سکھوں کی خالصتان تحریک کا پسِ منظر اور تاریخ۔۔ ایک مختصر جائزہ

ویب ڈیسک

بھارتی حکومت نے گزشتہ کچھ عرصے میں خالصتان تحریک سے وابستہ بعض رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے جبکہ چند ایک قاتلانہ حملوں میں مارے بھی گئے۔ اسی تحریک کی وجہ سے بھارت کی بعض ممالک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی ہے۔

کینیڈا میں ایک علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد اوٹاوا اور نئی دہلی کی جانب سے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کی ملک بدری کے باعث کینیڈا اور بھارت کے درمیان کشیدگی نئی بلندیوں پر پہنچ گئی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان یہ کشیدگی سکھوں کی اپنے لیے ایک آزاد وطن یا خالصتان کی تحریک کی وجہ سے پائی جاتی ہے۔ بھارت نے بارہا کینیڈا پر اس تحریک کی حمایت کا الزام لگایا ہے، جس پر بھارت میں پابندی عائد ہے۔

پیر کو کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں ان الزامات کو قابل اعتبار قرار دیا تھا جن کے مطابق جون میں ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کا ہاتھ تھا۔ بھارتی حکومت نے نجر کے قتل میں کسی قسم کا ہاتھ ہونے کی تردید کی جبکہ یہ بھی کہا کہ کینیڈا خالصتان تحریک کی سرگرمیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔

خالصتان کی تحریک کیا ہے؟

سکھ مت برِصغیر کا ایک اقلیتی مذہب ہے، جس پر ہندو مت اور اسلام دونوں کے اثرات ہیں۔ اس مذہب کی ابتدا پندرھویں صدی عیسوی میں شمالی ہندوستان سے ہوئی۔ بھارت کی تقریباً ایک ارب چالیس کروڑ آبادی میں سکھوں کی تعداد لگ بھگ دو فی صد ہے اور ان کی تقریباً 60 فی صد آبادی بھارتی ریاست پنجاب میں آباد ہے

پنجاب سکھ مت کا مرکز ہے۔ 1699 میں سکھوں کے گرو گوبند سنگھ نے سکھوں کی اپنے مذہب سے وابستگی کے لیے کچھ اصول وضع کیے اور ان اصولوں کی سختی سے پابندی کرنے والوں کو ’خالصہ‘ قرار دیا۔ گرو گوبند سنگھ نے ہی پنجاب پر سکھوں کی حکمرانی کے مذہبی حق کا تصور بھی دیا۔ اس کے بعد سے سکھوں نے پنجاب اور اس سے ملحقہ خطوں میں اپنی ریاست کے قیام کے لیے مہمات کا آغاز کیا۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا کے مطابق 1710 میں گرو گوبند سنگھ کے پیروکاروں میں شامل بندہ سنگھ بہادر نے مغل حکومت کو دہلی کے نواحی علاقوں اور لاہور سے پسپا کر کے اپنی الگ ریاست قائم کی

بندہ سنگھ بہادر نے اپنے زیرِ تسلط علاقوں کے لیے الگ سِکّے اور فرمان جاری کیے، جن میں خدا اور گرو کے احکامات نافذ کرنے کا اعلان تھا۔ اسی دور میں سکھ مت کے نعروں اور دعاؤں میں ’راج کرو گا خالصہ‘ کا اضافہ ہوا

بندہ سنگھ بہادر کی حکومت زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکی۔ تاہم 1780 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی لاہور میں قائم کی گئی حکومت سے ہندوستان میں سکھوں کے عروج کا آغاز ہوا۔ یہ ریاست 1849 تک قائم رہی اور اس کے خاتمے کے بعد سکھ کسی خطے میں ’خالصہ راج‘ قائم نہیں کر سکے

