”ہم یہاں سے نفرت کا پیغام لے کر جا رہے ہیں، ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ سب کچھ یاد رکھا جائے گا“ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا ختم کرنے کا اعلان

ویب ڈیسک

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ نے منگل کو ’بلوچوں کی مبینہ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں‘ کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دو ماہ سے جاری احتجاجی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا

اسلام آباد میں جبری طور پر گمشدہ افراد کے لواحقین کا یہ دھرنا 61 روز سے جاری تھا، جسے 23 جنوری کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ماہ رنگ بلوچ نے کہا ”اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے 27 جنوری کو کوئٹہ میں ایک جلسے کا انعقاد کریں گے“

انہوں نے کہا ”یہ تحریک اب محروم لوگوں کی مکمل آواز بن چکی ہے، بلوچستان سے لاکھوں لوگ اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں“

یہ اعلان نیشنل پریس کلب (این پی سی) کی جانب سے اسلام آباد پولیس کو ایک خط لکھنے کے بعد سامنے آیا، جس میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کیمپ کو ہٹانے کی درخواست کی گئی تھی، این پی سی کی درخواست بعد میں صحافیوں سمیت دیگر حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد واپس لے لی گئی

مظاہرین جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے این پی سی کے سامنے دھرنا دیے ہوئے تھے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا یہ کیمپ گزشتہ سال 22 دسمبر کو قائم کیا گیا تھا اور سخت سردی کے باوجود مظاہرین یہاں موجود رہے۔ مزید برآں، دھرنے کے منتظمین نے اسلام آباد پولیس پر الزام لگایا تھا کہ ان کے حامیوں کو ہراساں اور ان کی پروفائلنگ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) بھی درج کی گئی۔

ماہ رنگ بلوچ نے اسلام آباد پریس کلب کے باہر لگائے گئے کیمپ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ”تحریک کے اگلے مرحلے میں خطے کی مظلوم عوام کو متحرک کر کے اپنے ساتھ روابط اور اتحاد کو بڑھانے کے اقدامات اور مشترکہ جدوجہد کریں گے۔“

اس موقع پر ماہ رنگ بلوچ نے حکومت کے رویے پر مایوسی کا اظہار کیا اور مذاکراتی کمیٹی کے بیان کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے مذاکرات کے دوران کہا کہ آپ کے لوگ ہماری حکومت کے دوران لاپتہ نہیں ہوئے جو کہ درست بات نہیں۔ اس نگران حکومت کے دور میں بھی لوگ لاپتہ ہوئے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دھرنے کی قیادت کرنے والی بلوچ رہنما ماہ رنگ بلوچ نے کہا ‏”کل ہم اسلام آباد سے دکھ، درد، تکلیف اور اسلام آباد کی بلوچ دشمن رویوں کو لے کر واپس بلوچستان جا رہے ہیں“

”یہاں سے جو نفرت کا پیغام دیا گیا، وہ پیغام ہم بلوچستان لے کر جائیں گے، ہم یہاں سے نفرت کا پیغام لے کر جا رہے ہیں، ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ سب کچھ یاد رکھا جائے گا“

‏انہوں نے کہا کہ ہم اپنی سرزمین پہنچ کر اسلام آباد کی کہانیوں کو بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے لے کر نیلے سمندر تک پہنچائیں گے۔

‏ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ اب ہمارے حوصلے اور ہمت مزید بلند ہو چکے ہیں, اور ہم اب اپنے طاقتور حوصلوں کے ساتھ اس تحریک کو بلوچستان کے گھر گھر تک لے کر جائیں گے

انہوں نے کہا کہ پریس کلب اسلام آباد کا کل کا نوٹیفکیشن پوری صحافت پر داغ ہے، اسلام آباد میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا، وہ پورے بلوچستان کو بتائیں گے

واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کو لکھے گئے خط میں این پی سی نے درخواست کی تھی کہ مظاہرین کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا جائے تاکہ ’پریس کلب اور تمام رہائشیوں اور تاجر برادری کے لیے مشکلات کو کم کیا جا سکے‘

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہم اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں، کل بلوچستان کی جانب روانہ ہوں گے۔

ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا ”اسلام آباد میں جھوٹے سکیورٹی تھریٹس پھیلائے جا رہے ہیں، جس سے یہاں رہنے والے لوگ پریشان ہیں۔“

”اسلام آباد پہنچنے پر ہمارے پر امن احتجاج پر لاٹھیاں برسائی گئی ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی ہمیشہ پرامن رہی ہے اور اپنی اس تحریک کو اختتام تک لے کر جائیں گے۔“

ان کا کہنا تھا ”یہ ایک عوامی تحریک ہے، جس کے پیچھے بلوچستان کی عوام کھڑی ہے۔ عوامی تحریکوں کو تشدد اور طاقت سے نہیں روکا جا سکتا۔“

ماہ رنگ بلوچ نے کہا ”ہمارے دھرنے کے سامنے بلوچستان کے بدنامِ زمانہ لوگوں کو لا کر بیٹھا دیا گیا ہے۔ ریاست کے رویے سے بلوچستان کے لوگوں کے دلوں میں مزید نفرت بڑھی ہے۔“

