بھارت کے نامور وکیل کو بھارتی عدالت کی طرف سے انوکھی سزا

ویب ڈیسک

یر کے روز ایک حیرت انگیز فیصلے میں ، ہندوستان کی اعلیٰ عدالت نے ایک نامور وکیل کو صرف ایک روپیہ جرمانے کی ادائیگی کا حکم دیا.

یہ سزا انہیں ان کے کلمات پر  توہین عدالت کے الزام میں اس وقت سنائی گئی، جب ایک ہائی پروفائل کرمنل کیس کے دوران ہندوستان میں آزادی اظہار رائے اور عدلیہ کی آزادی پر بحث چھڑ گئی۔

تفصیلات کے مطابق 63 سالہ پرشانت بھوشن کو اگست میں دو ٹویٹس کرنے کے لئے مجرمانہ توہین کے الزام میں قصوروار پایا گیا تھا، جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہندوستان میں جمہوریت کو تباہ کرنے میں عدالتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے

توہین عدالت کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے ججوں نے کہا کہ اگر وہ 15 ستمبر تک ایک روپیہ جرمانہ ادا کرنے میں ناکام رہا تو اسے تین ماہ کے لئے جیل بھیج دیا جائے گا اور تین سال تک ان کی وکالت پر پابندی لگا دی جائے گی.  بھوشن نے سزا سنائے جانے کے بعد فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

واضح رہے کہ جون میں بھوشن نے چیف جسٹس کی ایک تصویر ٹویٹ کی تھی، جس میں انہیں ہارلی ڈیوڈسن موٹرسائیکل پر ماسک یا ہیلمٹ پہنے بغیر دکھایا گیا تھا، اور چیف جسٹس کو "شہریوں کو انصاف تک رسائی کے  بنیادی حق سے محروم رکھنے” کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا. کیوں کہ  کووڈ19 کی وجہ سے عدالتوں کا کام روک دیا گیا تھا۔ تصویر میں جوموٹر سائیکل دکھائی گئی تھی، وہ ناگپور میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک مقامی رہنما کے بیٹے کی ہے۔

اگست کے اوائل میں سماعت کے دوران ، عدالت نے کہا تھا کہ بھوشن کی ٹویٹس سے "عدلیہ پر سے عوام کا اعتماد اٹھنے” کا خطرہ ہے.  بھوشن پر "عدلیہ کے ادارے کی بنیاد پر حملے” کا الزام بھی لگایا گیا تھا.

فیصلہ سنانے سے پہلے انہیں عدالت نے معافی مانگنے کا موقع فراہم کیا تھا ، لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنا دفاع کیا کہ آزادیء اظہار کے حق میں عدلیہ کے ممبروں کو تنقید کا حق بھی شامل ہے۔

بھوشن نے 20 اگست کو اپنے جواب میں عدالت کو بتایا ، "میں رحم کی درخواست نہیں کروں گا۔” انہوں نے کہا کہ مذکورہ ٹوئٹس ان کے خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ بھوشن کا ردعمل ٹویٹس کے مقابلے میں زیادہ توہین آمیز تھا.

یاد رہے  2017 میں عدالت نے ایک سینئر جج کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے چھ ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔

بھوشن کو توہینِ عدالت کے الزام میں سزا سنانے پر سابق ججوں ، سینئر وکلاء ، حزبِ اختلاف کے سیاستدانوں اور شہری حقوق کے گروپوں کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے ، بہت سے لوگوں نے اس فیصلے کو ایک ایسا دھچکا کہا ہے، جد سے عدلیہ اپنی ساکھ کھو سکتی ہے۔

مشہور بھارتی دانشور اور مصنفہ اروندھتی رائے کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ کے فیصلوں سے لاکھوں ہندوستانیوں کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرشنت بھوشن معاملے میں آزادایء اظہار کو ایک دھچکا لگا ہے ، کیونکہ یہ قدیم ، نوآبادیاتی توہین عدالت کے قانون کا سہارا لے کر خود کو تنقید سے بالاتر رکھنا ہے۔ انہوں نے اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا.

یاد رہے کہ 2002 میں ، خود اروندھتی رائے کو بھی  مجرمانہ توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے  ایک دن کی جیل کی  سزا سنائی گئی تھی ، اس الزام کی انہوں نے تردید کی تھی۔

بھوشن ، ہندوستان کے سب سے معزز مفاد عامہ کے وکیل اور گذشتہ کافی عرصے سے سپریم کورٹ کا ایک متنازعہ نقاد رہے ہیں. وہ عدلیہ پر اکثر حکومت کا ساتھ دینے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ وہ مودی حکومت کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک ہیں اور انہوں نے حکومت کے خلاف عوامی مفادات کے متعدد مقدمات بھی دائر کیے ہیں۔ یہی نہیں  مفاد عامہ کی قانونی چارہ جوئی کے ایک چیمپئن کے طور پر جانے جانے والے ، بھوشن نے موجودہ مرکزی حزب اختلاف کانگریس پارٹی کے خلاف بھی بدعنوانی کے متعدد مقدمات دائر کیے تھے ، جس نے 2004 اور 2014 تک ملک کی قیادت کی۔

وہ عام آدمی پارٹی کے بنیادی بانی رکن بھی تھے ، جس نے بھارتی دارالحکومت دہلی میں 2015 حکومت کی اور اسی سال معزول کر دی گئی۔

حالیہ برسوں میں ، ہندوستانی حکومت نے اپنے ناپسندیدہ  صحافیوں ، انسانی حقوق کے کارکنوں ، وکلاء ، ماہرین تعلیم اور طلباء کے خلاف فوجداری قوانین کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو مختلف الزامات میں  گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close