”سرمد یار میں تے چل ھاں، پر ایہہ باقی لوگ کون نیں؟“ (سرمد یار چلو میں تو ہوں لیکن یہ باقی لوگ کون ہیں) منیر نیازی نے شام کو مال روڈ پر آوارہ گردی کرتے ہوئے کہا
”کون منیر صاحب؟“ میں نے پوچھا
”ایہی مکروہ چہرے، خبیث روحاں تے چڑیلاں جیہڑیاں میرے اگے پچھے پھردیاں رھندیاں نیں۔“ (یہی مکروہ چہرے، خبیث روحیں اور چڑیلیں جو میرے آگے پیچھے پھرتی رھتی ہیں)
”چھڈو منیر صاحب! آخر اللہ نے دنیا وچ کرلیاں، گنڈوے تے کاک روچ وی تے پیدا کیتے نیں!“ (چھوڑیں منیر صاحب آخر اللہ نے دنیا میں چھپکلیاں، کینچوے اور کاکروچ بھی تو پیدا کئے ھیں۔)
منیر نیازی چلتے چلتے رک گئے، پھر تھوڑا سوچ کر کہنے لگے، ”ھاں سرمد توں صحیح کہہ رھیا ایں، اے سب لوک دراصل میر ی شہادت واسطے پیدا کیتے گئے نیں۔“ (ہاں سرمد تم صحیح کہہ رھے ہو، یہ سب لوگ دراصل میری شہادت کے لئے پیدا کئے گئے ھیں۔) منیر نیازی نے ایک اطمینان بھری سانس لی اور تازہ دم ہو کر پھر چہل قدمی شروع کردی۔
یہ واقعہ غالباً ساٹھ کی دہائی کا ہے۔ لیکن اس کے کئی سالوں بعد جب میں میر تقی میر کے بارے میں فلم ’ماہ میر‘ کا ایک سین لکھ رھا تھا تو میرے ذہن پر منیر نیازی کے یہی جملے اورلیپ ہو رہے تھے۔
میر: انشاء میں تو ہوں، مگر یہ کیڑے مکوڑے، کینچوے یہاں کیا کر رہے ہیں۔
انشا: (گھبرا کر) کون میر صاحب۔
میر: بھئی یہی دلی اور لکھنو کے شاعر۔۔ تم نے میرا ’اژدر نامہ‘ نہیں سنا؟
“نہیں“
”تو سنو!
یہ موذی کئی نا خبرِ داِر فن
نئی ناگنیں جن کے ٹیکوں کے پھن
سن اے ماجرے کو سبھوں نے کہا
کہاں کینچوے یہ کہاں اژدھا؟“
منیر نیازی میر تو نہیں تھے لیکن طبعیت میر جیسی پائی تھی۔ میر کو اگر دلی اور لکھنو کے شاعر کینچوے اور ناگنیں دکھائی دیتے تھے اور بلائیں روزگار میں نظر آتی تھیں تو منیر نیازی کو چلتے پھرتے اپنے گرد جن بھوت اور چڑیلیں منڈلاتی نظر آتی تھیں۔ میں جب فرسٹ ائر کا طالب علم تھا تو میں نے ’سویرا‘ میں ان کی ایک نظم پڑھی تھی جو چڑیلوں بھوتوں اور کسی آسیب زدہ گھر کے بارے میں تھی۔ یہ چڑیلیں کون تھیں اور وہ آسیب زدہ گھر کس کا تھا؟ مجھے اس وقت تو کچھ پتہ نہ چلا لیکن جب ہماری پوری ایک نسل کالج سے باہر نکلی تو ھمیں خبر ملی کہ
منیر اس ملک پر آسیب کا سایا ہے یا کیا ھے،
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آھستہ آھستہ۔۔
