گذشتہ اتوار کو انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی نئی عمارت کا افتتاح کردیا ہے، جس کے بعد ہندو مذہب کے ماننے والے اب ایودھیا کو اپنے لیے ’ویٹی کن‘ کا درجہ دے رہے ہیں۔
نریندر مودی نے ہی پانچ اگست 2020 کو رام مندر کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس سے پہلے انڈین سپریم کورٹ نے 2019 میں بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی۔ رام مندر کا کل رقبہ 70 ایکڑ پر مشتمل ہے، جس میں رام مندر کی عمارت 2.7 ایکڑ پر تعمیر کی گئی ہے۔
رام مندر کی تعمیر پر 21 کروڑ 70 لاکھ امریکی ڈالر خرچ آیا ہے، جو اب تک انڈیا میں کسی بھی مندر کی تعمیر پر آنے والی سب سے بڑی رقم ہے۔
یہ رقم تیرتھ کشیترا ٹرسٹ نے دی ہے، جسے 2020 میں رام مندر کی تعمیر کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ ٹرسٹ کو لوگوں نے جو عطیات دیے وہ اس کی تعمیر پر آنے والے اخراجات سے دگنا تھے۔ ٹرسٹ کے پاس 3500 کروڑ روپے آئے جبکہ اس میں سے مندر کی تعمیر پر ان کا 51.4 فیصد خرچ ہوا۔ 100 کروڑ روپے رام مندر میں 70 روزہ خصوصی پوجا پاٹ پر خرچ کیے جائیں گے۔
◼️بابری مسجد اور رام کی جائے پیدائش کا تنازع
مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر نے پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر 1526 میں ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ ہندوؤں کا مؤقف ہے کہ بابر کے ایک سپہ سالار میر باقی نے 1528 میں ایودھیا میں عین اس جگہ بابری مسجد کی بنیاد رکھی جو رام کی جائے پیدائش تھی اور جہاں رام مندر قائم تھا۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ قضیہ سب سے پہلے ایک مسیحی مبلغ جوزف ٹائفینتھلر (Joseph Tiefenthaler) نے اپنے ایک سفر نامے میں پیش کیا، جس نے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے 30 سال بعد 1740 میں ایودھیا کا دورہ کیا تھا۔
اس نے سب سے پہلی بار لکھا تھا کہ ہندو کہتے ہیں کہ جہاں بابری مسجد ہے، یہ رام چندر کی جائے پیدائش ہے، جہاں ان کا ایک مندر تھا۔ اس سے پہلے یہ قیاس تو کیا جاتا تھا کہ وشنو کے ساتویں اوتار رام چندر ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے لیکن یہ کسی نے نہیں کہا تھا کہ یہ عین اس جگہ پیدا ہوئے تھے جہاں بابری مسجد ہے۔
حالانکہ معروف ہندو شاعر تلسی داس جنہوں نے رام چندر کے حالات پر مشتمل سولہویں صدی میں ’رام چرت منس‘ لکھی جسے تلسی رامائن بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس میں کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ بابری مسجد دراصل رام چندر کی جنم بھومی ہے۔
1877 میں ایودھیا کے ضلع فیض آباد کا جو گزیٹیئر لکھا گیا، اس میں زیادہ واضح طور پر لکھا گیا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تھا۔
