بلوچستان میں نرسوں کو جسم فروشی کے لیے دباؤ کا سامنا، حکام کے نام خط

ویب ڈیسک

صوبہ بلوچستان کے بعض سرکاری ہسپتالوں میں خواتین نرسوں کو جسم فروشی پر مجبور کیے جانے کے واقعات کا انکشاف ہوا ہے۔ اس سلسلے میں متاثرہ نرسوں نے انصاف کے لیے اعلیٰ حکام کے نام خط بھی لکھا ہے

متاثرہ خواتین نرسوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ بعض اہلکار ان سے زبردستی جسم فروشی کرانا چاہتے ہیں، جس سے ان کی عزتیں داؤ پر لگ چکی ہیں۔ حکام کے نام اپنے ایک خط میں ان نرسوں نے ہسپتالوں میں خواتین کے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے متعلق کئی امور پر سے پردہ بھی اٹھایا ہے

بلوچستان میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا یہ تیسرا بڑا اسکینڈل ہے، جو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں منظرِعام پر آیا ہے۔ قبل ازیں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں طالبات کو خفیہ کیمروں سے بنائی گئی وڈیوز کے ذریعے ہراساں کرنے کا ایک اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ اس اسکینڈل میں بھی کئی اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا، جن کے خلاف بعد میں بلوچستان ہائی کورٹ کی ہدایت پر کارروائی کی گئی تھی

صوبائی محکمہ صحت کے ایک سینئر اہلکار جاوید بلوچ کے مطابق متاثرہ نرسوں کے شکایات پر مبنی خط کی بنیاد پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور ان کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے

جاوید بلوچ نے کہا ”اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن یہ تصدیق کی جا سکتی ہے کہ متاثرہ نرسوں نے جو شکایات کی ہیں، ان پر بھرپور کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ انصاف کے جملہ تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ ان نرسوں کے عائد کردہ الزامات کی روشنی میں چھان بین کے لیے ایڈیشنل سیکرٹری صحت عتیق خان کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بھی بنائی جا چکی ہے، جو تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ صوبائی حکومت کو پیش کرے گی۔ کوئی بھی مزید کارروائی اس کے بعد ہی کی جائے گی‘‘

جاوید بلوچ کا کہنا تھا ”انکوائری کمیٹی نے مختلف خواتین نرسوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے ہیں۔ یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے۔ جو الزامات لگائے گئے ہیں، ان میں کہاں تک صداقت ہے؟ یہ صورتحال تو چھان بین مکمل ہونے کے بعد ہی واضح ہو سکتی ہے۔ اب تک اس انکوائری کمیٹی کے سامنے وہ نرس پیش نہیں ہوئی، جس نے اس مبینہ اسکینڈل سے سب سے پہلے پردہ اٹھایا تھا۔ انکوائری کمیٹی کے ارکان نے گزشتہ روز ایک بڑے سرکاری ہسپتال کا دورہ بھی کیا۔ اس چھان بین کے دوران ہر پہلو کا جائزہ لیا جا رہا ہے‘‘

ذرائع کے مطابق خواتین نرسز کو اسپتالوں میں مبینہ جسم فروشی کے لیے مجبور کرنے کے کیس میں متعلقہ انتظامی افسران کے بیانات بھی ریکارڈ کئے جائیں گے۔ جس ہسپتال میں تعینات ایک نرس نے متاثرہ خواتین کے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا انکشاف کیا، وہاں کی ہیڈ نرس کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے

اگرچہ بلوچستان حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی بھی کی ہے تاہم ابھی تک متعلقہ قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن حمیدہ نور کہتی ہیں کہ حکومتی سطح پر ملازمت پیشہ خواتین کو روزگار کی جگہوں پر تحفظ دینے میں غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے

حمیدہ نور کا کہنا ہے ”بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں خواتین کو ملازمت کے حوالے سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ نجی اور سرکاری دفاتر میں ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خواتین کے خلاف منفی رویوں میں ملوث اہلکار اثر و رسوخ کی وجہ سے سزاؤں سے اکثر بچ جاتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواتین کے خلاف اقدامات میں ملوث عناصر کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے‘‘

حمیدہ نور کا مزید کہنا تھا ”خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے عناصر خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ جب تک قانون پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا، صرف حکومتی اعلانات سے کچھ نہیں ہو گا۔ میری رائے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے عناصر کا محاسبہ کیا جائے، جن کی وجہ سے ملازمت پیشہ خواتین مشکلات کا شکار ہیں۔ دوران ملازمت خواتین کو تحفظ دینا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے‘‘

نرسوں کے لیے سروس رولز میں ترمیم

بلوچستان حکومت نے صوبے میں گیارہ نئے نرسنگ کالج قائم کیے ہیں، جہاں نرسوں کو جدید پیشہ ورانہ تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کالجوں سے اپنی تعلیم و تربیت مکمل کرنے والی نرسوں کو اب سرٹیفیکیٹس کے بجائے باقاعدہ ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ صوبائی حکومت نے نرسوں کی تعیناتی کے حوالے سے ضوابط میں بھی کچھ عرصہ قبل ترامیم کی تھیں

کوئٹہ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کے قائم کردہ شکایات سیل میں فرائض انجام دینے والے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ بلوچستان کی مقامی نرسوں کے خلاف ایک منظم منصوبے کے تحت باقاعدہ سازش کی جا رہی ہے

اس اہلکار نے بتایا ”نرسوں کے سروس رولز میں کئی ترامیم کی گئی ہیں۔ اب صوبے میں نرسیں میرٹ کی بنیاد پر کمیشن کا امتحان پاس کر کے اس پیشے کا حصہ بن رہی ہیں۔ ماضی میں نرسوں کی تعیناتی کے حوالے سے معاملات یکسر مختلف تھے۔ ہسپتالوں میں تعینات مقامی پشتون اور بلوچ نرسوں کے خلاف ایک مخصوص لابی اپنے مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے۔ نرسوں کو جسم فروشی پر مجبور کرنے کا عمل بھی بظاہر اسی سازش کا حصہ ہے‘‘

وزیر اعلیٰ کے قائم کردہ شکایات سیل کے اس اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ خواتین نرسوں کو جسم فروشی پر مجبور کرنے میں ملوث عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے

انہوں نے بتایا ”نرسوں کے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے جو الزامات سامنے آئے ہیں، انہیں کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس معاملے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات نتیجہ خیز ہوں گی۔ میرے خیال میں یہ اچھا قدم ہے کہ نرسیں اپنے حقوق کے لیے بول پڑی ہیں۔ ہسپتالوں میں تعینات عملے کے خلاف کام کرنے والے عناصر کا انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا لازمی ہے‘‘

واضح رہے کہ بلوچستان میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئٹہ پولیس نے بھی ایک خصوصی مرکز قائم کر رکھا ہے، جہاں تعینات خواتین پولیس افسران کو متاثرہ خواتین کی شکایات پر فوری کارروائی کے اختیارات حاصل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close