ایک ہی کوکھ (موزمبیقی ادب سے منتخب افسانہ)

میا کُو تُو (ترجمہ: محمد فیصل)

ان دنوں میرے دادا مجھے ساتھ لیے دریا کی جانب چل پڑتے اور اپنی چھوٹی سی کشتی، جسے وہ کونچو کہتے تھے، میں مجھے بھی بٹھا لیتے۔ وہ بہت آہستگی سے چپو چلاتے، چپو شاید ہی لہروں سے ٹکراتے، مجھے تو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ پانی کے اوپر ہی انہیں حرکت دے رہے ہیں۔ چھوٹی سی کشتی اچھلتی، ڈولتی، لہروں میں پھنسی، دریا میں تنہا، اور اسے دیکھ کر خیال گزرتا کہ جیسے کسی گر جانے والے درخت کا تنا تیر رہا ہے۔

”آپ دونوں کہاں جا رہے ہیں؟“

میرا یوں جانا ماں کے لیے اذیت کا باعث تھا۔ دادا مسکرا کر رہ جاتے۔ ان کے جبڑوں میں دانت بہت معنی خیز حیثیت کے حامل تھے۔ دادا ان افراد میں شامل تھے، جو سب کچھ جاننے کے باوجود خاموش رہتے اور کچھ نہ بول کر بھی گفتگو کرتے تھے۔ وہ صرف اتنا کہتے، ”ہم ابھی واپس آجائیں گے۔“

مجھے بھی علم نہ تھا کہ وہ کس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ مچھلی پکڑنا تو ان کی فہرست میں شامل نہ تھا۔ جال اپنی جگہ پڑا رہتا اور میں اسے کشن کی طرح استعمال کر لیتا۔ یہ تو ان کا پکا معمول تھا کہ جیسے ہی دن کا آغاز ہوتا، وہ میرے بازو کو مضبوطی سے تھامتے اور دریا کی جانب لے چلتے۔ وہ مجھے کسی نابینا کی طرح پکڑتے۔ بالکل اسی طرح، وہ میری راہ نمائی کرتے اور ہمیشہ ایک قدم آگے رہتے۔ مجھے ان کی سیدھی کمر اور دبلے مگر مضبوط جسم کو دیکھ کر حیرانی ہوتی۔

دادا عمر کے اس حصے میں تھے، جہاں ان کا بچپنا واپس آ چکا تھا، وہ بھرپور زندگی گزارنے کے بعد بھی اس کی رنگا رنگیوں سے حظ اٹھاتے ہیں۔ ہم کشتی پر سوار ہوتے تو یوں محسوس ہوتا، جیسے ہمارے قدموں سے کسی ڈھول پر تھاپ لگ رہی ہو۔ کشتی کو کھینچا جاتا اور خوابوں میں ڈبو دیا جاتا۔ چپو چلانے سے قبل دادا ایک طرف جھکتے اور دونوں ہتھیلیوں میں پانی جمع کرتے۔ میں ان کی نقل اتارتا

”ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا! پانی کے ساتھ چلو۔۔“ یہ ان کی طرف سے ایک مستقل تنبیہہ تھی، ”بہاؤ کے مخالف لہر سے پانی اکٹھا کرنا بدقسمتی لاتا ہے۔ بہاؤ میں بہنے والی روحوں سے اختلاف نہیں کرنا چاہیے۔“

اس کے بعد ہمارا سفر شروع ہوتا تھا اور ہم اس وسیع جھیل میں پہنچ جاتے، جہاں یہ چھوٹا سا دریا آ کر ملتا تھا۔ یہ ممنوعہ مخلوق کی کائنات تھی، جو کچھ بھی یہاں دکھائی دیتا تھا، سب انہی کی تخلیق تھی۔ اس جگہ زمین اور آسمان کی حدود ختم ہو جاتی تھیں۔ اس شور بھرے سناٹے میں، کنول کے پھولوں کے درمیان، ہمارے علاوہ اور کوئی نہ ہوتا۔ ہماری چھوٹی سی کشتی آہستگی بلکہ نیم غنودگی سے بہتی رہتی۔ ہمارے چاروں اور سرد ہوا ہوتی، روشنی سایوں میں ڈھل جاتی اور یوں محسوس ہوتا جیسے دن ہوتے ہی یہاں خوابیدگی طاری ہو جاتی ہے۔ ہم یہاں اس طرح اطمینان سے بیٹھتے جیسے عبادت کر رہے ہوں اور یہ پورا منظر مکمل ہو جائے۔