سکھوں نے 1920 میں ’شرومنی اکالی دَل‘ کے نام سے سیاسی جماعت بنائی، جسے سکھ رہنما ماسٹر تارا سنگھ کی رہنمائی میں تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی۔ اکالی دل ہندوستان میں سکھوں کی نمائندہ پارٹی تھی اور اس نے 1947 میں پنجاب صوبہ تحریک بھی چلائی۔ یہ تحریک پنجاب میں ’خالصتان‘ کے نام سے سکھوں کے لیے علیحدہ وطن بنانے کا مطالبہ بھی کرتی تھی

لیکن جس خطے کو وہ اپنا الگ ملک بنانے کے خواہش مند تھے، وہاں عددی اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اکالی دل کم سے کم پنجاب کو متحد رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن برطانوی حکومت کے پیش کیے گئے تقسیم کے منصوبے کے تحت ایسا ممکن نہیں ہو سکا، جس کے بعد تارا سنگھ نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی اور کانگریس سے اتحاد کر لیا

سن 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت خوں ریز فسادات ہوئے۔ پاکستان اور بھارت کی نو قائم شدہ ریاستوں کی جانب نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی ایک بڑی تعداد ان فسادات میں ماری گئی، جن کی تعداد کم و بیش دس لاکھ بتائی جاتی ہے

دو ممالک کے قیام کے وقت پنجاب بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور سب سے زیادہ فسادات بھی اسی خطے میں ہوئے۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کی جائے پیدائش اور دیگر کئی مقدس مقامات پاکستانی پنجاب میں شامل ہو گئے

بھارت کے قیام کے بعد اکالی دل نے ایک بار پھر مذہبی بنیادوں پر سکھوں کے لیے الگ صوبے کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔ 1961 میں ماسٹر تارا سنگھ نے اپنے مطالبے کے حق میں بھوک ہڑتال بھی کی لیکن بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے یہ کہہ کر یہ مطالبہ رد کردیا کہ مذہبی بنیاد پر صوبے کا قیام بھارت کے سیکیولر آئین کے خلاف ہوگا اور ایسا کرنا پنجاب کے ہندوؤں سے بھی نا انصافی ہوگی

اس کے بعد 1966 میں بھارت نے پنجاب صوبے کو ہریانا اور پنجاب کی دو الگ ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ اسی طرح پنجاب کے بعض حصے ہماچل پردیش میں شامل کر دیے گئے۔ پنجاب کی اس تقسیم کے بعد سکھوں میں علیحدہ وطن خالصتان کی تحریک نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کیا

بھارت میں سکھوں کی آزادی کی تحریک بالآخر ایک ایسی خونی مسلح بغاوت بن گئی، جس نے 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں بھارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس بغاوت کا گڑھ ملک کی سکھ اکثریتی شمالی ریاست پنجاب میں تھا۔ سکھ بھارت کی آبادی کا تقریباً 1.7 فیصد ہیں

سکھوں کی یہ مزاحمت ایک دہائی سے زیادہ جاری رہی اور اسے انڈیا نے تمام تر ریاستی طاقت استعمال کرتے ہوئے کریک ڈاؤن کے ذریعے دبانے کی کوشش کی، جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے، جن میں بہت سے ممتاز سکھ رہنما بھی شامل تھے۔ پولیس کی کارروائیوں کے دوران سینکڑوں سکھ نوجوان بھی جانوں سے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق سکھوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر کے جیلوں میں بھی ڈالا گیا

تاہم بھارتی حکومت اور سکھوں کے درمیان کشیدگی کا عروج اس وقت دیکھنے میں آیا، جب 1984ء میں بھارتی فوج نے امرتسر میں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر دھاوا بول دیا تاکہ وہاں پناہ لینے والے علیحدگی پسندوں کو نکال باہر کیا جا سکے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس آپریشن میں تقریباً چار سو افراد مارے گئے لیکن سکھ گروپوں کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں ہزاروں لوگوں کی جانیں لی گئیں

