تاریخ میں پہلی بار پودوں کی گفتگو وڈیو میں ریکارڈ کرنے کا دعویٰ اور اس موضوع پر ماضی کی تحقیق

ویب ڈیسک

جاپانی سائنسدانوں نے ایک ناقابل یقین کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے پودوں کی ایک دوسرے سے ”بات چیت“ کی حقیقی فوٹیج حاصل کر لی ہے۔

جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ پودے اپنے اردگرد مادے کے ذرات خارج کر کے ایک دوسرے سے ‘بات چیت’ کرتے ہیں۔

جاپانی سائنسدانوں نے ایک ویڈیو میں دکھایا کہ کس طرح پودے فضا کے ذریعے دیے جانے والے خطرے کے سگنلز پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

محققین نے بتایا کہ مادے کی بو پر صحت مند پودوں کی جانب سے ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پودے اپنے قریب موجود ایسے پودوں سے خارج مادے کی بو کو محسوس کرتے ہیں، جن کو کیڑوں یا دیگر وجوہات کے باعث نقصان پہنچا ہوتا ہے، جس کے بعد مختلف دفاعی نظام متحرک ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پودوں کے درمیان رابطہ انہیں ماحولیاتی خطرات سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

’سائنس الرٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، پودے ہوا میں مرکبات کی ایک باریک دھند سے گھرے ہوتے ہیں، جنہیں وہ بات چیت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ مرکبات بُو کی طرح ہیں اور قریبی پودوں کو خطرے سے خبردار کرتے ہیں۔

جاپانی سائنسدانوں کی ریکارڈ کردہ ویڈیو میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ پودے ان ’فضائی الارم‘ کو کیسے وصول کرتے اور ان کا جواب دیتے ہیں۔

سائیتاما یونیورسٹی کے مالیکیولر بائیولوجسٹ ماساتسوگو ٹویوٹا کی قیادت میں سائنسدانوں کی ٹیم کی یہ اہم کامیابی جرنل ’نیچر کمیونیکیشنز‘ میں شائع ہوئی۔ ٹیم کے دیگر ممبران میں پی ایچ ڈی کے طالب علم یوری اراتانی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق تکویا اویمورا شامل تھے۔

ٹیم نے مشاہدہ کیا کہ کیڑوں یا کسی اور طرح سے نقصان زدہ پودوں کی طرف سے جاری ہونے والے غیر مستحکم نامیاتی مرکبات (VOCs) کا ایک صحیح سلامت پودا کیسے جواب دیتا ہے۔

محققین نے مطالعہ میں لکھا ہے ”پودے میکانکی طور پر یا جڑی بوٹیوں سے نقصان پانے والے پڑوسی پودوں کے ذریعہ جاری کردہ VOCs کو سمجھتے ہیں اور مختلف دفاعی ردعمل کو جنم دیتے ہیں“

اس طرح کے انٹرپلانٹ مواصلات پودوں کو ماحولیاتی خطرات سے بچاتے ہیں۔

مواصلات کو حاصل کرنے کے لیے، ان سائنسدانوں نے پتوں اور کیٹرپلرز کے کنٹینر سے منسلک ایک ایئر پمپ اور سرسوں سے متعلقہ ایک عام گھاس کے ساتھ ایک اور ڈبہ استعمال کیا۔

کیٹرپلرز کو ٹماٹر کے پودوں اور عربیڈوپسس تھالیانا کے پتوں پر چھوڑ دیا گیا، اس کے بعد محققین نے ان خطروں کے اشارے پر ایک دوسرے کیڑوں سے پاک عربیڈوپسس پلانٹ کے ردعمل کو ریکارڈ کیا۔

محققین نے ایک بائیو سینسر کا استعمال کیا، جس سے چمکدار سبز اور کیلشیم آئنوں کا پتہ چلا۔ کیلشیم سگنلنگ ایک ایسی چیز ہے، جو انسانی خلیے بھی بات چیت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

جیسا کہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے، غیر نقصان زدہ پودوں کو اپنے زخمی پڑوسیوں کے پیغامات موصول ہوئے، اور انہیں کیلشیم سگنلنگ کے ساتھ جواب دیا گیا، جو ان کے پتوں میں پھیل گیا۔

سائنسدان ٹویوٹا کا کہنا ہے ”ہم نے آخر کار اس پیچیدہ کہانی سے پردہ اٹھایا ہے کہ پودے کب، کہاں، اور کیسے اپنے خطرے سے دوچار پڑوسیوں کے ہوائی ’انتباہی پیغامات‘ کا جواب دیتے ہیں۔“

ہوا میں موجود مرکبات کا تجزیہ کرتے ہوئے، محققین نے پایا کہ Z-3-HAL اور E-2-HAL نامی دو مرکبات عربیڈوپسس میں کیلشیم کے سگنلز کو متاثر کرتے ہیں۔

محقق نے مزید کہا ”یہ ایتھریل کمیونیکیشن نیٹ ورک، جو ہماری نظر سے پوشیدہ ہے، پڑوسی پودوں کو بروقت آنے والے خطرات سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔“