منیر نیازی سے میری پہلی ملاقات شاید انیس سو چونسٹھ میں ہوئی۔ میں اس وقت سمن آباد میں رہتا تھا۔ وہاں ایک ادبی حلقہ تھا، جہاں ایک دن مجھے بھی غزل پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ میں وھاں پہنچا تو دیکھا منیرنیازی کرسیِ صدارت پر جلوہ افروز ہیں۔ میں نے ہمت کر کے غزل پڑھ دی، منیر صاحب کو بہت پسند آئی، کسی نے ایک آدھ مصرعے پر ہلکی سی تنقید کی تو منیر صاحب اس پر بری طرح برس پڑے۔ مجھے اسی دن اس بات کا احساس ہوگیا کہ منیر نیازی کو میری غزل پر تنقید کا اتنا غصہ نہ تھا، جتنا اس بات پر کہ کسی نے منیرصاحب کی رائے کو چیلنج کیا تھا۔ اجلاس کے بعد ہم منیر صاحب کو سمن آباد کے فیشن ایبل ریسٹورانٹ بلو اسٹار میں لے گئے، جہاں رات دیر تک ان سے ان کی خوبصورت شاعری سنتے رہے۔ اب میری منیر صاحب سے باقاعدہ دوستی شروع ہوگئی، وہ کبھی گورنمٹ کالج کی کینٹین میں آجاتے اور ہم ان سے گپ شپ کرتے، کبھی ٹی ہاؤس میں اور کبھی مال پر آوارہ گردی کرتے مل جاتے، جہاں بھی ملتے، میں ان کے ساتھ چل پڑتا۔
لاھور ٹی وی میں ملازمت شروع کی تو منیر صاحب کے ساتھ اور بھی گہرے مراسم ہو گئے۔ وہاں ان کا اکثر آنا جانا رھتا۔ اب ان سے روز ھی کہیں نہ کہیں ملاقات ہو جاتی۔ سب سے زیادہ لطف مال پر شام کو آوارہ گردی کرنے میں آتا۔ اس زمانے میں مال روڈ ایک پراسرار خواب کی طرح آنکھوں میں کھلتی چلی جاتی۔ جونہی شام آتی، چاروں طرف دکانیں اور ریسٹورانٹ جگمگانے لگتے، شہر کے بانکے اور پریزاد بن ٹھن کر باھر سیر کو نکلتے۔
اے حمید صاحب جن سے میری بڑی پیاری دوستی تھی، انہوں نے مجھے ایک دن بتایا کہ جوانی میں ان کا ’نارسسزم‘ کا باقاعدہ ایک اسکول تھا۔ وہ کہتے تھے ”میں، منیر نیازی اور جاوید شاھین ہم تینوں بہت نرگسیت پسند تھے، چنانچہ شام کو نہا دھو کر خوبصورت کپڑے پہنتے، خوب اسٹائل سے بال بناتے، خوشبو لگاتے، ’ایوننگ ان پیرس‘ ہمارا پسندیدہ پرفیوم تھا۔ خوب تیار ہوکر گھنٹوں آئینہ دیکھتے اور پھر ہاتھوں میں پھول تھام کر مال روڈ پر نکلتے۔“
اس میں کوئی شک نہیں کہ منیر صاحب خوش شکل اور خوش لباس تھے اور ان کو خود پسند ہونے کا حق تھا لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی طے تھی کہ وہ اپنے علاوہ نہ تو کسی کو شاعر مانتے تھے اور نہ ہی اپنی شاعری پر کسی کو تنقید کرنے کی اجازت دیتے تھے۔ وہ اپنی شاعری کو ایڈٹ یا اس میں کسی قسم کی رد وبدل کرنے کے بھی قائل نہیں تھے، ہاں کبھی کبھار احمد مشتاق سے ازراہِ مذاق پوچھ لیتے، ”یار ذرا دیکھیں، کدھرے میرے اوزان تے خطا نہیں ہو گئے؟“ (یار دیکھنا کہیں میرے اوزان تو خطا نہیں ہو گئے)
ایک دن میں نے ان سے کہا کہ بہت سے شاعر اپنی نظموں پر کئی کئی سال کام کرتے ہیں اور ٹی ایس ایلیٹ نے تو اپنی کئی نظمیں پھاڑ ڈالی تھیں۔ منیر صاحب نے کہا، ”بڑا بے وقوف شاعر تھا“ ، میں نے پوچھا ”کیوں؟“ کہنے لگے، ”اگر اس پاگل نے اپنی نظمیں پھاڑنی ہی تھیں تو لکھیں کیوں؟“
