دنیا کے خوش حال ترین ممالک کے لوگ کیا واقعی خوش ہیں؟

عفت حسن رضوی

پاکستان میں جس عزیز کو بتایا کہ ناروے میں مقیم ہوں، عمومی ردعمل یہی ملا کہ ناروے تو دنیا کے خوش حال ترین ممالک میں ہے، دنیا میں جنت ہے، وہاں کی تو کیا ہی بات ہے۔

لوگوں کی اس عمومی رائے کی بنیاد وہ خبریں ہوتی ہیں، جو بتاتی ہیں کہ تحقیق کے مطابق فلاں ملک دیوالیہ ہونے والا ہے اور فلاں کے لوگ خوشیوں کے باغ میں جھولے ڈال رہے ہیں۔

قوموں کی کامیابی ان کی بھاری بھرکم معیشت سے ناپی جاتی ہے، کمانے والوں کی تعداد، کمائی کی رقم، ملکی اثاثے، قومی پیداوار، کُل سرمایہ، قوت خرید، امیروں کی تعداد یہ سب بڑے بنیادی سے پیمانے ہیں یہ بتانے کے لیے کہ کون سا ملک کتنا خوش حال ہے۔

لیکن مالی و پیداواری پیمانوں کے مقابلے میں سال 2012 میں بھوٹان نے اپنی قوم کی مجموعی خوشی و خوشحالی کا پیمانہ متعارف کروایا۔

جس کے بعد بھوٹان اپنی سالانہ رپورٹ میں جہاں قومی بینک کے اعداد و شمار بتاتا، وہیں اپنی قوم میں ذہنی آسودگی، نوجوانوں کی سماجی تحریکوں میں شرکت، پارک میں بیٹھے افراد کی تعداد، گھومنے پھرنے اور ملنے جلنے کی عادات، ایک دوسرے کی مدد کے لیے کھڑے ہوجانا، بچوں کی عمر اور صحت، یہاں تک کہ دفاتر میں ملازمین کا رویہ بھی قومی خوشحالی کی سالانہ رپورٹ میں شائع کرنے لگا۔

بھوٹان نے ابتدا کی تو اگلے ہی برس 2013 سے اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ عالمی خوش حالی انڈیکس ہر سال جاری کرنے لگا۔

اس کے بعد ہر سال اخبارات ہیڈ لائنز لگاتے ہیں کہ فلاں ملک دنیا کے آسودہ ترین ممالک میں پہلے نمبر پہ آیا، جہاں خوابوں کی دنیا میں سب ہنسی خوشی رہتے ہیں۔

کیا واقعی خوشی و آسودگی کے یہ انڈیکس یہ بتا پاتے ہیں کہ کس ملک میں کتنے لوگ خوش ہیں؟ اگر خوش ہیں تو خوشی کے پیمانے کیا ہیں؟

جسے روکھی سوکھی میں خوش رہنے کی عادت ہو اس کی خوشی کو کیسے ناپا جائے گا؟ وہ بنجارے جو اپنے خاندان کے ساتھ نگر نگر پھرتے ہیں اور بارش میں بھیگتی جُھگیوں میں بھی پھل پُھول رہے ہیں ان کی خوشیوں کا اندازہ کون سا میٹر لگا سکتا ہے؟

صحرا کی مٹی میں اٹے پاؤں لیے، سر پہ پانی کا گھڑا لے کر دور کی مسافت طے کرنے والی عورت اپنیے گاؤں میں کتنی پرسکون زندگی گزار رہی ہے یہ مغربی ممالک کے پُر ہنگم شہروں میں رہنے والے ریسرچرز بھلا کیسے طے کرسکتے ہیں؟

میں اس وقت ناروے میں مقیم ہوں، ناروے سمیت شمال کے تمام نارڈک ممالک دنیا کے خوش ترین ممالک میں ٹاپ پہ ہیں۔

یہاں اپنے ٹائم پہ آنے والی بس کی طرح زندگی بھی بڑی معمول کے مطابق ہے۔ ہر چار سال بعد ستمبر میں عام انتخابات ہوتے ہیں، اس کا مطلب ہے ہر چار سال بعد ستمبر میں ہی ہوں گے، نہ کوئی ضمنی انتخاب، نہ اسمبلی تحلیل کرنے کا قانونی راستہ۔