ٹیم نے میموسا پڈیکا (ٹچ می ناٹ یا چھوئی موئی) پودوں کی طرف سے جاری کیلشیم سگنلز کی پیمائش کے لیے اسی طرح کی تکنیک کا استعمال کیا، جو شکاریوں سے بچنے کے لیے چھونے کے جواب میں اپنے پتوں کو تیزی سے حرکت دیتے ہیں۔

 پودوں کی گفتگو کا حیرت انگیز سوال اور ماضی میں کی گئی تحقیقات

واضح رہے کہ پودوں کی گفتگو کے حوالے سے ماہرین عرصہ دراز سے تحقیق کر رہے ہیں۔ باغبانی سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ پودوں کے ساتھ بات کرنے کا عمل ایک حقیقت ہے

باغبانی کرنے والوں میں سے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پودوں سے بات چیت کرنے سے ان کی نشو و نما بہتر ہوتی ہے، وہیں سائنسی دنیا میں اسی موضوع پر ایک بحث و تکرار ہو رہی ہے کہ کیا پودے ہماری باتیں سنتے ہیں یا وہ ہماری باتوں کا جواب بھی دیتے ہیں۔

2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق فن لینڈ کی آلٹو یونیورسٹی میں پروفیسر لارا بیلوف کا دعویٰ تھا کہ ان کے گھر کا پودا ایک ’کلک‘ کی آواز دیتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ انہوں نے اس پودے کی جڑوں کے ساتھ ایک مائیکروفون لگا دیا ہے تاکہ وہ مٹی کے اندر بہت ہی خفیف سے ’کلک‘ کی آواز کو سن سکیں۔

انہوں نے یہ ایک ایسے سوفٹ ویئر کے ذریعے ممکن بنایا، جو انہوں نے اپنی ریسرچ کے لیے خود تیار کیا، جس نے ’کلک‘ کی فریکوینسی کو اتنا کم کر دیا کہ اُس آواز کو انسان سن لیتے ہیں۔

پودوں اور پودوں کی زندگیوں کے بارے میں بہت ساری ایسی باتیں ہیں، جو ہم نہیں جانتے ہیں۔ سائنس کے اُن ماہرین کے درمیان ایک بحث ہے جو پودوں کا مطالعہ کرتے ہیں کہ پھول اور جھاڑیاں کس حد تک ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں یا دوسری جاندار چیزوں سے بات چیت کر سکتے ہیں۔

اور اگر وہ کر سکتے ہیں تو کیا یہ نباتات ذہین بھی کہے جا سکتے ہیں یا ان کی یہ صلاحیت انھیں ذہین بھی بناتی ہے؟

اس وقت سائنسی تحقیق پودوں کی پیچیدگیوں اور ان کی حیرت انگیز صلاحیتوں کے بارے میں مسلسل نئی سے نئی دریافتیں کر رہی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ پودے اس سے کچھ زیادہ پیچیدہ ہو سکتے ہیں جتنا کچھ ہم نے ان کے بارے میں فرض کیا ہوا ہے۔ جاپانی سائنسدانوں کی حالیہ تحقیق یقیناً اس ضمن میں ایک بڑی پیش رفت ثابت ہوگی

یاد رہے کہ اسرائیل میں سائنسدانوں کے ایک گروپ کی طرف سے سنہ 2019 میں کی گئی تحقیق سے پتا چلا کہ پودے جب شہد کی مکھی کی آواز سنتے ہیں تو وہ اپنے نیکٹر (امرت) میں شوگر کی مقدار میں اضافہ کر لیتے ہیں۔

پودے کیڑوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اور انھیں انعام دینے کے لیے ایسا کر سکتے ہیں، جیسے کہ وہ شہد کی مکھیوں کے لیے کرتے ہیں، جو نیکٹر حاصل کرتے وقت ان کو زرخِیز بناتی ہیں یا جرگ کرتی ہیں۔ کچھ دوسرے کیڑے کسی بھی جرگ کو جمع یا پھیلائے بغیر پودوں کا نیکٹر حاصل کرتے ہیں، جس سے پودے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔

یہ تب ہی معلوم ہوا جب محققین نے اپنے مطالعے میں پودوں کو شہد کی مکھیوں کی آوازوں یا اسی فریکیونسی پر شور سنایا، اور پھر انھوں نے نوٹ کیا کہ ان پودوں میں شوگر کی مقدار بڑھ گئی تھی۔

دیگر تحقیقات ایسے طریقوں کا ایک دوسرا پس منظر پیش کرتی ہیں جن میں آواز پودوں کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر پودے جنھیں جب کیٹرپلر کے شور کی آوازیں سنائی گئی تو ان میں حقیقی اور بھوکے کیٹرپلرز کے حملے کے لیے آنے کی نسبت ایسا کیمیائی مادہ زیادہ مقدار میں پیدا ہوا، جس سے وہ اپنے حملہ آور سے محفوظ رہ سکیں۔

