سندھو اپنی بات جاری رکھتا ہے ”اگر میں یہ کہوں کہ اجرک اور سندھی ٹوپی سندھی ثقافت کی پہچان ہیں تو ہر گز غلط نہ ہوگا۔ اجرک مختلف رنگوں کی بلاک پرنٹنگ شال کا ایک ایسا امتزاج ہے جو سندھی ثقافت کا نمایاں جزو ہے۔ دراصل یہ ساڑھے چار ہزار سال پرانے بلاک پرنٹنگ کی جدید قسم ہے۔ خاص قسم کے شوخ رنگ اور ڈزائن ان شالوں کو بہت ہی جاذب نظر بناتے ہیں۔ ہر سندھی کے کندھے پر لٹکتی اجرک اس کی شخصیت کا حصہ ہے۔ سندھی خاص طور پر دیہات کے رہنے والے اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ اجرک قدیم آریائی ثقافت کا حصہ رہی ہے۔ ہر سندھی سر پر بطور پگڑی یا کندھے پر بطور رومال اسے رکھتا رہا ہے اور آج بھی اس کے لباس کا لازمی جزو ہے۔ دور جدید میں اجرک کے مخصوص ڈزائن میں اب بیڈ شیٹ اور خواتین کے دوپٹے بھی دستیاب ہیں۔سندھی ثقافت میں اجرک اگر مہمانوں کو بطور تحفہ د ی جائے تو یہ ان کی قدر و منزلت سمجھی جاتی ہے۔اجرک فارسی لفظ ”ازرک“ سے ماخذ ہے، جس کا مطلب ہے’ نیلا‘۔ یاد رہے اجرک میں نیلا اور سرخ رنگ نمایاں ہوتا ہے۔
”سندھی ٹوپی بھی قدیم سندھی ثقافت کا اہم جزو ہے۔ ہر سندھی مرد کے سر کی زینت۔ اجرک اور سندھی ٹوپی لازم و ملزوم ہیں۔ یہ سرائیکی لوگ بھی پہنتے ہیں خاص طور پر وہ سرائیکی جو سندھ کی سرحد کے قریب آباد ہیں۔ سندھی ٹوپی کی خاص بات کٹ شیشوں کا شانداراستعمال ہے جو اسے دیدہ زیب بنا تا ہے۔
”میری وجہ سے برصغیر میں زراعت اور آب پاشی کا آغاز انسانی سوچ سے بھی پہلے کا ہے لیکن جدید آب پاشی کی بنیاد 1855ء میں فرنگی کے دور حکومت میں رکھی گئی تھی۔ انگریز نے اس دھرتی پر بڑا نہری نظام قائم کیا۔ نئی نہروں کے ساتھ ساتھ پرانی اور ویران نہروں کو بھی بحال کیا گیا۔ یوں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام تشکیل پایا۔تقسیم ہند نے اس نظام کو ”باری دوآب“ اور ”ستلج دو آب“ میں تقسیم کر دیا ہے۔ بہت سے ہیڈ ورکس ہندوستان میں رہ گئے اور نہریں پاکستان کے حصے میں آئیں یوں دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا تنازعہ کھڑا ہوا۔ یہ مسئلہ کچھ عرصہ چلتا رہا اوراس سے پہلے یہ سنگین نوعیت اختیار کرتا ”وولڈ بنک“ کی وساطت سے دونوں ممالک کے درمیان ”انڈس واٹر ٹریٹی“ یا”سندھ طاس معاہدہ“ پر 1960ء میں دستخط ہوئے۔ اس معاہدے سے 3 مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے اور 3 مشرقی دریا روای، ستلج اور بیاس ہندوستان کے حصے میں آئے۔ ہندوستان نے ان 3 مشرقی دریاؤں سے بہت سی نہریں نکالیں، بیراج بنائے تاکہ مشرقی پنجاب اور قریبی صوبوں کو آب پاشی کے لئے پانی مہیا کیا جا سکے۔ اس انتظام سے راجستھان کی 15 لاکھ ایکٹر صحرائی زمین قابل کاشت بنائی گئی۔ دوسری طرف پاکستان میں ”واپڈا“ wapda کا ادراہ قائم کیا گیا جس نے آب پاشی کے لئے نہریں کھودیں اور بجلی پیدا کرنے کے لئے مختلف ڈیمز بنائے۔ ان ڈیمز سے نکالی گئی نہروں سے جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع کو آب پاشی کے لئے پانی مہیا کیا گیا ہے۔سندھ طاس سمجھوتہ کے بعد پاکستان میں دریائے جہلم پر ”منگلا ڈیم“ آٹھ(8) کمپنیوں کے کنشورشیم جو ”منگلا ڈیم کنٹریکٹرز“ کہلاتا تھا نے1965ء میں تعمیر مکمل کی۔ اس ڈیم کی جھیل چالیس (40) مربع میل پر پھیلی ہے اور یہاں سے پندہ سو(1500) میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ دنیا کا ساتواں بڑا ڈیم ہے۔ مجھ پر دنیا کا سب سے بڑا مٹی کا ”تربیلاڈیم“ 1976ء میں مکمل ہوا۔ پچاس(50) مربع میل پر پھیلی اس کی جھیل ہزارہ اور صوابی کے اضلاع میں واقع ہے۔ یہاں تقریباً پانچ ہزار(5000) میگا واٹ بجلی پیدا کر نے کی گنجائش ہے۔ ان دنوں ڈیمز سے صوبوں کو آب پاشی کے لئے پانی بھی مہیا کیا گیا ہے۔ مزید ڈاؤن اسٹریم’”غازی بروتھا“ کے مقام پر ”غازی بروتھاڈیم“ 2004ء میں تعمیر کیا گیا جس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت چودہ سو پچاس(1450) میگا واٹ ہے۔
”مجھ پر تعمیر کردہ بیراج اور ڈیمز پاکستان میں زراعت کو زندگی مہیا کرتے ہیں اور کافی حد تک میرے سیلابوں کو کنٹرول بھی کرتے ہیں۔ کالاباغ کے مقام پر ”جناح بیراج“ نہروں کے نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے تحت نکالی گئی نہریں تھل پراجیکٹ کہلاتی ہیں۔ 1949ء میں مکمل ہونے والا یہ بیراج کالا باغ اور اس کے نواحی علاقوں کو قابل کاشت بنانے میں بڑا معاون رہا ہے۔ مزید ڈاؤن اسٹریم تونسہ بیراج ڈی جی خان اور مظفر گڑھ کی زمینوں کو پانی مہیا کرکے ہریالی بخشتا ہے۔ تونسہ پر ایک لاکھ (100000)کلو واٹ بجلی بھی پیدا کی جاتی ہے۔ سندھ میں 3 بڑے بیراج ”گدو، سکھر اور کوٹری (غلام محمد)“ سندھ کی زمینوں کو ہریالی بخشتے ہیں۔ گدو سے کشمور، جیکب آباد، لاڑکانہ اور قلات (بلوچستان) کی زمینوں کو پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ سکھر بیراج سے سکھر،نواب شاہ، ٹھٹہ کی 5 لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین سیراب ہوتی ہے جبکہ کوٹری بیراج سے ہونے والی آب پاشی نے گندم، چاول اور گنے کی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ نہری نظام کو اگر عقل مندی اور بہتر انداز میں استعمال نہ کیا جائے تو سیم زمین کو بے کار کر دیتی ہے۔ پانی بخارات بن کر پیچھے ”نمکین زمین“ چھوڑ جاتا ہے جسے تھور کہتے ہیں۔ یوں سیم اور تھور جنم لیتے ہیں۔ بہتر حکمت عملی سے ان دونوں مسائل پر قابو پایا جا چکا ہے۔