یہ وہ دن تھے، جب شہر میں وجودیت، مارکسزم، جدیدیت، فیمینزم اور جانے کیا کیا ازم چیچک کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔ مارکسزم کا تو خاصا غلغلہ تھا۔ منیر نیازی کو ہر قسم کی نظریاتی بحثوں اور گروہ بندیوں سے الجھن ہوتی تھی۔ وہ کہتے، ”کسی ایسے فلسفے یا نظریے پر کیا شاعری کرنی، جس کا سب کو پہلے سے ہی علم ہو۔“ ان کا مطلب تھا کہ شاعری تو ’نامعلوم‘ سے آتی ہے اور یہ لوگ محض ’معلوم‘ کو پیٹ رھے ہیں۔
ایک دن کسی مشاعرے کے بعد ہم چائے پی رہے تھے کہ ظہیر کاشمیری، جو پرانے مارکسسٹ تھے، باتوں باتوں میں منیر نیازی سے اُلجھ پڑے۔ ظہیر کاشمیری کا لہجہ بہت گرجدار اور جوشیلا تھا، اپنے آپ کو شیکسپئر سمجھتے، اس لئے نہیں کہ انہوں نے کوئی ’ہملٹ‘ یا ’کنگ لئیر‘ لکھا تھا، بلکہ اس لئے کہ ان کا حلیہ شیکسپئر سے ملتا جلتا تھا۔ وہ ذھنی طور پر ہر وقت اسٹیج پر رہتے تھے۔ جب اپنے کینڈے پر آتے تو انگریزی میں گفتگو کرنا پسند کرتے۔ اس دن بھی ان کے سامنے دو بندے، میں اور منیر نیازی بیٹھے تھے، لیکن ان کا مخاطب پورا ہال تھا۔ بس انگریزی کے ایک دو فقرے دہرائے جا رہے تھے
“Oay, everything is matter in motion! It is a process of Molecules! Molecules! Oay, what are you? What are you? Molecules! Molecules!”
(اوئے ہر شے میں مادہ حرکت کر رہا ہے، یہ مالیکیولز کی گردش ہے۔ اوئے، تمہاری کیا اوقات ہے، اوے کیا اوقات ہے تمہاری؟ مالیکیولز! مالیکیولز!)
ظہیر کاشمیری کی مونچھوں کا رنگ سُنہرا تھا، چنانچہ منیر نیازی نے کہا، ”اوئے سُنہری بِچھو! اسی تے سپاں نوں وی دُوھ پیایا اے، توں سانوں کیہ وڈن آ گیا ویں؟“ (اوئے سنہری بچھو! ہم نے تو سانپوں کو بھی دودھ پلایا ھے، تو کون ہے جو ہمیں ڈنک مارنے آ گیا ہے؟)
”اوئے بڑا بڑا دیو ہیکل مٹی ہو گیا، اوئے وٹ آر یو، واٹ آر یو؟ مالیکیول مالیکیول!“ ظہیر کاشمیری نے اپنی ’وٹ آر یو!‘ کی گردان جاری رکھی۔
منیر نیازی نے مصنوعی غصے کے ساتھ گرج کر کہا، ”اوئے مَیں مالیکیول نہیں، مَیں آدم زاد آں، میریاں اکھاں نیں، میرے کول بصیرت اے۔ سرمد یار ذرا میرا چشمۂ بصیرت تے مینوں پھڑا۔“ (اوئے میں مالیکیول نہیں، میں آدم زاد ہوں – میری آنکھیں ہیں، میرے پاس بصیرت ہے۔ سرمد یار تم مجھے ذرا میرا چشمہِ بصیرت تو پکڑاؤ۔)
منیر نیازی نے عینک لگائی اور غور سے ظہیر کاشمیری کو دیکھنا شروع کر دیا۔ منیر نیازی کے مالیکیول ظہیر کاشمیری میں دیر تک سنہری بچھو تلاش کرتے رہے۔
ہمارے دوست انور سجاد ایک زمانے مہں بہت سرگرم سیاسی لیڈر بن چکے تھے، ان کا قد ذرا چھوٹا تھا اور آواز بھاری تھی، جلسے جلوسوں میں ہم بھی ان کے ساتھ نعرہ بازی کرتے تھے۔ منیر صاحب ان کے انقلابی نعروں سے متاثر ہو کر پیار سے کہتے ”ست ماھیے بچے نوں گھنڈی نکل آئی اے۔” (ستوانسے بچے کو گھنڈی نکل آئی ہے)
