کراچی کا ماضی

امر جلیل

آج میں آپ کو ڈیڑھ سو برس پیچھے لے جانا چاہتا ہوں۔ آپ کو ماضی کی سیر کرانا چاہتا ہوں۔ آپ کو ویزا کی یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گزرا ہوا کل دیکھنے کے لیے آپ کو کسی قسم کا ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیتے ہوئے ادوار کی طرف ہوائی جہاز، ریل گاڑی اور بسیں نہیں جاتیں، میں آپ سے دنیا دکھانے کا وعدہ نہیں کرتا۔ ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کا بھیانک آنکھوں دیکھا حال میں آپ کو سنا نہیں سکتا۔ ہندوستان کے ایک جزیرے انڈومان پر انگریزوں نے روح فنا کر دینے جیسی جیل بنائی تھی۔ سمندر میں گھرے ہوئے انڈومان جیل میں سیاسی قیدیوں کو پابندِ سلاسل کیا جاتا تھا۔ انڈومان جیل میں آپ کو نہیں دکھاؤں گا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں دکھاؤں گا کہ شہنشاہِ ہند اورنگزیب نے کس بیدردی سے اپنے تین بڑے بھائیوں کو قتل کروا دیا تھا۔ ماضی کی جھلک دکھاتے ہوئے میں اس بات پر بحث نہیں کروں گا کہ ہندو اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے انگریز نے ریلوے پلیٹ فارم اور ریل گاڑیوں میں ہندو پانی اور مسلمان پانی، ہندو کھانے اور مسلمان کھانے کا رواج ڈالا تھا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں بتاؤں گا کہ تب کراچی سے کلکتہ جانے کے لیے آپ کو ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ آپ کو صرف ریل گاڑی کا ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا۔

معاملہ کچھ یوں تھا کہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے ہندوستان میں رہنے والے ہم سب لوگ پیدائشی طور پر ہندوستانی ہوتے تھے۔ کراچی، لاہور اور پشاور میں پیدا ہونے والے بھی پیدائشی ہندوستانی Born indian ہوتے تھے۔ مدراس سے بمبئی آنے جانے پر روک ٹوک نہیں ہوتی تھی۔ ایسا ہوتا تھا ہمارے دور کا برصغیر، کڑھنے یا میری نسل کو برا بھلا کہنے سے زمینی حقائق بدل نہیں سکتے۔ اگست 1947ء سے پہلے ہندوستان کا بٹوارا نہیں ہوا تھا۔ اگست 1947ء سے پہلے پاکستان عالم وجود میں نہیں آیا تھا۔ لہٰذا اگست 1947ء سے پہلے ہم سب نے ہندوستان میں جنم لیا تھا۔ تب کراچی، لاہور اور پشاور برٹش انڈیا کا حصہ تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے، گھڑی ہوئی کہانی نہیں ہے۔

ہندوستان کی تاریخ میں ہمارا اہم اور بہت بڑا حصہ ہے۔ میں نے سیانوں سے سنا ہے کہ اپنے تاریخی اور ثقافتی حصہ سے دستبردار ہونا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہوتا۔ اس لمبی چوڑی اور نامعقول تمہید کا مطلب اور مقصد بھی یہی ہے جو ابھی ابھی میں نے آپ کے گوش گزار کیا ہے۔

میں آپ کو سیر کروانے کے لیے لے جارہا ہوں مچھیروں کی چھوٹی سی بستی کی طرف۔۔ یہ بستی نامعلوم صدیوں سے بحرِ عرب کے کنارے آباد ہے۔ اب یہ چھوٹی سی بستی ایک بہت بڑے تجارتی شہر میں بدل چکی ہے۔ یوں بھی نہیں ہے کہ ڈیڑھ سو برس پہلے مچھیروں کی چھوٹی سی بستی گمنام تھی۔ تب ٹھٹہ مع اپنے اطراف کے مشہور تجارتی شہر ہوا کرتا تھا۔ بیوپاری اپنا سامان ملک سے باہر بھیجتے تھے اور بیرونی ممالک سے برآمد کیا ہوا سامان اپنے ملک سندھ میں بیچا کرتے تھے۔ تاریخ کے بد خواہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ سندھ انگریز کے آنے سے پہلے خودمختار ملک تھا۔ سندھ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ اٹھارہ سو تینتالیس میں سر چارلس نیپئر نے فتح کرنے کے بعد سندھ کو ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دیکھنے کے لیے بمبئی یعنی ممبئی صوبے سے ملا دیا تھا۔ اس طرح انیس سو تینتالیس میں سندھ ہندوستان کا حصہ بنا۔

