کووڈ ویکسین بنانے والی کمپنیاں فی سیکنڈ ایک ہزار ڈالر کما رہی ہیں!

ویب ڈیسک

امیر ملکوں کو کووڈ ویکسین فروخت کرنے سے صرف تین کمپنیوں کو یومیہ 93.5 ملین ڈالر کی آمدن ہو رہی ہے، جبکہ دوسری طرف غریب ملکوں میں صرف دو فیصد لوگوں کو ہی ویکسین کی دونوں خوراکیں مل سکی ہیں

کووڈ ویکسین کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے مہم چلانے والی تنظیموں کے اتحاد پیپلز ویکسین الائنس (پی وی اے) نے اپنے تازہ ترین تجزیے میں بتایا ہے کہ کووڈ-19 کی ویکسین تیار کرنے والی صرف تین کمپنیاں فائزر، بایو این ٹیک اورموڈرنا اپنی ویکسین امیر ملکوں کو فروخت کرکے مجموعی طور پر فی منٹ 65 ہزار ڈالر کے حساب سے دولت سمیٹ رہی ہیں، جبکہ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں بیشتر افراد اب تک ویکسین سے محروم ہیں

پی وی اے کے مطابق یہ تجزیہ خود ان کمپنیوں کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹوں پر مبنی ہے

پی وی اے کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو اربوں ڈالر کی سرکاری فنڈنگ بھی ملی ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ویکسین تیار کرنے کا فارمولہ، تکنیک اور دیگر معلومات غریب ملکوں کی کمپنیوں کو دینے سے انکار کر دیا ہے

پی وی اے کے اندازے کے مطابق مذکورہ تینوں کمپنیاں اس سال 34 ارب ڈالر کا بھاری منافع کمائیں گی، جو کہ فی سیکنڈ ایک ہزار ڈالر، فی منٹ پینسٹھ ہزار ڈالر اور یومیہ 93.5 ملین ڈالر کے قریب بنتا ہے

پی وی اے افریقہ اور افریقن الائنس کی کوآرڈینیٹر مازا صیوم کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی شرمناک ہے کہ صرف چند ایک کمپنیاں ہر گھنٹے لاکھوں ڈالر منافع کما رہی ہیں، جبکہ کم آمدن والے ملکوں کے صرف دو فیصد لوگوں کو ہی پوری طرح ویکسین میسر ہوسکی ہے

انہوں نے کہا فائزر، بایو این ٹیک اور موڈرنا نے اپنی اجارہ داری کا استعمال کرتے ہوئے دولت مند حکومتوں سے انتہائی منفعت بخش معاہدے کیے اور کم آمدنی والے ملکوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا

پی وی اے کا کہنا ہے کہ فائزر اور بایو این ٹیک نے اپنی مجموعی سپلائی کے ایک فیصد سے بھی کم جبکہ موڈرنا نے صرف 0.2 فیصد ویکسین کم آمدن والے ملکوں کو سپلائی کیا

کم آمدن والے 98 فیصد افراد کو ابھی تک ویکسین کے دونوں ڈوز نہیں لگائے جاسکے ہیں

اطلاعات ہیں کہ ان کمپنیوں کی دولت سمیٹنے کی ہوس کی دیکھا دیکھی، اب دو دیگر کمپنیاں آسٹرازینکا اور جانسن اینڈ جانسن بھی غیر منافع کی بنیاد پر ویکسین فروخت کرنے کی پالیسی ترک کر کے بہتی گنگا میں غوطہ لگانے کی تیاری کر رہی ہیں

پی وی اے کا کہنا ہے کہ آٹھ ارب ڈالر سے بھی زیادہ سرکاری فنڈ حاصل کرنے کے باوجود فائزر، بایو این ٹیک اور موڈرنا نے ویکسین ٹیکنالوجی کم اور درمیانی آمدنی والے ملکوں کو منتقل کرنے کی عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کی درخواست ٹھکرا دی ہے، جبکہ ٹیکنالوجی منتقل کرنے سے عالمی سپلائی میں اضافہ اور قیمتوں میں کمی ہوسکتی تھی جس سے لاکھوں زندگیوں کو بچایا جا سکتا تھا

واضح رہے کہ ایشیا اور افریقہ کے سو سے زیادہ ترقی پذیر اور غریب ملکوں نے مطالبہ کیا تھا کہ کووڈ ویکسین کو پیٹنٹ ضابطوں سے آزاد کیا جائے، تاکہ تمام ملک اپنی ضرورت کے لحاظ سے ویکسین تیار کرسکیں۔ اس مطالبے کی سب سے شدید مخالفت جرمنی اور برطانیہ نے کی

پی وی اے ایک طویل عرصے سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ ویکسین کو پیٹنٹ سے آزاد ہونا چاہئے۔ اس اتحاد میں آکسفیم، یو این ایڈس اور افریقن الائنس سمیت تقریباً اَسی اراکین شامل ہیں

دوسری جانب ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں کورونا کے جتنے مریض ہیں ان میں سے 99.5 فیصد ڈیلٹا ویرینٹ سے متاثر ہیں

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے اس قسم نے بقیہ تمام اقسام کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جنوبی امریکا ہی ایسا خطہ ہے جہاں گاما، لیمڈا اور مو ویرینٹ کے زیادہ کیسز موجود ہیں

عالمی صحت تنظیم نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یورپ اور وسطی ایشیا میں اگلے برس فروری تک پانچ لاکھ لوگوں کی موت ہوسکتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے یورپی ڈائریکٹر نے کہا کہ یورپ اور وسطی ایشیا ایک بار پھر کووڈ-19 کا مرکز بن گئے ہیں اور یکم فروری تک مزید لاکھوں افراد کی موت ہوسکتی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close