جنداللہ سے جیش العدل تک: ایران کو بلوچوں سے مسئلہ کیا ہے؟

سجاد اظہر

ایران نے منگل کے روز پاکستان میں جیش العدل کے ٹھکانوں پر میزائل اور ڈرون سے حملے کیے ہیں۔ جیش العدل کیا ہے اور ایران کو اس سے کیا مسئلہ ہے؟ پاکستان اور ایران میں جاری بلوچ علیحدگی پسندی کی تحریکیں کیسے دونوں ممالک کے تعلقات میں رخنہ ڈال رہی ہیں؟ دو ہفتے قبل 3 جنوری کو ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر کرمان میں ہونے والے بم دھماکوں میں 103 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ ایران نے 15 اور 16 جنوری کو شام، عراق اور افغانستان میں میزائل اور ڈرون حملے کیے اور کہا کہ یہ حملے داعش کے ٹھکانوں پر کیے گئے ہیں جبکہ پاکستان میں ہونے والے حملوں کے بارے میں ایران نے کہا کہ یہ حملے جیش العدل کے ٹھکانوں پر کیے گئے ہیں۔ پاکستان نے ایرانی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی حملہ سے اس کی سرحدوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے جس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

بلوچستان جو اب پاکستان، ایران اور افغانستان میں منقسم ہے یہ ماضی میں عربوں، یونانیوں، ہندوستانیوں، منگولوں، فارس اور ترک سلطنتوں کا حصہ رہا ہے۔ برطانیہ نے 1872 ء میں جب ہندوستان اس کی سلطنت کا حصہ تھا تب ایران، افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ سرحدوں کا تعین کا تھا۔ اس سے پہلے بلوچستان ایک نیم خودمختار علاقہ تھا۔ 1897ء میں ایک بلوچی سردار حسین خان نے ایران کے قاجار خاندان کے خلاف بغاوت کر دی۔ قاجار خاندان 1789 ء سے 1925 ء تک ایران کا حاکم رہا ہے۔ حسین خان کی بغاوت کے بعد اگلی تین دہائیوں تک بلوچ قبائل خودمختار رہے۔ 1906ء میں ایران میں آئینی بالادستی کے بعد قاجار خاندان کمزور ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں رضا شاہ پہلوی نے 1925ء میں قاجار خاندان کو نکال باہر کیا اور ایران کی باگ ڈور سنبھال لی۔

رضا شاہ پہلوی نے ایران کے صوبوں کی از سر نو سرحدیں متعین کیں، بلوچستان کو کرمان اور ہرمزگان صوبو ں میں تقسیم کر دیا اور بلوچوں کو ایران بھر میں رہنے کی ترغیب دی۔ قاجار سے لے کر پہلوی خاندان اور پھر ایران کے اسلامی انقلاب سے اب تک ایرانی بلوچستان تہران کے لیے ایک مسئلہ بنا رہا ہے۔ کیونکہ ایران کے بلوچ صرف اپنی مسلکی آزادی ہی نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کے بلوچ علاقوں پر مشتمل ایک گریٹر بلوچستان کے آرزو مند ہیں۔

ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران، بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کا الزام امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، پاکستان اور سعودی عرب پر لگاتا رہا ہے۔ ایرانی بلوچستان صحرائی اور خشک چٹیل پہاڑوں کی وجہ سے آبادی کے لیے ساز گار نہیں ہے یہاں پینے کے پانی کی بھی شدید قلت ہے۔ یہاں آبادیاں دور دراز علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ایران یہاں پر ترقیاتی ڈھانچہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے یہ علاقہ باقی ایران کے مقابلے میں بہت زیادہ پسماندہ ہے۔

بلوچ قبائل کو قومیتی شناخت کے علاوہ اپنی مسلکی بقا کا بھی مسئلہ درپیش ہے کیونکہ ایران یہاں کی سنی آبادی کو شیعہ بنانے کے لیے تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران نے کئی سنی مساجد کو بند یا منہدم کیا ہے اور سرکاری سکولوں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے، اس پر بھی سنی العقیدہ بلوچوں کو شدید تحفظات ہیں۔ اسکولوں میں اساتذہ زیادہ تر شیعہ ہیں۔ ذریعہ تعلیم بھی فارسی ہے جبکہ بلوچ اپنی زبان پر فخر کرتے ہیں۔