’زبانی طور پر بتایا جاتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کے حملے کے وقت تین اہم مندر تھے جن میں کچھ پجاری بھی تھے لیکن ایودھیا اس وقت ویران تھا۔ تین مندروں میں رام جنم استھان مشہور تھا، جس پر بابر نے مسجد بنائی۔ دوسرے پر اورنگ زیب نے اور تیسرے پر انہی کے کسی پیش رو نے مسجد بنائی۔ مسلمان جب کسی قوم کو مغلوب کرتے ہیں تو اس پر اپنا مذہب نافذ کرتے ہیں۔ جنم استھان وہ جگہ ہے جہاں رام چندر پیدا ہوئے تھے۔‘
اس سے پہلے 1853 میں اس معاملے پر ایودھیا میں ہندو مسلم فسادات بھی ہو چکے تھے، جس پر انگریز انتظامیہ نے مسلمانوں اور ہندوؤں میں عبادت کی جگہ تقسیم کر دی تھی۔ تقسیم کے بعد 1949 میں انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کے اندر رام کی مورتی رکھ دی۔ چنانچہ جو تنازع مسیحی مبلغ جوزف کے سفرنامے سے شروع ہوا تھا وہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام اور 2024 میں رام مندر کی تعمیر پر آ کر ختم ہوا، لیکن اس دوران فسادات میں دو ہزار سے زیادہ لوگ اپنی جانوں سے گئے۔
رام چندر کون تھے اور ان کی پیدائش کہاں ہوئی؟
رام چندر جی راجہ دسرتھ کے ولی عہد تھے، جو ایودھیا کے حاکم تھے لیکن ان کی سوتیلی ماں کیکئی اپنے بیٹے بھرت کو راجہ بنانا چاہتی تھیں۔ ان کے بہکانے پر راجہ دسرتھ نے رام چندر جی اور ان کی بیوی سیتا کو 14 برس کے لیے گھر سے نکال دیا، ان کے ہمراہ ان کے بھائی لچھمن بھی ساتھ تھے۔
بن باس کے دن جنگلوں میں گھومتے پھرتے گزر رہے تھے کہ ایک دن رام اور لچھمن شکار کو گئے ہوئے تھے کہ لنکا کا راجہ راون آیا اور سیتا جی کو اٹھا کر لے گیا۔ اس پر راون اور رام میں لڑائی ہوئی۔ ہنومان جی اور ان کے بندروں نے رام چندر جی کا ساتھ دیا، جس کی وجہ سے انہیں راون پر فتح نصیب ہوئی۔
رام کی پیدائش کا زمانہ کون سا ہے، اس پر تاریخ میں بہت زیادہ تضاد موجود ہے۔ 3800 ق م سے 2000 ق م تک رام کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ رام چندر کے حالاتِ زندگی کے منظوم حالات رامائن میں دیے گئے ہیں، جو 24 ہزار اشلوکوں پر مشتمل ہے جسے، سری مد والمیکی نے لکھا تھا۔
لیکن خود والمیکی کی اس تصنیف کے بارے میں بھی تاریخ میں تضادات موجود ہیں کہ یہ کب لکھی گئی۔ بعض اسے 11ویں صدی اور بعض نے اسے تیسری صدی قبل مسیح کی کتاب قرار دیتے ہیں۔
کیا رام چندر پاکستانی علاقے میں پیدا ہوئے تھے؟
رام کب پیدا ہوئے اور ان کے حالات زندگی پر مشتمل کتاب رامائن کب تخلیق ہوئی، اس حوالے سے تضادات کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ رام کی پیدائش اور رامائن کے لکھنے میں سینکڑوں سال کا فرق ہے اس لیے اس میں لکھے گئے واقعات میں بھی تضادات کا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔
رام شاید ایودھیا میں پیدا ہی نہ ہوئے ہوں اور ان کی جائے پیدائش ایودھیا سے سینکڑوں میل دور کہیں ہوئی ہو۔
میجر جنرل ڈیوڈ جے ایف نیوال کی تصنیف The Highlands of India جو 1882 میں لندن سے چھپی، اس میں ایک بالکل مختلف کہانی لکھی گئی ہے، جو انہوں نے جنرل جیمز ایبٹ کے حوالے سے لکھی ہے۔
یہ وہی جیمز ایبٹ ہیں جن کے نام پر پاکستان کا شہر ایبٹ آباد ہے۔ اس کہانی کے مطابق رام ایودھیا میں نہیں بلکہ پھروالہ میں پیدا ہوئے تھے۔
پھروالہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی حدود میں واقع ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم قلعہ ہے، جو گکھڑوں سے منسوب ہے اور جس کے ذریعے گکھڑوں نے پوٹھوہار پر ساڑھے سات سو سال حکمرانی کی۔
پاکستان کا محکمہ آثار قدیمہ آج کل اس قلعے کے باہر موجود مسجد مائی قمرو اور گکھڑ سردار سلطان مقرب خان کے مقبرے کی بحالی کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ محکمہ آرکیالوجی کے ماہرین کا بھی یہ کہنا ہے کہ یہ قلعہ ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے اور جب بحالی کے اگلے مرحلے میں قلعے میں کھدائیاں کی جائیں گی تب یہ معلوم ہو سکے گا کہ یہ قلعہ کتنا پرانا ہے اور قلعے کے اندر کتنے زمانے دفن ہیں۔
میجر جنرل ڈیوڈ جے ایف نیوال لکھتے ہیں کہ ’رام چندر ہزارہ کا باشندہ تھا۔ ہزارہ کا قدیم نام ’اودھیا‘ یا ’اودھے‘ تھا اور اس کے شمالی پہاڑی علاقوں کو ’اودھیانہ‘ کہا جاتا تھا، جسے رامائن کے مصنف والمیکی نے لکھتے ہوئے نظر انداز کر دیا۔ اس کا خیال ہو گا کہ رام جہاں پیدا ہوئے یہ آج کا ایودھیا ہے۔
لاہور کا قدیم نام بھی ’اودھی نگری‘ تھا، اس نام سے ضلع جہلم میں بھی ایک شہر موجود ہے۔ رام چندر سورج بن راجپوتوں کی آٹھویں پشت سے ہیں، جو دوسری قبل مسیح تک حکمران رہے۔ اودھے پور کے راجپوتوں کا تعلق نوشیروان بادشاہ سے ہے، جس نے ایران پر543 ق م میں حکومت کی۔
ٹوڈ کے مطابق راٹھور راجپوت ایرانی نسل ہیں، جو گھوڑے کو ’اسوا‘ کہتے ہیں جبکہ یونانی ’اسوا‘ خدا کو کہتے ہیں۔ شاید دونوں الفاظ کا ماخذ ایک ہی ہے۔ اسی طرح رام اسوا اور مصریوں کا راعمسیس ایک ہی ہیں، جن کے سکے سندھ ساگر دو آب میں آج بھی ملتے ہیں۔
یہ شواہد اہم ہیں اور ان پر غور ہونا چاہیے۔ گنگا اور اتر کھنڈ کے ارد گرد پائی جانے والی مذہبی کہانیوں کو بھی اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
پاکستان میں ہندو مت کے آثار پر تحقیق کرنے والے ہندو محقق ہارون سرب دیال کے مطابق رام اور سیتا اپنے بن باس کے دنوں میں اسلام آباد کے گاؤں سید پور میں مقیم رہے تھے اور اسی نسبت سے اس کا قدیم نام ’رام کنڈ‘ تھا، جہاں تقسیم سے پہلے ہندوؤں کا سالانہ میلہ بھی لگتا تھا، جس میں ہزاروں یاتری شریک ہوتے تھے۔
پوٹھوہار میں ہندوؤں کے تین متبرک تیرتھ ہیں راج کٹاس، رام کنڈ اور ٹلہ جوگیاں۔ رام کنڈ کے علاوہ پوٹھوہار میں رام چندر سے منسوب ایک تاریخی قلعہ رام کوٹ بھی ہے، جو میر پور اور ڈھڈیال کے درمیان منگلا ڈیم کے پانیوں میں کھڑا ہے۔
اس قلعے میں ایک مندر بھی ہے جس میں موجود شیولنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے قدیم ترین ہے۔
پھروالہ جہاں سے رام چندر کی پیدائش منسوب کی گئی ہے، وہاں سے رام کوٹ قلعہ کا پہاڑی فاصلہ زیادہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہی پہاڑی سلسلہ ہے جو جہلم سے ہزارہ تک پھیلا ہوا ہے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)