”تمھیں یہ بتانا تو بھول ہی گیا ہوں میں۔“ داستان گو سندھو بولتا جا رہا ہے؛ ”1880ء تک مجھ میں اور پنجند کے باقی دریاؤں میں محدود پیمانے پر جہاز رانی ہوتی رہی ہے۔ ریل کے آنے اور نہری نظام میں بڑے پیمانے پر توسیع نے جہاز رانی کو تقریباً ختم ہی کر دیا ہے۔ آج بھی تھوڑی تعداد میں چھوٹے جہاز اور کشتیاں میرے پانیوں پر تیرتی نظر آتی ہیں لیکن یہ کوئی لمبا سفر نہیں کرتے ہیں۔ البتہ میرے پانیوں پر آج بھی جنگلات کی قیمتی لکڑی خاص طور پر سکردو اور گلگت کے علاقے سے بہا کر میرے کنارے قائم مختلف لکڑ منڈیوں میں لائی جاتی ہے۔ پہاڑی سفر میں میری گزرگاہ کے ساتھ ساتھ لکڑی کی بڑی منڈیاں بھی ہیں۔“
”سنو دوست! یہ بھی سنتے جاؤ۔ سندھی پردیسیوں، مسافروں اور غریب الوطنوں کے ساتھ کس درجہ اپنائیت محبت، خلوص اور ہمدردی کا برتاؤ کرتے ہیں، تم جان ہی چکے ہو۔ یہ بلا کے مہمان نواز اور بہت پیار کرنے والے ہیں اور میری طرح دریا دل بھی۔۔ میٹھی زبان بولنے اور میٹھی باتیں کرنے والے۔ اجرک اور سندھی ٹوپی ان کی پہچان اور یہ اپنی ثقافت سے جڑے لوگ ہیں۔ گو یہاں غربت ہے، تعلیم کی کمی ہے، وڈیروں کی حکومت ہے لیکن ان سندھیوں کو اللہ نے بڑا دل دیا ہے، مہمان کو رحمت سمجھتے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ مہمان جب گھر آتا ہے تو رحمت ساتھ آتی ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو بلائیں اور دکھ ساتھ لے جاتا ہے۔۔
”ہاں یاد آیا۔۔ کچھ عرصہ قبل مجھ پر ’سندھو جیجل ماتا‘ گیت لکھا ہی نہیں گیا بلکہ گایا اور ناچا بھی گیا ہے جو جدید دور میں آج کی نسل کا مجھے سلام ہے۔ ”بچوں کا ماں کو سلام۔“ سندھی زبان میں ’جیجل‘ سے مراد ”ماں“ ہے اور سنسکرت میں ’ماتا‘ کا مطلب بھی ماں ہی ہے۔ ”سندھو ماں، ماتا۔“ میں دیوتا ہوں۔ مجھ میں بے پناہ طاقت ہے اور میں اپنی طاقت زرخیزی اور بربادی دونوں ہی صورتوں میں بکھیرتا بڑی شان سے بحیرہ عرب میں اترتا ہوں۔ میں گلئشیرز اور برفانی دنیا سے اپنے سفر کا آغاز کرتا منہ زور ہوتا اپنے ڈیلٹا پر کمزور بوڑھے کی مانند پہنچتا ہوں لیکن اپنی شان قائم رکھتا ہوں۔کل بھی لوگ میرے گیت گاتے تھے، آج بھی گاتے ہیں اور آنے والے کل بھی گاتے رہیں گے۔“یہ کہہ کر میرا دوست میرا داستان گو خاموش ہو گیا ہے۔ مکمل خاموش۔۔۔ اب شاید میں بھی اس کی آواز دوبارہ نہ سن سکوں گا۔