سماجی اور معاشی پسماندگی کی وجہ سے بھی یہاں بلوچ علیحدگی پسندی کی تحریکوں نے جنم لیا ہے۔ 2003 میں جنداللہ کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس نے اپنے حقوق کے لیے عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ایران میں جنداللہ کے سربراہ عبد المالک ریگی کی 2010 ء میں پھانسی کے بعد سے بلوچ علیحدگی پسند کئی چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، جن میں جیش العدل، انصار الفرقان، حرکت انصار وغیرہ شامل ہیں۔ ایرانی سنی عسکریت پسند گروہ جنداللہ نے 2012 ء میں اپنا نام بدل کر جیش العدل رکھ لیا تھا، جو سب سے خطرناک اور منظم گروہ کے طور پر سامنے آیا۔ یہ گروہ ایران میں فوج، سرکاری حکام اور شیعوں پر حملوں میں ملوث ہے جس کے پاس چھوٹے ہتھیاراور راکٹ تک موجود ہیں۔ یہ ایران میں خود کش حملے بھی کر چکا ہے، جن میں سے صرف 2009ء میں اس گروہ نے مسجد اور ایک مارکیٹ میں دو خود کش حملے کر کے 70 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اگلے سال اس نے چاہ بہار میں ایک مسجد پر خود کش حملہ کر کے 40 افراد کو ہلاک کیا جبکہ 2019 ء میں اس نے ایران کی سرکاری فوج پاسداران انقلاب پر حملہ کر کے 27 فوجی اور 2022 ء میں پولیس اسٹیشنوں، بنکوں اور مارکیٹوں پر ایک بڑے حملے میں 19 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ امریکہ نے 2010 ء سے اس گروہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔

سیستان، جہاں پر یہ گروہ سرگرم ہے، ایران کے 31 صوبوں میں دوسرا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ چاہ بہار جیسی ایران کی اہم بندرگاہ بھی اسی صوبے میں ہے۔ اس کی آبادی محض 28 لاکھ ہے جو ایران کی کل آبادی کا صرف 3 فی صد ہے جس میں سے چھ لاکھ اس کے دارالحکومت زاہدان میں رہتی ہے۔ یہ ایران کا واحد صوبہ ہے جس کی 51 فیصد آبادی دیہی ہے مجموعی طور پر ایران کی 74 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ یہاں اہل فارس اقلیت میں جبکہ بلوچ اکثریت میں ہیں، جس کی تعداد بیس لاکھ تک ہے جو زیادہ تر سنی العقیدہ ہیں۔ چنانچہ ایرانی بلوچ اپنی نسلی اور مسلکی دونوں حوالوں سے ایران کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ بلوچوں کے علاقے ایران، پاکستان اور افغانستان تینوں ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ساٹھ لاکھ اور افغانستان میں چھ لاکھ بلوچ بستے ہیں۔

ایران کا کہنا ہے کہ جیش العدل کے سربراہ صلاح الدین فاروقی کا تعلق پاکستانی بلوچستان سے ہے اور اس کا ایرانی نام عبدالرحیم ملا زادہ ہے جس کا پاکستانی بلوچ قبائل میں بھی کافی اثر و رسوخ ہے۔ صلاح الدین فاروقی جو کہ سلفی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ جیش العدل کی افرادی قوت کے بارے میں صحیح معلومات تو موجود نہیں ہیں تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس 500 کے قریب مسلح جنگجو موجود ہیں۔ 2015 ء میں ایران نے جیش العدل کے ایک رہنما جاوید دہغان کو گرفتار کیا تھا جس پر پاسداران انقلاب کے دو سپاہیوں کو ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ جاوید کو 2021 ءمیں پھانسی دے دی گئی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ایران میں بلوچوں کو پھانسی دینے کے عمل پر شدید تنقید کرتی رہی ہیں۔

