بھارت میں مودودی اور سید قطب کی کتابیں نصاب سے خارج

ویب ڈیسک

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں برِصغیر کے معروف عالم دین مولانا مودودی اور مصری اسلامی اسکالر سید قطب کی کتابوں کو نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔ بعض انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے ان کی کتابوں پر اعتراض کیا گیا تھا

بھارت کے بعض ہندو قوم پرستوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک مکتوب لکھا تھا، جس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے بر صغیر کے معروف عالم دین مولانا ابو الاعلٰی مودودی اور مصری مسلم اسکالر سید قطب کی تعلیمات کو اپنے نصاب سے ہٹا دیا ہے

ہندو قوم پرستوں نے بھارتی یونیورسٹیوں میں ان مسلم اسکالر کی کتابیں پڑھانے پر اعتراض کرتے ہوئے پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا اور اس کے لیے وزیر اعظم مودی کو خط لکھا تھا۔ ابھی تک صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اس پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے محکمہ رابطہ عامہ سے وابستہ ایک اہلکار نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ”بہت سے پروفیسر اس کے مخالف تھے، تاہم وائس چانسلر کے احکامات کے بعد ایسا کرنا پڑا اور دونوں اسلامی مفکرین کی کتابوں کو نصاب سے نکال دیا گیا ہے“

یونیورسٹی کے ایک افسر نے بتایا کہ اس تنازعے کی ابتدا اس وقت ہوئی، جب بعض ہندو اسکالرز نے مولانا مودودی اور سید قطب کے لٹریچر کو ’جہادی‘ قرار دیا اور میڈیا سے کھل کر کہا کہ انہوں نے اس پر پابندی کے لیے ایک خط لکھا ہے

یونیورسٹی کے ترجمان شافع قدوائی نے بھارتی میڈیا کو بتایا ”ان دونوں اسکالرز کی تعلیمات کو نصاب سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اور یہ یونیورسٹی میں کسی بھی تنازعہ سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔“

انہوں نے کہا ”وقت کے ساتھ حالات بدل گئے ہیں۔ شاید جو بات پہلے پڑھانے کے قابل سمجھی جاتی تھی وہ اب اس قابل نہیں سمجھی جاتی ہے‘‘

واضح رہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں حکومت اور انتظامیہ سے متعلق اسلامی نظریات کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اور اس سلسلے سید قطب اور ابوالاعلی مودودی نے اسلامی طرز حکومت پر جو نظریات پیش کیے ہیں وہ نصاب کا حصہ تھے

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے چیئرمین پروفیسر محمد اسماعیل کا کہنا ہے ”پہلے ہم نے مزاحمت کی تھی تاہم، جب وائس چانسلر نے حکم دیا تو ہم نے ان کی کتابوں کو نصاب سے ہٹا دیا‘‘

ان کا کہنا تھا ”بعض لوگوں کو اعتراض اس بات پر تھا کہ ان کا لٹریچر جہادی ہے جو تشدد پر اکساتا ہے۔ اس پر ہم نے انہیں چیلنج کیا کہ اگر وہ ایسا کوئی ایک جملہ بھی دکھا دیں جو تشدد پر آمادہ کرتا ہو، تو وہ ان کی بات تسلیم کر لیں گے تاہم وہ اس میں ناکام رہے۔ ہم نے یہ بات یونیورسٹی حکام کو بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب وائس چانسلر نے حکم دے دیا تو اسے ماننا پڑا‘‘

انہوں نے مزید کہا ’’بعض کی دلیل یہ ہے کہ سعودی عرب جیسے ممالک بھی ان کی سیاسی تعلیمات سے گریز کرتے ہیں، تو ہم نے انہیں یہ جواب دیا کہ مودودی اور سید قطب کی تعلیمات دراصل جمہوری اقدار پر مبنی ہیں، اور ان ممالک کی اشرافیہ حکومتیں اسے پسند نہیں کرتیں، اس لیے انہوں نے ایسا کیا ہے‘‘

ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ فسطائیت اور نازی ازم جیسے معتوب سیاسی نظریات کو بھی پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، تاکہ اس کو سمجھا جا سکے تو پھر نصاب سے نکال دینے سے، تو فائدے کے بجائے اکیڈمک نقصان ہوگا؟ اس پر انہوں نے کہا ’’میرا بھی یہی خیال ہے تاہم ان حالات میں آخر کیا بھی کیا جا سکتا ہے؟‘‘

وزیر اعظم مودی کے نام خط میں ہندو انتہا پسندوں نے کیا لکھا تھا؟

بھارت میں انتہا پسند ہندو نظریات کے حامل تقریباً دو درجن افراد نے ایک کھلا مکتوب وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھا تھا۔ اس کا عنوان تھا ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد جیسے حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے اداروں میں ملک اور قوم کے مخالف نصاب طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے‘‘

اس میں مزید لکھا گیا ’’ہم اس خط پر دستخط کرنے والے تمام، آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ حکومتی مالی اعانت سے چلنے والی مسلم یونیورسٹیوں جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونیورسٹی کے بعض شعبوں میں ’ڈھٹائی‘ سے اسلامی جہادی نصاب کی پیروی کی جا رہی ہے‘‘

حالانکہ ان اس خط میں ان تمام یونیورسٹیوں سے ایسے تعلیم نصاب کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جہاں مسلم طلبہ کی اکثریت ہے، تاہم ابھی تک اس پر پابندی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لگائی گئی ہے

ایک طرف مسلم اسکالرز کی کتابیں یونیورسٹی کے نصاب سے خارج کی جا رہی ہیں، تو دوسری جانب کچھ عرصے سے متعدد ریاستوں کی بی جے پی حکومتیں ہندو قوم پرست نظریات کو فروغ دینے کے لیے نیا نصاب اسکولوں کی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں

کچھ عرصہ قبل ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست کرناٹک کی ریاستی حکومت نے اسکول کی نصابی کتابوں میں ترمیم کرنے کی کوشش کی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت ان تبدیلیوں کے ذریعے دراصل ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے

میڈیا رپورٹوں کے مطابق دلت سماجی مصلح پیریار اور نارائن گرو، جنگ آزادی کے سورما بھگت سنگھ اور ایسی دیگر شخصیات سے متعلق مضامین کتابوں سے حذف کر دیے گئے ہیں

اطلاعات کے مطابق ہندو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے بانی کے ایچ ہیڈگوار کی ایک تقریر نصابی کتابوں میں شامل کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنا سیاسی کیریئر آر ایس ایس سے ہی شروع کیا تھا، جو حکمراں بی جے پی کی مربی تنظیم بھی ہے۔ تقریباً ساٹھ لاکھ اراکین پر مشتمل آر ایس ایس کی درجنوں ذیلی تنظیمیں بھارت اور دنیا کے مختلف ملکوں میں انتہا پسندانہ ہندوتوا کے نظریات کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مرکز برائے مطالعہ تاریخ میں پروفیسر آر مہالکشمی کا اس حوالے سے کہنا تھا ”اسکول کی سطح پر نصابی کتابوں میں مجوزہ تبدیلی تشویش کا سبب ہے کیونکہ اسے علمی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close