کشور ناھید دبنگ اور بے باک شاعرہ ھیں، مردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ھیں، ان کی زبان بھی مردوں سے کم نہیں۔ منیر صاحب شرارت بھری مسکراھٹ سے کشور کے بارے میں کہتے ”میں اپنی بیوی نوں مرداں کولوں پردہ نہیں کرواندا پر کشور کولوں کرواناں واں“ (میں اپنی بیوی کو مردوں سے پردہ نہیں کرواتا لیکن کشور سے کرواتا ہوں)
منیر صاحب کا مرغوب لفظ ’دہشت‘ تھا۔ وہ لوگوں کو ان کے گھروں میں ڈرا دینا چاھتے تھے۔ میر تو کینچووں اور ناگنوں میں اپنے آپ کو اژدھا کہتے تھے، منیر صاحب اپنے اپ کو شیر کی صورت میں دیکھتے تھے، شیر جنہیں دیکھ کر بلیاں درختوں پر چڑھ جاتی ہیں، ایک بار کراچی گئے، واپس آئے تو اپنی دہشت کا قصہ یوں سنایا:
”سرمد جد میں کراچی گیا تے جون ایلیا مینوں ویکھ کے فرطِ دہشت نال درخت تے چڑھ گیا“ (سرمد، جب میں کراچی گیا تو جون ایلیا مجھے دیکھ کر فرطِ دھشت سے درخت پر چڑھ گیا۔)
انا پرستی تو ہمیں بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں میں بھی نظر آتی ہے۔۔ منٹو اور میر کو ہم دیکھ چکے ہیں اور غالب کے تعلی بھرے اشعار تو ہم سنتے ہی رہتے ہیں، ہمارے منیر نیازی ان سب سے کم تو نہیں تھے، ان کے بھولپن، معصومیت اور حسِ مزاح کا رچاؤ ان کی انا پرستی کو ایک ان دیکھی جہت میں بدل دیتا ہے۔
لاھور میں واصف علی واصف اپنے گھر میں کچھ ادیبوں شاعروں کو قرآن کی تفسیر پڑھایا کرتے تھے، منیر نیازی اور اشفاق احمد بھی وہاں قرآن کی تفسیر سننے جاتے۔ ایک دن واصف صاحب نے منیر نیازی کی کسی نظم پر تنقید کر دی اور ان کو کچھ مفید مشورہ دینے کی بھی کوشش کی، منیر نیازی نے فوراً قران بند کیا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
”کیا ہوا منیر؟“ واصف صاحب نے پوچھا۔
منیر نیازی نے کہا، ”جس شخص کی سمجھ میں میری نظم نہیں آئی اس کی سمجھ میں قران کیا آئے گا؟“ یہ کہہ کر قران اٹھایا اور باہر نکل گئے۔
منیر صاحب کے اندر بے پناہ اضطراب تھا، ایک بے چینی تھی جو انہیں ہر وقت دوڑائے رکھتی تھی۔ وہ زمانے سے بے نیاز اپنی رو میں چلتے جاتے تھے۔ موسموں اور رنگوں میں بھیگا ہوا ایک شخص، سفر کی دھول میں اٹا آدمی، جسے شہر ویران لگتے اور لوگ آسیب زدہ۔۔ وہ اس سنگدل شہر میں، جس کی وہ خاک کو بھی اڑا دینا چاھتا تھا، خوبصورتی کی تلاش میں رہتا تھا۔۔ کھبی چاند کو دیکھ کر دیوانہ ہو جانا کبھی کسی پھول کو دیکھتے رہنا، کبھی کسی پرانے گھر کی کھڑکیوں دروازوں کے سامنے حیرت زدہ ہو کر کھڑے رہنا، کبھی کسی خوشگوار موسم کے ساتھ بہک جانا، بس ایک عجیب بے اختیاری، ایک وحشت، ایک نہ ختم ہونے والی اداسی ایک لاحاصل کو پانے کی والہانہ تڑپ، ایک عشق میں ڈوبی ہوئی مراقبت۔۔
