جمع باتیں ساون کی شدید برسات کی طرح برس رہی تھیں کہ بے خیالی میں مجھ سے غلطی ہو گئی اور مَیں نے مڑ کر اپنی پشت پر بیٹھے اس اجنبی کو دیکھ لیا!
لالٹین تھامے میری پشت پر بیٹھی ایک دہشتناک کھوپڑی ہنس رہی تھی، نیچے پسلیوں کا گول سا مہیب پنجر، بازوؤں اور ٹانگوں کی طویل ہڈیوں کے سوا اور کچھ نہ تھا!!!
مگر نجانے کیوں مَیں اس ہیبت ناک ڈھانچے سے رتی برابر بھی خوفزدہ نہ ہوا!
”دیکھا۔۔۔ گفتگو چلی تو مَیں تمہارے اندر سے کتنی آسانی سے نکل گیا۔۔۔ ورنہ بائیس برس لگے تھے تب کہیں جا کر صدیوں پہلے میرے بدن سے میری روح آزاد ہوئی تھی!“
”تم۔۔۔ تم کیسے مرے تھے؟“
”خاموشی سے!!!“