تب اچانک دادا کونچو میں کھڑے ہو جاتے، اس طرح کھڑے ہونے سے کشتی الٹتے الٹتے بچتی۔ دادا جوش و جذبے سے ہاتھ ہلاتے۔ پھر وہ ایک سرخ کپڑا اٹھاتے اور اسے تیزی سے ہلانے لگتے۔ وہ کسے اشارہ کر رہے تھے؟ شاید کسی کو بھی نہیں۔ اس پورے سمے، ایک لمحے کے لیے بھی اس دنیا تو کیا، کسی بھی دنیا کے کسی ذی روح کی جھلک نہ دکھائی دیتی۔۔ مگر دادا اپنا کام جاری رکھتے

”تمہیں نظر نہیں آ رہا، وہ اس کنارے کی طرف ، دھند کے اس پار؟“

مجھے کچھ نظر نہ آتا، مگر وہ بضد رہتے اور مکمل یک سوئی کے ساتھ اپنا شغل جاری رکھتے۔

”وہاں نہیں! ذرا اور غور سے وہاں دیکھو، تمہیں کوئی سفید کپڑا ہلتا دکھائی نہیں دے رہا۔۔!؟“

مجھے صرف دھند اور اس کے پیچھے خوف نظر آتا تھا، یہیں افق غائب ہوتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد محترم بزرگ اس سراب سے باہر نکلتے اور خاموشی سے بیٹھ جاتے۔۔ اور پھر ہم کچھ بولے بغیر واپسی کا سفر کرتے۔

گھر پہنچنے پر والدہ سرد مہری سے ہمارا استقبال کرتیں۔ وہ مجھے بہت سے کاموں سے منع کرنے لگتیں۔ انہیں میرا جھیل پر جانا پسند نہیں تھا کہ وہاں بہت سے خطرات چھپے تھے۔ پہلے تو وہ دادا پر غصہ اتارتیں مگر ہماری واپسی کی خوشی میں ٹھنڈی پڑ جاتیں اور مذاقاََ کہتیں، ”تمہیں کم از کم نامسکٹو موہا کو ڈھونڈنا چاہیے تھا، اس سے شاید خوش قسمتی کا دروازہ کھل جائے۔۔“

نامسکٹو موہا ایک روح تھی جو رات کو نکلتی تھی۔ یہ آدھے وجود کی مالکہ تھی، یعنی ایک ٹانگ، ایک بازو، ایک آنکھ۔۔ ہم بچے اسے ڈھونڈنے باہر نکل پڑتے، مگر کبھی ایسی چیز سے ٹاکرا نہیں ہوا۔ دادا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ جب وہ چھوٹے تھے تو انہوں نے موہا کو ڈھونڈ نکالا تھا۔ والدہ مجھے خبردار کرتیں کہ یہ سب ان کی دماغی اختراع ہے، مگر مجھے دادا کی ہر بات سچ لگتی۔

ایک مرتبہ ہم جھیل پر دادا کی مقررہ رسم کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم کنارے پر تھے، جہاں ہرے رنگ کا سبزہ اگا تھا۔ دادا بولے، ”وہ کہتے ہیں کہ پہلا انسان یہاں پیدا ہوا تھا۔۔“

پہلا انسان، میرے ذہن میں تو اپنے دادا سے بوڑھا کوئی انسان ہو نہیں سکتا تھا۔ اس وقت نہ جانے میرے دل میں خواہش جاگی کہ میں کنارے پر جاؤں اور اس سبزے پر قدم رکھوں۔ میں کشتی کے کنارے کی طرف بڑھا تو دادا خوف ناک انداز میں گرجے، ”نہیں! ایسا کبھی نہیں کرنا۔“

میں نے فوراً معافی مانگی۔
میں کشتی سے تھوڑی دیر کے لیے اترنا چاہ رہا تھا۔

وہ بولے، ”اس جگہ کوئی بھی لمحہ چھوٹا نہیں ہوتا۔ یہاں سے آگے ابدیت کا راج ہے۔“

میں نے کشتی سے ایک قدم باہر نکال کر کنارے کو چھونا چاہا۔ پانی میں قدم ڈال کر میں نے سطح کی امید کی مگر وہاں تو کچھ نہ تھا اور میری ٹانگ پانی میں اترتی جا رہی تھی۔۔ گویا پاتال میں اتر رہی ہو۔۔ دادا فوراََ میری طرف بڑھے اور مجھے واپس کشتی میں کھینچنے لگے۔ مگر مجھے نیچے کھینچنے والی قوت زیادہ طاقت ور تھی۔ اس کھینچا تانی میں کشتی الٹ گئی اور ہم دونوں پانی میں گر پڑے۔ جھیل ہمیں نیچے کھیچ رہی تھی اور ہم دونوں کشتی کے کنارے پکڑ کر اس میں چڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔ اچانک دادا نے جیب سے کپڑا نکالا اور اپنے سر کے اوپر بلند کر کے ہلانا شروع کر دیا۔