اس داستان کا اصل داستان گو یعنی سندھو خاموش ہوا تو جیسے میرے ارد گرد تا حد نگاہ سکوت طاری ہو گیا ہے۔ مجھے سندھو کے بہتے پانی کی خاموشی سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ میری نظروں کے سامنے یہ سینکڑوں نالیوں کی شکل قطرہ قطرہ بہتا سمندر میں ہیول ہو رہا ہے۔ عظیم سندھو کا یوں سست روی اور گھٹ گھٹ کر بے قراری سے بحیرہ عرب میں اترنا تکلیف دہ منظر ہے۔ وہ جنہوں نے اسے اٹھارہ ہزار (18000) فٹ کی بلندی پر جنم لیتا دیکھا ہے، وہ جنہوں نے اسے ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش کے فلک بوس پہاڑی سلسلوں سے چنگھاڑتے ٹکراتے گزرتے دیکھا ہے اور وہ جنہوں نے اسے پنجاب سندھ کے میدانوں میں حد نگاہ تک پھیلے اور سیلابی کیفیت میں بہتے دیکھا ہے، ان کے لئے اسے یوں سسک سسک کر بحیرہ عرب میں اترتے دیکھنا یقیناً تکلیف کا باعث ہے۔ میرا تو پھر یہ دوست ہے۔ میں نے اسے جنم سے لڑکپن سے جوانی تک بڑی آن اور شان سے بہتا دیکھا ہے۔ اس کے بڑھاپے کو دیکھ کر آنسوؤں کا نکلنا کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے۔ جب میں نے اسے اٹھارہ ہزار (18000) فٹ کی بلندی سے بہتے دیکھا تھا تو میری آنکھوں میں خوشی سے آنسو اتر آئے تھے۔ دنیا کا یہ عظیم دریا سندھو جو ہر سال اپنے دامن میں دریائے نیل سے دوگنا پانی لاتا ہے، مقامِ استحصال پر اسے رینگتا دیکھ کر برداشت نہیں کر سکا ہوں۔ اس بار بھی میری آنکھوں میں آنسو اتر آئے ہیں۔ دکھ کے آنسو۔۔۔
اللہ قرآن میں فرماتا ہے؛
”اسی (اللہ) نے دریا رواں کئے ہیں جو آپس میں ملتے ہیں۔ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے کہ آپس میں تجاوز نہیں کر سکتے۔ دریاؤں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔ تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔“ (سورہ الرحمان)۔
طویل عرصہ سے جاری عظیم داستان گو”سندھو سپت“ کی داستان در داستان سے میری سماعت اس قدر مانوس ہو چکی تھی کہ اس کی اچانک خاموشی نے میرے چاروں طرف گہرے سناٹے بکھیر دئیے ہیں۔ خاموشی سے میرا دم گھٹنے لگا ہے۔ ایسا ہوتا ہے، ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ جن کی باتیں زندگی کی گھاتیں آپ نہایت توجہ کے ساتھ سن رہے ہوں اور وہ یکلخت چپ کی چادر اوڑھ لیں تو سانسوں میں گھٹن اتر آتی ہے۔ دل میں چبھن ترازو ہو جاتی ہے مگر کیا کیجیے کہ زندگی کا چلن ہی ایسا ہے۔ مجھے سندھو کی خاموشی ستانے لگی ہے اور ستاتی رہے گی۔۔۔
میں نے جو دیکھا اُس سرگزشت کو سچائی سے لکھ دیا ہے۔ ہر گز مطلب کسی کی دل آزار ی کا نہیں۔ بعض روایتیں جو میں نے سنی ہیں مگر ان میں کچھ خلاف ہو تو ناظرین اُن کو اس خاکسار کی جانب منسوب نہ کریں اور مواخذہ سے معاف فرمائیں کہ کچھ باتیں انسانی بس میں نہیں ہوتی ہیں۔ اللہ ہم سب سے راضی ہو۔ آمین۔
یہاں یہ داستان اختتام پذیر ہوتی ہے۔ (اختتام)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