تحریک عدم اعتماد: تمام نظریں قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس پر مرکوز

ویب ڈیسک

اسلام آباد : وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اتوار کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر پیر کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو اس پر ووٹنگ 4 اپریل کو ہو گی، ان کا اشارہ تھا کہ حکومت اس عمل میں مزید تاخیر کر سکتی ہے

قواعد کے تحت جس دن سے قرارداد پیش کی جاتی ہے، اس پر ’3 روز سے پہلے یا 7 روز بعد ووٹ نہیں دیا جاسکتا‘

وزیر کے ریمارکس سے پتا چلتا ہے کہ جب بھی اسپیکر اس کو پیش کرنے کی اجازت دیں گے تو حکومت قرارداد پر ووٹنگ کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت لے گی

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے میں مزید تاخیر کی صورت میں قومی اسمبلی کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی کے حکمراں اتحاد سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ کے 342 رکنی ایوان زیریں میں حکومت کے ارکان کی تعداد اب کم ہو کر 178 ہو گئی ہے جب کہ اپوزیشن کو اب 163 ایم این ایز کی حمایت حاصل ہے۔

مسلم لیگ (ق)، بلوچستان عوامی پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، تین بڑے حکومتی اتحادی جن میں 17 اراکین قومی اسمبلی ہیں، انہوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس طرف ہیں، یہ جماعتیں اب بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں جماعتوں سے مذاکرات کر رہی ہیں

اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے ایک درجن سے زائد منحرف ایم این ایز پہلے ہی حکومتی پالیسیوں پر اپنی تنقید کے ساتھ کھل کر سامنے آچکے ہیں، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے ارکان کے طور پر نااہل ہونے کی قیمت پر بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کر سکتے ہیں۔

اسپیکر نے آئینی طور پر لازمی 14 روز کی مدت معیاد ختم ہونے کے تین روز بعد جمعہ کو اپوزیشن کا طلب کردہ اجلاس بلایا تھا اور پارلیمانی روایت کے مطابق ہنگو سے پی ٹی آئی کے مرحوم ایم این اے خیال زمان کے لیے فاتحہ خوانی کے بعد پیر تک ملتوی کردیا تھا جبکہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی قرارداد پیش نہیں ہونے دی تھی۔

اجلاس کے بعد اسپیکر پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے اپوزیشن رہنماؤں نے الزام لگایا کہ اسپیکر پارلیمنٹ کو ’حکمران پی ٹی آئی کے رکن کی طرح چلا رہے ہیں نہ کہ ایوان کے نگران‘ کی طرح

اپوزیشن ارکان کے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر نیوز کانفرنس سے خطاب کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیا ہے

شاہ محمود قریشی کی درخواست پر اسپیکر نے فوری طور پر بل کو پیر کے ایجنڈے میں شامل کرنے کے احکامات جاری کردیے تھے۔

یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے کہ جب پی ٹی آئی کو اپنے اتحادیوں اور پارٹی کے اندر منحرفین کی حمایت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔

بل کے مسودے کے تحت جنوبی پنجاب صوبے کی قومی اسمبلی میں 56 نشستیں ہوں گی جن میں 46 جنرل نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی 119 نشستیں ہوں گی، جنوبی پنجاب کو ملک کا پانچواں صوبہ بنانا پی ٹی آئی کے انتخابی منشور میں شامل تھا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close