اسلام آباد میں رہتے ہوں تو سیر و تفریح کے لیے گھوم پھر کر یا تو مارگلہ کی پہاڑیاں ہیں یا شکر پڑیاں۔
اس کے علاوہ ایک اور جگہ بھی ہے، جس کے بارے میں اسلام آباد میں رہنے والوں کو بھی زیادہ نہیں معلوم۔۔ اور وہ ہے لوئی بھیر سفاری پارک، جہاں دیگر جانوروں کے ساتھ ساتھ شیروں کی سفاری کا اپنا ہی لطف ہے۔
شیروں کے علاقے میں داخل ہوں تو انتباہی تحریر پڑھنے کو ملتی ہے کہ گاڑی سے نہ اتریں اور گاڑی کے شیشے چڑھا کر رکھیں۔
کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ میں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ گیا۔ ایک چھوٹا سے تالاب نما پانی تھا، جہاں گرمی سے بدحال شیر اور شیرنیاں سستا رہے تھے۔
ایک روز قبل بارش ہوئی تھی تو وہاں کی کچی سڑکیں کیچڑ بن چکی تھیں اور شیر کے پیچھے پیچھے جانے میں بھی احتیاط برتنی ہوتی تھی کہ کہیں گاڑی کیچڑ میں نہ پھنس جائے۔
تالاب کے پاس گاڑی کھڑی کی اور شیرنیوں کے درمیان سستا رہا شیر ہم سے مشکل سے آٹھ فٹ کے فاصلے پر ہم سے لاپرواہ بیٹھا تھا۔
ہم سے، یعنی شیروں سے، بمشکل 25 فٹ کے فاصلے پر ایک سوزوکی ہائی روف میں ایک خاندان آیا، جس میں عورتیں اور بچے تھے۔
سوزوکی اور شیروں کے درمیان میں ایک چیز تھی اور وہ تھی ہماری گاڑی۔ ہم تصویریں کھینچ رہے ہیں اور اچانک دیکھا کہ سوزوکی ریورس کرتے ہوئے کیچڑ میں پھنس گئی۔
کچھ دیر تو ڈرائیور نے اپنے ہنر کو بروئے کار لاتے ہوئے گاڑی کو نکالنے کی کوشش کی اور جب نہیں نکلی تو اس گاڑی سے عورتیں اور بچے اترے اور ہماری گاڑی کی جانب چل پڑے۔
گاڑی والا کیچڑ سے گاڑی نکالنے کی کوشش کرتا رہا اور اُس کی اس کوشش میں اتنا شور تھا کہ ہم ان عورتوں اور بچوں کو پہلے اشاروں سے پھر شیشہ اتار کر چلاتے رہے کہ ادھر مت آؤ، یہاں شیر بیٹھے ہیں۔
انہوں نے سنا اور نظر انداز کیا، یا نہیں سنا لیکن ان کی پیش قدمی ہم سے زیادہ شیروں کی جانب جاری رہی۔ ایک طرف تو ہم ان کو چیخ کر بتا رہے تھے کہ اس طرف نہ آؤ اور دوسری طرف شیروں کی طرف دیکھ رہے تھے کہ ان کی نظر تو نہیں پڑ گئی۔
خیر ابھی وہ کچھ ہی فاصلے پر تھے کہ ان کی گاڑی کیچڑ سے نکلی اور وہ سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ہم نے اور کیا سیر کرنی تھی اور یہ سوچ کر ہی، کہ اگر شیر دیکھ لیتے تو کیا ہوتا، ہم وہاں سے چل پڑے۔ ہمارے پیچھے پیچھے وہ گاڑی بھی باہر آ گئی۔
شیروں کے انکلوژر کے رکھوالوں کو واقعہ بتایا تو انہوں نے گاڑی کو روکا۔ ہم بھی اترے۔ اور یہ سن کر ہم اور رکھوالے دونوں ہی ششدر رہ گئے، جب اس خاندان نے کہا کہ شیر دیکھ لیتے تو کیا ہوتا؟
دراصل جانور سے بڑا جانور انسان ہے۔ کبھی یہ دوسروں جانوروں کی آماجگاہوں میں داخل ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ دوسرے جانور نے اس پر حملہ کیا، تو کبھی زندگی آسان بنانے کے لیے جانور کے قریب چلا جاتا ہے۔
اپنی سیر و تفریح کے لیے دوسرے جانوروں کی آماجگاہوں کو برباد کرتے ہیں۔ سنورکلنگ اور سکوبا ڈائیونگ کے نام پر جو ہم کرتے ہیں، اس کا سمندری حیات پر کیا اثر پڑتا ہے، اس کا اندازہ انسانی جانور بخوبی لگا سکتا ہے اور اس کو اس نقصان کا معلوم بھی ہے لیکن پرواہ نہیں کرتے۔
چرنا جزیرے کے قریب مرجان کی چٹانیں اپنا رنگ کھو بیٹھیں اور سفید ہو گئیں۔ اگر ان کو پہنچائے گئے نقصان کی تلافی نہ کی جائے تو سفید ہونے کے بعد یہ چٹانیں مر جاتی ہیں۔
یہ وہ چٹانیں ہیں، جو بحری حیات کے لیے بہت اہم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ایک چوتھائی بحری حیات کے لیے یہ چٹانیں مددگار ہوتی ہیں۔
جہاں ایک طرف پاکستان میں سکوبا ڈائیونگ اور سنورکلنگ جیسے کھیلوں میں لوگوں کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے، وہیں سمندری حیات کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جزیرے پر آنے والے سیاح اپنا کچرا ادھر ہی چھوڑ جاتے ہیں، سمندر میں پلاسٹک کے تھیلوں میں اضافہ ہو رہا ہے، کشتیوں کی سائیڈوں پر لگے ٹائر گرتے ہیں اور ان چٹانوں پر لگتے ہیں، جن سے ان کو نقصان ہوتا ہے۔
دوسری جانب انسان دوسرے جانوروں کے مسکن پر قبضہ کر لیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ جانور نے اس پر حملہ کیا۔
مثال کے طور پر انسان اور تیندووں کے تصادم کے زیادہ تر واقعات ریزرو جنگلات کے ساتھ ہی واقع گزارا جنگلات میں پیش آتے ہیں۔
محکمہ جنگی حیات کے مطابق تقریباً 70 فیصد ایسے واقعات گزارا جنگات میں پیش آئے۔ محکمے کے مطابق گزارا جنگلات تیندووں کے تحفظ کے لیے بہت اہم ہیں تاکہ ان کے پاس خوراک اور ساتھی کی تلاش کے لیے مزید علاقہ میسر ہو، لیکن آہستہ آہستہ ہم نے ان جنگلات پر قبضہ کر کے اپنی آماجگاہیں بنا لی ہیں۔
مسئلہ جانوروں کے ساتھ نہیں، انسانوں کے ساتھ ہے!
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)