بلوچستان کے علاقے جو تینوں ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں، سمگلنگ کے حوالے سے جانے جاتے ہیں جن میں اشیائے ضروریہ کے علاوہ منشیات کی سمگلنگ بھی شامل ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند اپنے اخراجات منشیات کی سمگلنگ سے ہی پورا کرتے ہیں کیونکہ ان علاقوں سے گزر کر ہی یہ منشیات افغانستان سے یورپ اور آگے کے ممالک تک جاتی ہیں۔ دونوں جانب کے عسکریت پسندوں نے سمگلروں کے ساتھ روابط قائم کر لیے ہیں۔ 2020ء کی اقوام متحدہ کی عالمی ڈرگ رپورٹ کے مطابق دنیا کی 91 فیصد افیون، 48 فیصد مارفین اور 26 فیصد ہیروئن افغانستان سے انہی بلوچ علاقوں سے سمگل ہو کر آگے جاتی ہے۔ امریکہ کہتا آیا ہے کہ ایران اس سمگلنگ سے ملنے والے پیسے سے طالبان کی مدد کرتا ہے۔ جبکہ ایران کا موقف ہے کہ منشیات کی سمگلنگ اس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ 1988 ء سے اب تک سمگلروں سے مقابلے میں اس کے 4000 سے زائد پولیس اہلکار اور فوجی مارے جا چکے ہیں جبکہ اس نے منشیات کی سمگلنگ میں ملوث 10000 سے زائد لوگوں کو موت کی سزائیں دی ہیں۔ ایران سے پاکستان تیل کی غیرقانونی سمگلنگ بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے پاکستانی مارکیٹ میں استعمال ہونے والے ڈیزل میں ایران سے سمگل ہونے والے ڈیزل کا شیئر 30 فیصد تک پہنچ چکا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتنی بڑی مارکیٹ ہے۔

ایرانی بلوچوں کی طرح پاکستان میں بھی کچھ بلوچ عناصر علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 904 کلومیٹر کی طویل سرحد خاصی دشوار گزار اور بے آب و گیاہ علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے سرحد کی مکمل بندش ممکن نہیں۔ بلوچ قبائل بھی آر پار جاتے رہتے ہیں اور ان کی آڑ میں اسمگلنگ بھی یہاں پر عروج پر ہے۔ اس لیے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے لیے چیلنج یہ ہے کہ بی ایل ایف جیسی تنظیمیں کارروائی کر کے ایران چلی جاتی ہیں اور ایران کا موقف یہ ہے کہ جیش العدل جیسی تنظیموں کے ٹھکانے پاکستانی سرحد کے اندر موجود ہیں۔ ماضی میں ایران کی افواج ان کے تعاقب میں پاکستان میں کئی بار داخل بھی ہو چکی ہیں۔ تاہم پاکستان کے معروف صحافی ضیاء الرحمٰن جو کافی عرصے سے ان امور پر نظر رکھے ہوئے ہیں بتاتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بلوچ علیحدگی پسندوں کا مسئلہ بھی ایران کے شیعہ انقلاب سے جڑا ہوا ہے۔ ایران کے انقلاب کے بعد جب پاکستان کی شیعہ کمیونٹی نے یہاں اپنا سیاسی اسلام لانے کی کوشش کی تو اس کے جواب میں اس وقت کی حکومت نے سنی تنظیموں کی سرپرستی کی، جس کی وجہ سے نوے کی دہائی میں پاکستان میں فرقہ ورانہ کشیدگی عروج پر رہی۔ ایران یہ سمجھتا ہے کہ پاکستانی بلوچستان میں جنداللہ یا جیش العدل کے ٹھکانے ریاست کی سرپرستی میں چل رہے ہیں اور پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے محفوظ ٹھکانے ایران میں ہیں۔ اس مسئلے پر دونوں ممالک میں تناؤ بھی ہے اور معاملات بھی چل رہے ہیں لیکن حالیہ حملہ حیران کن ہے۔ حملے سے پہلے ایران کے نمائندہ خصوصی کا دورہ اسلام آباد اور پاکستان کے وزیراعظم کی ڈیووس میں ایرانی وزیرخارجہ سے ملاقات کے اوقات بھی اہم ہیں۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز سے وابستہ تجزیہ کار صفدر سیال نے بتایا کہ ایران اور پاکستان کی سرحد پر کراس بارڈر فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان بارڈر سیکورٹی کا میکنزم موجود ہے جس کی وجہ سے تناؤ آتا بھی ہے تو ڈی فیوز ہو جاتا ہے لیکن ایسا میکانزم انڈیا اور افغانستان کے ساتھ موجود نہیں ہے۔

بشکریہ ’ہم سب‘
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close