پاکستان کی معروف شخصیات نے عوام سے کہا ہے کہ آٹھ فروری کو عام انتخابات میں بھرپور حصہ لیں اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ وہ پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے گھروں سے نکل کر زیادہ سے زیادہ ووٹ کاسٹ کریں۔
مشہور کامیڈین تابش ہاشمی نے اپنے آفیشل انسٹا گرام پر ویڈیو میں پاکستانی قوم کو پیغام دیا کہ اگر آپ ووٹ نہیں ڈالتے تو ملکی حالات پر آپ کا شکایت کرنا نہیں بنتا۔
ہر بار عام انتخابات سے قبل اس قسم کے پیغامات آتے ہیں اور عوام الناس کو ووٹ ڈالنے کے لیے کہتے ہیں اور کہیں بھی کیوں نہیں۔ 2008 کے انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 44 فیصد تھا جو 2013 میں بڑھ کر 55 فیصد ہوا، تاہم 2018 کے انتخابات میں یہ شرح گر کر 51 فیصد ہو گئی۔
آخر لوگ اپنے ووٹ کا استعمال کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ سب سے پہلی بات تو یہ کہ ووٹ ڈالنا نہ ڈالنا ہر شخص کی اپنی موٹیویشن پر منحصر ہے۔ اگر ایک شخص سیاست میں دلچسپی لیتا ہی نہیں تو وہ ووٹ ڈالنے نہیں جائے گا۔
اس شخص کے نزدیک ووٹ ڈالنا ضروری نہیں، لیکن اگر وہی شخص یہ سمجھے کہ ووٹ ڈالنا نہ صرف اس کا حق ہے بلکہ ایک سماجی ذمہ داری بھی ہے تو اس صورت میں وہ ضرور الیکشن کے دن ووٹ ڈالے گا۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے خیال میں ان کے ووٹ سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ ایسے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ لاکھوں افراد ووٹ ڈالیں گے اور ان کے ایک ووٹ سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ ایک ایک ووٹ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پورے نظام سے اتنا مایوس ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کا کہنا ہوتا ہے ’سلیکشن‘ میں ووٹ دینے کا فائدہ کیا۔
ووٹ جس کو بھی دیا جائے، آخر میں تو اسی نے آنا ہے، جس کے ساتھ پہلے سے ڈیل ہو چکی ہے اور الیکشن انجینیئرنگ کر کے، بیلٹ باکس بھر کے، جعلی ووٹ ڈال کر اسی کو جتوایا جائے گا جس کو جتوانا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے بھی لوگ ہیں جو پی ڈی ایم حکومت کے جانے کے بعد سے ہر محفل میں ایک ہی موضوع پر بحث کرتے رہے کہ الیکشن کب ہوں گے اور ’ہم تو ضرور ووٹ ڈالنے جائیں گے۔‘
اور جب انتخابات میں ایک ہفتہ رہ گیا ہے تو کہا کہ کس پولنگ اسٹیشن میں ہمارا ووٹ ہے اور جب معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنا ووٹ لاہور سے اسلام آباد منتقل ہی نہیں کروایا۔
اب بحث چل رہی ہے کہ کیا ہمارے ووٹ اتنے قیمتی ہیں کہ ہم لاہور جائیں اور ووٹ ڈالیں یا اگر ہم نہیں جاتے تو پھر ہمارا ووٹ فلاں پارٹی کو ڈال دیا جائے گا جس کو ہم نے ووٹ نہیں دینا۔
اگرچہ اس بار جن سے بھی ملا جاتا ہے، تو وہ کافی پرجوش ہیں کہ وہ جائیں گے اور ووٹ ضرور دیں گے۔ کل ہی ایک محفل میں بات ہو رہی تھی تو تقریباً سب ایک بات پر متفق تھے کہ ووٹ ڈالیں گے اور اس لیے نہیں کہ یہ ان کا حق ہے یا سوک ڈیوٹی ہے، بلکہ اس لیے کہ جنہوں نے جن کے حق میں بیلٹ باکس بھرنے ہیں یا جس کو جتوانے کی بات ہو چکی ہے، ان کے لیے کام مشکل بنایا جائے۔
لیکن ایک بات، جس پر سب متفق تھے، وہ یہ تھی کہ اگر اس بار کسی ایک جماعت کے حامیوں کو روکا گیا یا دھاندلی ہوئی تو پھر آئندہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ کبھی زیادہ نہیں رہے گا کیوں کہ نوجوان نسل اپنی پہلی نسل کی طرح بدظن ہو جائے گی اور وہ ووٹ دینے کے لیے نہیں نکلے گی۔
شاید یہی تو پلان ہے؟
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)