مداخلت

امر جلیل

ارادہ تھا، ارادہ اب بھی ہے کہ میں کچھ روز تک کراچی کے قصے، کراچی کی کہانیاں لکھوں گا۔ کراچی میرا شہر نہیں، کراچی میرا ملک ہے۔ ٹھیک سنا ہے آپ نے، کراچی میرا ملک ہے، کراچی میرا وطن ہے، اس کی اپنی تہذیب ہے، تمدن ہے، ثقافت ہے۔ میرے ملک کی اپنی زبان ہے۔ بٹوارے سے پہلے میرے ملک کی زبان اردو، ہندی، سندھی، گجراتی، کچھی، مارواڑی، بلوچی اور انگریزی الفاظ پر مشتمل تھی۔ سنی سنائی بات میں آپ کو نہیں سنا رہا۔ میں اس دور میں زندہ رہا ہوں۔ یہی بولی بٹوارا ہونے تک کراچی میں بولتا رہاہوں۔ ’’توبو مبڑی کا ہے کو مارتا ہے۔‘‘ یعنی ’’تم چلاتے کیوں ہو۔‘‘ بٹوار ے سے پہلے ایسی ہوتی تھی میرے ملک کی بولی۔ میرے وطن کی بولی۔

میں آپ کو اپنے وطن کی کہانیاں سنانا چاہتا ہوں۔۔ مگر ہم جو کہنا چاہتے ہیں، کہہ نہیں سکتے۔ کسی ملک اور معاشرے میں آپ تنہا نہیں رہتے۔ ایک دنیا آباد ہوتی ہے آپ کے اطراف۔ آپ اُن کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ان کی آنکھیں اور کان کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں ہوتے۔ ان کے پیر زنجیروں میں جکڑے ہوئے نہیں ہوتے۔ وہ روسکتے ہیں، وہ ہنس سکتے ہیں ، وہ گا سکتے ہیں۔ وہ ناچ سکتے ہیں، کود سکتے ہیں۔ آپ ایک شور میں رچ بس جاتے ہیں۔ شور میں کمی بیشی آپ کی توجہ متزلزل کر دیتی ہے۔ آپ اپنا کام کاج چھوڑ کر اضطراب کا مداوا کرناچا ہتے ہیں۔ اس سے ہوتا تو کچھ خاص نہیں ہے، آپ سوال و جواب کے کٹہرے میں خود کو کھڑا کردیتے ہیں۔

میڈیا کی مشینوں نے، خاص طور پر کیمروں نے اچھے خاصے، دیکھے بھالے لوگوں کی مت مار دی ہے۔ اُن کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے متاثرین میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان صاحبان خاص طور سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ میڈیا سے روزی روٹی کمانے والے پیشہ وروں کی طرح فقرے بازی کرتے ہیں، لوگوں کو ہنسانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ نئے پرانے لطیفے گھڑ کے لے آتے ہیں۔ بھونڈا لطیفہ سنانے کے بعد خود ہی کھل کھلا کر ہنس پڑتے ہیں۔ اس وقت تک ہنستے رہتے ہیں، جب تک لوگ کھڑے ہو کر تالیاں بجانے کا سیشن شروع نہ کر دیں۔ اس سلسلہ میں مختصراً کچھ کہنا چاہتا ہوں، اور اس کے بعد کراچی کی کہانیوں کا سلسلہ جاری رکھوں گا۔ مداخلت کے لئے معافی کا طلبگار ہوں۔