ہلاک ہونے والوں میں سکھ عسکریت پسند رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی شامل تھے، جن پر بھارتی حکومت نے مسلح بغاوت کی قیادت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر دھاوا بولنے کی کاروائی کو’آپریشن بلیو اسٹار‘ کا نام دیا گیا، جس کی اجازت اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دی تھی۔ اس وجہ سے 31 اکتوبر 1984ء کو اندرا گاندھی کو ان کی حفاظت پر معمور ان کے دو سکھ محافظوں نے قتل کر دیا تھا

ان کی موت کے بعد انڈیا میں سکھ مخالف فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں ہندو بلوائیوں نے پورے شمالی بھارت خاص طور پر نئی دہلی میں گھر گھر جا کر سکھوں پر حملے کیے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو مار ڈالا اور بہت سوں کو زندہ جلا دیا

کیا تحریک اب بھی متحرک ہے؟

آج بھارتی پنجاب میں کوئی فعال شورش تو نہیں ہے لیکن خالصتان تحریک کو اب بھی اس ریاست میں سکھوں کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم سکھوں کے بڑے گروہوں کی حمایت حاصل ہے۔ بھارتی حکومت نے گزشتہ برسوں میں بارہا خبردار کیا ہے کہ سکھ علیحدگی پسند دوبارہ فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے بھی سکھ علیحدگی پسندوں کا تعاقب تیز کر دیا ہے اور اس تحریک سے منسلک مختلف تنظیموں کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جب بھارت میں کسانوں نے 2020 میں متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے نئی دہلی کے نزدیک ڈیرے ڈالے تو مودی حکومت نے ابتدا میں اس میں شامل سکھ شرکاء کو ’خالصتانی‘ کہہ کر ’بدنام‘ کرنے کی کوشش کی تھی

بعد ازاں دباؤ میں آ کر مودی حکومت نے ان کسان مخالف قوانین کو واپس لے لیا تھا۔ اس سال کے شروع میں بھارتی پولیس نے امرت پال سنگھ نامی ایک علیحدگی پسند رہنما کو گرفتار کیا تھا، جن پر خالصتان کی تحریک کو دوبارہ فعال کرنے اور پنجاب میں تشدد کے خدشات بھڑکانے کے الزامات لگائے گئے تھے

واضح رہے کہ تیس سالہ امرت پال سنگھ نے اپنے جوشِ خطابت کے ذریعے قومی توجہ حاصل کر لی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سے متاثر ہیں

بھارت سے باہر تحریک کتنی مضبوط ہے؟

بھارت مسلسل کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ جیسے ممالک سے سکھ کارکنوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے ذاتی طور پر ان ممالک کے وزرائے اعظم کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھایا ہے۔ بھارت نے خاص طور پر کینیڈا کے ساتھ ان خدشات کو اٹھایا ہے، جہاں سکھ ملک کی آبادی کا تقریباً دو فیصد ہیں

اس سال کے آغاز میں سکھ مظاہرین نے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن پر سے بھارتی پرچم اتارتے ہوئے امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے خلاف غصے کے اظہار کے طور پر سفارت خانے کی عمارت میں توڑ پھوڑ بھی کی تھی

بھارتی وزارت خارجہ نے ان واقعات کی مذمت کی اور نئی دہلی میں برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کر کے احتجاج کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سکھ مظاہرین نے سان فرانسسکو میں بھی بھارتی قونصل خانے کی کھڑکیاں توڑیں اور ان کی سفارت خانے کے عملے کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں

بھارتی حکومت نے کینیڈا میں خالصتان کے حامیوں پر مارچ میں ایک احتجاج کے دوران ’بھارت مخالف‘ گریفٹی کے ساتھ ہندو مندروں میں توڑ پھوڑ اور اوٹاوا میں بھارتی ہائی کمیشن کے دفاتر پر حملہ کرنے کا بھی الزام لگایا۔ گزشتہ سال ایک سکھ عسکریت پسند رہنما اور خالصتان کمانڈو فورس کے سربراہ پرمجیت سنگھ پنجوار کو پاکستان کے شہر لاہور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close