”شروع ہو جاؤ، تم بھی ہاتھ ہلاؤ۔۔۔“

میں نے کنارے کی طرف دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا، تاہم میں نےدادا کی بات مان لی اور ہاتھ ہلانا شروع کر دیا۔ اچانک ایک حیرت ناک بات ہوئی، غیر متوقع طور پر ہمارا گہرائی کی طرف بڑھنا بند ہو گیا۔ جو بھنور ہمیں اپنے حصار میں لینے کے لیے کوشاں تھا، کہیں غائب ہو گیا۔ ہم دونوں کشتی میں سوار ہوئے اور اطمینان کی سانس لی۔ کشتی کو سیدھا کرنے کے بعد وہ بولے، ”آج جو کچھ ہوا، کسی سے کوئی بات نہیں کرنی، اپنے آپ سے بھی نہیں۔۔“

اس رات انہوں نے مجھے یہ واقعہ سمجھایا۔ میں نے پوری توجہ سے ان کی بات سنی۔۔ مگر ان کی باتیں میں سمجھ نہ سکا، انہوں نے کم و بیش یہ کہا تھا: ”ہماری کچھ آنکھیں ہیں، جو ہمارے باطن میں کھلتی ہیں، انہیں ہم خواب دیکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم میں بیشتر افراد نابینا ہوتے ہیں، وہ اُس دنیا سے آنے والے ملاقاتیوں کو نہیں دیکھ پاتے۔ اُس دنیا؟ پوچھو گے نہیں۔۔۔ ہاں، وہ ملاقاتی، جو دوسرے کنارے سے ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہیں۔۔ اور یوں ہم ان کی مکمل اداسی کو زائل کرتے ہیں۔ میں تمہیں وہاں اس لیے لے کر جاتا ہوں کہ شاید تم انہیں دیکھنا سیکھ پاؤ۔ وہاں کپڑے ہلانے والا آخری شخص مجھے نہیں ہونا چاہیے۔ میری بات سمجھے؟“

میں نے جھوٹا اقرار کیا۔ اگلی دو پہر دادا مجھے دوبارہ جھیل پر لے گئے۔ وقت ضرورت سے زیادہ سست روی سے گزر رہا تھا۔ دادا بے چین ہوئے اور کشتی کے سرے پر کھڑے ہو کو ایک جانب دیکھنے لگے۔ دوسری جانب کوئی بھی نہیں تھا۔ اس بار تو دادا کو بھی دھند آمیز دلدلوں کی تنہائی نظر آرہی ہوگی۔ اچانک وہ بولے، ”یہیں انتظار کرو!“

اور انھوں نے کشتی سے باہر چھلانگ لگائی اور خوف سے میری سانس بند ہو گئی۔ کیا دادا اس ممنوعہ ملک میں داخل ہو رہے تھے؟ ہاں، میرے بدترین اندیشوں کے مطابق وہ مضبوط قدم اٹھاتے جا رہے تھے۔ کشتی میرے ہلکے سے وزن سے اپنا توازن کھو رہی تھی۔ دادا دور ہوتے چلے گئے اور یہاں تک کہ دھند میں گم ہو کسی خواب کا حصہ بن گئے۔۔ ہر شے سراب نظر آ رہی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے ایک بگلے کو تیزی سے کنارے کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ایک تیر سہ پہر کی چادر کو چیرتا ہوا، خون پھیلاتا جا رہا ہے۔

اور پھر اس وقت اس کنارے پر، دوسری دنیا کی طرف مجھے سفید کپڑا نظر آیا۔ مجھے وہ کپڑا نظر آ گیا جو میرے دادا دیکھا کرتے تھے۔۔ اور اگرچہ مجھے آج بھی شک ہے کہ میں نے کیا دیکھا، مگر سفید کپڑے کے ساتھ دادا کا سرخ کپڑا بھی حرکت کرتا نظر آ رہا تھا۔ میں ہچکچایا مگر میں نے اپنی قمیص اتاری اور اسے ہلانے لگا۔ میں نے دیکھا کہ سرخ کپڑا سفید ہوتا جا رہا ہے، اس کا سرخ رنگ دھندلا ہوتا جارہا تھا۔ میری آنکھیں اتنی نم ہوئیں کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔

میں کشتی کھیتے ہوئے واپسی کے طویل سفر پر روانہ ہوا تو دادا کی باتیں دماغ میں گونج رہی تھیں۔۔ ’پانی اور وقت جڑواں بھائی ہیں، دونوں ایک ہی کوکھ سے جنمے ہیں۔۔‘

میں نے اپنے وجود میں ایک دریا دریافت کیا ہے، جو کبھی نہیں سوکھے گا۔۔ یہ وہ دریا ہے، جس میں اب میں بار بار آتا ہوں، اپنے بیٹے کی رہ نمائی کرتا ہوں۔۔ اور اسے دوسرے کنارے پر سے سفید کپڑے کی جھلک ڈھونڈنا سکھا رہا ہوں۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close