یہ تو ریاستی معاملہ ہے عام لوگوں کی زندگی میں جھانکیں تو زندگی کا ہر رخ، ہر دن بالکل وہی ہے جیسا متوقع ہے، یعنی پلان کے عین مطابق۔

ناروے میں راشن پانی، تعلیم، صحت، گھر، روزگار زندگی گزارنے کے تمام معاملات جیسے ریاست نے جس طرح طے کر رکھے ہیں، ویسے ہی چل رہے ہیں۔

کل آبادی تقریباً 50 لاکھ ہے جو وسائل کے اعتبار سے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے، یعنی بے تحاشا وسائل اور لینے والے تھوڑے۔

اوپر سے بات بے بات یہاں رہنے والوں کو سماجی فلاح کے نام پہ فنڈز ملتے ہیں، وہ خوشی الگ۔

لیکن کیا واقعی دنیا کے خوش حال ترین ملک میں سب کچھ ایسے ہی ہرا بھرا ہے جیسے اعداد و شمار بتاتے ہیں؟ کیا سچ میں یہاں سال کے 12 مہینے خوشیوں کی بہار رہتی ہے؟ جواب نفی میں ہوگا۔

نارویجین حکومت چاہے جتنی کوشش کرلے لیکن موسم سرما کی شدت کا مقابلہ کرنا تو بالآخر عوام کو ہی ہوتا ہے۔

سہولیات کے دریا بہہ رہے ہیں، خزانوں کے منہ کھلے ہیں لیکن برفانی طوفان کے موسم میں خود اصلی و نسلی نارویجین یہاں سے بھاگنے کے پلان بناتے ہیں۔

دنیا کے اس خوش حال ترین ملک میں صحت کا نظام اتنا مخدوش ہے کہ کئی اضلاع کو صرف ایک اجتماعی پبلک ہسپتال نصیب ہے، جس کے لیے شہریوں کو کئی کئی گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے۔

ایمرجنسی سروسز کا اتنا فقدان ہے کہ ایمبولینس بلانے کی کال کریں تو جواب ملتا ہے: ’ٹیکسی بلا لیں پیسے ہم دے دیں گے۔‘

ناروے قدرتی تیل اور سمندری حیات کی پیداوار سے مالا مال ہے لیکن روزمرہ استعمال کی غذائی اجناس یہاں پیدا نہیں ہوتیں، باہر سے منگوائی جاتی ہیں۔

وہ تازہ سبزیاں، دالیں، پھل اور اجناس جو بظاہر غریب، ناخوش اور پریشان حال ممالک کے لوگ تھوڑے پیسوں میں روز ہی کھا پی رہے ہیں، وہ یہاں عنقا ہیں یا بہت مہنگی۔

ملک میں بنیادی سے اعلیٰ تعلیم تک تقریباً مفت ہے لیکن اس مفت کی تعلیم میں بھی لوگوں کو تعلیمی معیار کا شکوہ رہتا ہے، یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن، امریکہ یا دیگر یورپی ممالک کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

دماغی امراض، ذہنی دباؤ، ڈپریشن کے امراض ناروے کی نوجوان آبادی میں سے نصف کو متاثر کر رہے ہیں اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔

فن لینڈ، سوئیڈن، ناروے اینٹی ڈپریشن گولیاں استعمال کرنے میں یورپ میں سرفہرست ہیں۔

اب گولیاں جو سکون دیتی ہیں، کیا اس سکون کو بھی عالمی انڈیکس ناپتا ہے؟ کیونکہ نشے میں تو بندہ خوش ہی رہتا ہے۔

اسے موسم کی سختی کا اثر ہی کہہ سکتے ہیں کہ نارویجین لوگوں کے مزاج میں خاموشی رچ بس گئی ہے، بحالت مجبوری بات کرتے ہیں ورنہ نئے دوست بنانا، گپ لگانا، گھل مل جانا ان کے بس کا نہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹے بچے بھی عجیب خاموش طبع ہیں۔

خوش باش ملکوں میں رہنے والوں کی وہ پریشانیاں جو نظر نہیں آتیں، ان کی فہرست طویل ہے، سو جب آپ پاکستان کے مزمن مسائل، دم توڑتی معیشت، مردہ جمہوریت، شکستہ نظام، بگڑتے اخلاق اور افراد کے بُرے مزاج دیکھ کر نالاں ہوتے ہیں تو تسلی رکھا کریں کہ یہ خوش حالی انڈیکس والے لوگ اتنے بھی خوش نہیں۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close