انہوں نے کہا ”ہمیں امید تھی کہ یہ لوگ اسلام آباد میں ہماری آواز کو سنیں گے۔ ہماری تحریک کے حوالے سے میڈیا کا کردار بہت مایوس کن رہا ہے۔“

ان کا کہنا تھا کہ ہم ریاست کے خلاف نہیں، ریاست ہمارے خلاف ہے، ہم تو اپنے مسائل کے حل کے لیے ریاست سے مطالبہ کر رہے ہیں، بلوچ یکجہتی کمیٹی نے 61 دن تک پرامن احتجاج کیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما نے کہا کہ افسوس ہے کہ الیکشن مہم چل رہی ہے لیکن کسی جماعت کی جانب سے لاپتا افراد سے متعلق کی کوئی بات نہیں کی جا رہی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد نیشنل پریس کلب کی جانب سے گذشتہ روز اسلام آباد کی انتظامیہ کو ایک درخواست دی گئی۔ اس درخواست میں نیشنل پریس کلب کا موقف تھا کہ پریس کلب کے باہر دھرنے پر بیٹھے بلوچ مظاہرین کو پریس کلب کے سامنے سے ہٹا کر کسی اور جگہ منتقل کیا جائے۔

نیشنل پریس کلب کے مینیجر کامران شاہد کی جانب سے اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں انتظامیہ کو جمع کروائی جانے والی اس درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ’پریس کلب کا ذریعہ آمدن یہاں ہونے والی پریس کانفرنسز اور سیمینارز ہیں، تاہم گذشتہ دو ماہ سے بلوچ افراد کے احتجاج کی وجہ سے بند راستوں سے ناصرف ہمارے ممبران کو آمد و رفت میں مُشکلات کا سامنا ہے بلکہ سکیورٹی کی وجہ سے یہاں دیگر پروگرامز بھی نہیں ہو رہے۔‘

تاہم نیشنل پریس کلب کو اپنی اس درخواست پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اسی میں بلوچ یکجہتی مارچ کی سربراہی کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بھی ایکس پر اپنے ایک بیان میں اسلام آباد پریس کلب کی جانب سے انتظامیہ کو دی جانے والی اس درخواست پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’کُجا یہ کہ ان صحافتی اداروں کو اُن مظلوم لوگوں کی آوازوں کو بلند کرنے میں مددد کی جانی چاہیے، یہ ہمیں خاموش کروانے اور نیشنل پریس کلب کے سامنے سے ہٹانے کی کوشش میں ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر شدید ردِ عمل کے بعد گزشتہ روز ہی شام گئے اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے منیجر کامران شاہد نے تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو دی جانے والی اپنی درخواست یہ کہتے ہوئے وااپس لینے کا تحریری بیان جاری کیا کہ ’اُن کی درخواست اور مظاہرین کو نیشنل پریس کلب کے سامنے سے ہٹانے کے معاملے میں انتظامیہ کو لکھے جانے والے خط کو توڑ مروڑ اور غلط رنگ دے کر پیش کیا گیا۔‘

یاد رہے کہ اس دھرنے کے چلتے نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے کہا تھا کہ بلوچستان سے آنے والے بلوچ مظاہرین سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔ ان کا کہنا تھا ”حکومت بلوچ مظاہرین کے مطالبات کی فہرست، مذاکرات کے وقت اور مقام کا انتظار کر رہی ہے۔“

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ نے اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی سے غیر جانبدارانہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس معاملے پر ماہ رنگ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ ہم صورت حال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے اس تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جب صوبہ بلوچستان کے علاقہ کیچ سے تعلق رکھنے والے بالاچ بلوچ سمیت چار افراد کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی ایک کارروائی کے دوران مبینہ طور پر مارے گئے تھے۔ بالاچ کے مبینہ قتل کے بعد ان کے لواحقین نے تربت میں میتوں سمیت دھرنا دیا۔ تاہم یقین دہانی کے باوجود اس واقعہ کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔

یہ مظاہرہ بلوچستان کے علاقے تربت سے بلوچ نوجوان بالاچ بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف شروع کیا گیا تھا۔

20 دسمبر کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے مظاہرین بھی اس کیمپ میں شامل ہو گئے تھے۔

یہ کیمپ بلوچ لاپتہ اور جبری طور پر گمشدہ افراد کی واپسی کے لیے نیشنل پریس کلب کے باہر لگایا گیا تھا۔

اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کیا تھا جس میں خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس دوران اسلام آباد پریس کلب کے باہر پہلے سے موجود بلوچ مظاہرین کے ٹینٹ بھی اکھاڑ دیے گئے۔

جب یہ مظاہرین اسلام آباد پہنچے تھے تو ان کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن کر کے 283 مردوں اور تقریبا 100 خواتین کو گرفتار یا تحویل میں لیا گیا تھا، جس کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پھر ان کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور تمام افراد کو رہا کر دیا گیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close