اس طرح کی تحقیقات نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ کیا وہ خاص طور پر تیار کردہ آواز کا استعمال کرتے ہوئے پودوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔

آواز پودوں اور دیگر جانداروں کے درمیان باہمی فائدہ مند تعلقات کو بھی فعال کر سکتی ہے۔ بورنیو میں گوشت خور پودے نیپینتھس ہیمسلیانا سے تعلق رکھنے والے گھڑوں کی عقبی اندرونی دیوار چمگادڑوں کے الٹراساؤنڈ کے ردعمل کے لیے تیار ہوتی ہے۔

یہ چمگادڑوں کو پودوں کے گھڑوں کی طرف راغب کرتے ہے، جس میں وہ ٹھہرتے ہیں، اور یہ چمگادڑ بعد میں اپنے جسم سے ٹپکنے والے قطروں سے پودے کی زرخیزی میں بہتری پیدا کرتے ہیں۔

پودوں اور چمگادڑوں کے مابین صوتی تعلقات کی تحقیقات کرنے والے سنہ 2016 کے ایک تحقیقی پیپر میں بتایا گیا ہے کہ پودوں سے قریبی تعلق رکھنے والی نسلوں میں، جو کہ کھاد کے لیے چمگادڑوں پر انحصار نہیں کرتیں، ان میں میل جول کی ایک ہی طرح کی سطح نہیں ہوتی، جو اُڑنے والے میملز کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

یہ تمام کام اس دعوے کو مضبوط بنانے میں مدد کرتے ہیں کہ آواز پودوں کے لیے اہم ہوتی ہے۔ لیکن اس میکانیزم کے ذریعے پودے آواز کا ادراک کر سکتے ہیں یا اسے محسوس کر سکتے ہیں، یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب حاصل کرنے میں جاپانی سائنسدانوں کی حالیہ تحقیق کلیدی ثابت ہو سکتی ہے

تاہم پودوں کی بات چیت یا مواصلاتی صلاحیت پر شک کرنے والوں میں جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے ڈیوڈ رابنسن بھی شامل ہیں۔ وہ اور دوسرے لوگ ان دعوؤں پر سخت تنقید کرتے ہیں کہ پودے ذہین ہیں یا وہ ہماری طرح بات چیت کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ صوتی محرکات پر پودوں کے ردعمل پہلے سے طے شدہ اور محدود ہیں، تاہم وہ کہتے ہیں کہ ‘ان کا کسی سوچنے کے عمل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔’

پودوں میں نیوران نہیں ہوتے ہیں، یعنی وہ خلیات جو جانوروں کے دماغ میں برقی سگنل کے ذریعے معلومات منتقل کرتے ہیں۔ رابنسن کہتے ہیں کہ عام طور پر پودوں میں سوچنے کے لیے مشینری کی کمی ہوتی ہے ۔ تاہم کہا جا سکتا ہے کہ کیمیکل اجزا سگنلنگ کے ذریعے پودوں کے اندر گھومتے ہیں۔

لیکن ایڈنبرا یونیورسٹی میں پروفیسر امیریٹس، ٹونی ٹریواواز ایک مختلف نظریہ رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے انداز سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ پودوں کو ذہین سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ وہ واضح طور پر ان طریقوں سے صوتی محرکات کا جواب دیتے ہیں جو ان کی بقا کی مشکلات کو بہتر بناتے ہیں۔

وہ اسے ایک زیبرا سے تشبیہ دیتا ہے جو شیر سے خوف محسوس کرتے ہوئے بھاگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس کے بارے میں ایک ذہین ردعمل کے طور پر سوچنے میں تھوڑی دشواری ہوتی ہے جبکہ وہ پودا جو اپنے ایک پتّے کا ایک حصہ تلف کرتا ہے تاکہ کیٹرپلر کو وہاں انڈے دینے سے روک سکے۔

ٹریواواز اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ درخت مٹی میں جرثوموں کے نیٹ ورکس پر انحصار کرتے ہیں تاکہ وہ غذائی اجزا تلاش کریں۔ یہ ان انواع کے مابین رابطے کی ایک شکل ہے۔

ٹونی ٹریواواز کا کہنا ہے کہ ‘ہر زندگی ذہین ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر یہ اس معاملے میں بھی نہ ہوتا۔’ یہ یقینی طور پر سوچنے والی بات ہے۔ اس تصور کی تعریف کے مطابق کیا بقا ذہانت کا ثبوت ہے؟

اگرچہ پودے واضح طور پر بعض اقسام کے صوتی محرکات کا جواب دے سکتے ہیں اور کم از کم بعض اوقات زندگی کی مختلف اقسام کے ساتھ کیمیائی سگنلز کے ذریعے بات چیت کر سکتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ بحث کریں گے کہ یہ بات چیت کرنے جیسا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ واقعاتی، سماجی آوازوں کے مترادف جو کہ بہت سے غیر انسانی جانوروں کی انواع میں پائے جاتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close