ایک اکیلے عمران خان نے پورے ملک کے سیاستدانوں کو حیران اور پریشان کر دیا ہے، بلکہ زچ کر دیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی پریشانی کا ایک بنیادی سبب ہے۔ وہ سچ مچ عمران خان کو سیاستدان سمجھ رہے ہیں۔ یہی بات عمران خان کے مخالف اداروں اور اداروں کے جیدہ جیدہ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ ان لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ تائب ہونا چاہئے، جو ایک سپر اسٹار اسپورٹس مین کو کھیل کے میدانوں سے اٹھا کر لے آئے اور اسے پاکستان کی سیاست میں دھکیل دیا۔ عمران خان مخالف سیاستدانوں اور اداروں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اُن کا مقابلہ عمران خان سیاستدان سے نہیں ہے۔ ان کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ان کا مقابلہ ایک بین الاقوامی شہرت اور عزت اور احترام رکھنے والے کھلاڑی کی غیر معمولی شہرت سے ہے۔ عمران خان کو نیچا دکھانے کی کوششیں کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا مقابلہ ایک سیاستدان سے نہیں، بلکہ ایک سپر کھلاڑی سے ہے۔عمران خان سے مقابلہ کرنا ایسا ہی ہے، جیسے ارجنٹینا کے سیاستدان اور ادارے میراڈونا سے مقابلہ پر اتر آئیں۔

ہم مانیں، نامانیں، قسمت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں۔ اٹھارہ برس ورلڈ چیمپئن رہنے والے جہانگیر خان کو وہ شہرت نہیں ملی، جو شہرت عمران خان کے حصہ میں آئی۔ عمران خان دس کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں اترتے تھے۔ جہانگیر خان تن تنہا اسکواش کورٹ میں اترتے تھے۔ کرکٹ دس پندرہ ممالک میں کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ اسکواش ستر اسی ممالک میں کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ وائے قسمت! کیا کیا جائے کہ جو بین الاقوامی پذیرائی عمران خان کے حصے میں آئی، وہ شہرت اور پذیرائی جہانگیر خان کے حصے میں نہیں آئی۔ شہرت اور پذیرائی نامور کھلاڑیوں کو مل جاتی ہیں، مگر کیرزما، مقناطیسی کشش کسی کسی کھلاڑی کے حصے میں آتی ہے۔ دنیا کا کوئی سیاست دان کارزماں اور مقناطیسی کشش میں میرا ڈونا اور میسی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اگر ہندوستانی سیاستدانوں کی مت ماری جائے اور وہ ٹنڈولکر اور شاہ رخ خان سے مقابلے کی ٹھان لیں تو اُن کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ کھلاڑیوں اور سیاستدانوں کے درمیان ہمسری کی بات میں سیاست کے حوالے سے کر رہا ہوں۔

کھلاڑی ہوں یا سیاستدان، ان سب کا دائرہ عمل اپنے اپنے ہنر سے وابستہ ہوتا ہے۔ جس طرح اولمپک کھیلوں میں پہلوانوں کا مقابلہ پہلوانوں سے طے ہوتا ہے۔ پہلوانوں کو سو میٹر کی دوڑ میں اوسان بولٹ سے مقابلہ نہیں کروایا جاتا۔ برسوں سے سیاست کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والے سیاست دانوں کو یہ چھوٹی سی بات سمجھ میں آ جانی چاہیے ۔ اول تو وہ شخص یا وہ لوگ غلط تھے، جو عمران خان کو کھیل کے میدان سے اٹھا کر لے آئے تھے۔ اور دوئم یہ کہ سیاستدان سپر اسپورٹس مین کو سیاستدان جان کر ان کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ اور خدا بھلاکر ے ہمارے فاسٹ بالر کا، کہ وہ بھی سچ مچ اپنے آپ کو سیاستدان سمجھ بیٹھے ہیں۔ کوئی تو مرد مومن عمران خان کو سمجھائے کہ سیاست آپ کے بس کا روگ نہیں ہے۔ آپ سوشل ریفارمر ہیں اور وہ کام آپ سیاست میں آنے سے پہلے بھی کر رہے تھے۔ آپ اسپتال بنوائیں۔ یونیورسٹیاں بنوائیں۔ پاکستانیوں کو پڑھائیں، پاکستانیوں کو صحتمند بنائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close