رات کے پچھلے پہر میں
اک ان دیکھے شہر میں
دیکھا اس کو بھاگتے
ایک ڈراؤنے قہر میں
سینہ لہو لہان تھا
آنکھ بُجھی تھی زہر میں
تیز چمک تھی چاند کی
تند بدن کی لہر میں
(منیر نیازی کے لئے ایک نظم)
منیر صاحب سے میری آخری ملاقات اسلام آباد میں 2006 میں ہوئی، جب جمال شاہ نے ہنر کدہ میں ان کے لئے ایک شام کا اہتمام کیا۔ میں نے جمال سےکہا، منیر صاحب کو ان کے گیسٹ ہاوس سے میں لینے جاؤں گا۔ جب میں منیر صاحب کے پاس پہنچا تو تیار بیٹھے تھے، مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے، چلو میں ذرا خوشبو لگا لوں۔ ان کے کمرے میں بہت سی پرفیومز پڑی تھیں، انہوں نے بڑے اہتمام سے ایک خوشبو لگائی اور کہنے لگے بس اتنی خوبصورتی کافی ہے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور گاڑی میں بٹھا کر ہنر کدے کی طرف چل پڑا۔ میں نے دیکھا منیر صاحب کافی کمزور اور لاغر دکھائی دے رھے تھے۔ وہ کچھ مہینے پہلے کافی دن بیمار رہے تھے۔
ہنر کدے میں ان کے بہت سے چاہنے والے موجود تھے، محفل کا آغاز ہوا، میں نے اور جمال شاہ نے ان کے بارے میں کچھ باتیں کیں اور جس کے بعد انہوں نے اپنی بہت سی نظمیں اور غزلیں سنائیں، آخر میں ہماری فرمائش پر یہ نظم سنائی:
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
ضروری بات کرنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔۔
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔۔
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ، اس کو یہ جا کر بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔۔
اس نظم کے بعد سارے ماحول پر ایک عجیب اداسی سی چھا گئی۔ محفل ختم ہو چکی تھی۔ میں منیر صاحب کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنی گاڑی کی طرف لے جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا منیر صاحب ایسے جھک کر چل رہے ہیں، جیسے ابھی گر پڑیں گے۔ میں نے پیار سے ایک ہاتھ ان کی کمر پر اور دوسرا ہاتھ ان کے سینے پر رکھتے ہوئے کہا، ”منیر صاحب سدھا ہو کے چلو!“ (منیر صاحب سیدھا ہو کر چلیں)
انہوں نے رک کر میر ی طرف دیکھا۔ ان کے چہرے پر ایک گمبھیر اداسی تھی – انہوں نے مجھے ایک تھکی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ”ھُن پیا دسنا ایں–“ (اب بتا رھے ہو؟)
منیر صاحب واپس لاہور چلے گئے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد ان کے مرنے کی خبر آ گئی – خواتین وحضرات اس بار ہم نے دیر کر دی تھی۔
بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)