یہاں مجھے ایک تاریخی بات یاد آرہی ہے بلکہ دو باتیں یاد آ رہی ہیں۔ 1947ء میں تقسیمِ ہند کے موقع پر کسی مسلمان سیاستدان نے انگریز سے سوال نہیں اٹھایا کہ انگریز کی فتح سے پہلے سندھ ایک الگ تھلگ خودمختار ملک تھا۔ تقسیمِ ہند سے پہلے سندھ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ کسی بھی موقع پر کسی سیاستدان نے یہ سوال انگریز سے نہیں پوچھا تھا کہ آپ لوگوں نے سندھ ایک آزاد ملک کے طور پر جنگ میں جیتا تھا، ہندوستان کے ایک حصے یا صوبہ کے طور پر نہیں۔ اب آپ سندھ کا بٹوارا ہندوستان کے ایک صوبہ کے طور پر کیوں کر رہے ہیں؟ آپ سندھ کو ایک آزاد ملک کی طرح آزاد کیوں نہیں کرتے؟

اسی نوعیت کی دوسری بات بھی ہمارے سیاستدانوں نے انگریز سے نہیں پوچھی تھی۔

انگریز نے مکمل طور پر جب ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا، تب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یہاں سے کُوچ کرتے ہوئے آپ نے ہندوستان کے ٹکڑے کیوں کر دیے؟ انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا، نیپال وغیرہ کی طرح ایک ملک کے طور پر ہندوستان کو آزاد کیوں نہیں کیا؟ اور سب سے اہم بات کہ آپ نے ہندوستان مسلمان حکمراں سے جیتا تھا، ہندوؤں سے نہیں۔ جاتے ہوئے آپ نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کے حوالے کیوں نہیں کی تھی؟ ڈیڑھ سو برس بعد ایسے سوال فضول محسوس ہوتے ہیں۔

انگریز میں بے شمار اچھائیاں تھیں، بے شمار برائیاں تھیں۔ انہوں نے بھرپور طریقے سے ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ کراچی کو ننھا منا لندن بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ جنہوں نے 1947ء کے لگ بھگ لندن دیکھا تھا، وہ کراچی کو چھوٹا سا لندن کہتے تھے اور پھر کراچی جب ہمارے ہتھے چڑھا، ہم نے انگریز کی نمایاں نشانیاں غائب کرنا شروع کر دیں۔ دنیا بھر کے مشہور شہروں میں آج بھی ٹرام رواں دواں ہے۔ ہم نے ٹرام کی پٹریاں اکھاڑ دیں۔ ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسوں کا رواج ختم کر دیا۔ مشرقی اور مغربی امتزاج کی ملی جلی عمارتوں میں ایک عمارت کا نام تھا پیلس ہوٹل، یہ انتہائی خوب صورت عمارت تھی، ہم نے گرا دی۔ ایسی کئی عمارتیں ایلفنسٹن اسٹریٹ اور وکٹوریا روڈ صدر پر شاندار انداز میں موجود ہوتی تھیں۔ ہم نے ان عالی شان عمارتوں کا ستیاناس کر دیا۔ جانوروں کے لیے شہر میں جابجا پانی کے حوض ہوا کرتے تھے، ہم نے اکھاڑ دیے۔ کراچی سے ہم نے اس کا ماضی چھین لیا ہے۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close