’رُل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے۔۔ جتھے وی دیکھو پی ٹی آئی اے‘
مذکورہ بالا تاریخی الفاط رکشہ ڈرائیور نواز میتلا کے ہیں۔ جو پچھلے سات برس سے میرے اپارٹمنٹ کمپلیکس کے باہر رکشہ کھڑا کرتا ہے۔ اسے موبائیل کمپنیوں کے تمام رعائیتی پیکیجز ازبر ہیں اور اس کی بدولت آس پاس کے تمام رکشہ ڈرائیورز کے پاس سیکنڈ ہینڈ اینڈورائیڈ فونز ہیں۔
جب سواری نہیں ملتی تو یا تو یہ فونز رکشہ چالکوں کے کانوں سے لگے رہتے ہیں یا پھر وہ ان پر گیمیں کھیلتے ہیں، ایک دوسرے کو خریدتے بیچتے ہیں یا پھر آج کل ان پر پی ٹی آئی کے گانے سنتے ہیں۔ ان میں سے کسی کا ووٹ بھی کراچی میں نہیں۔ زیادہ تر کا تعلق جنوبی پنجاب کی سرائیکی پٹی سے اور سوشل میڈیا کی وبا کی بدولت پی ٹی آئی سے ہے۔
میرے محلے میں دن میں دو ڈھائی بار کسی جماعتِ اسلامی، ایم کیو ایم یا پی پی پی کی لاؤڈ اسپیکر والی اعلانچی وین گذرتی ہے تو اچانک سے یاد آتا ہے کہ ارے ہاں جمعرات کو الیکشن بھی ہونے والے ہیں۔۔
پچھلے دو تین روز کے دوران تھوڑے بہت جھنڈے اور پوسٹرز بھی نظر آنے لگے ہیں۔ روایتی تام جھام، لونڈوں لپاڑوں کی موٹر سائیکل ریلیاں، نعرے بازی اور آپس میں ذومعنی فقرے بازی کا فقدان ہے۔
ہمہ وقت فارغ حالت میں کمپلیکس کے گیٹ پر آتوں جاتوں کو اسکین کرنے والے بے روزگار ادھیڑ عمر امداد قریشی کا کہنا ہے کہ ”میں اب تک ہر الیکشن میں ایم کیو ایم کا پولٹیکل ایجنٹ رہا ہوں مگر اس والے سے زیادہ ’سلیمانی الیکشن‘ آج تک نہیں دیکھے۔ کوئی رونق میلہ نہیں۔ دو ہزار اٹھارہ میں کم ازکم آخری دو ہفتوں میں لگتا تھا کہ سیاست بیاہی جا رہی ہے۔ پر آج تو یوں ہے گویا عسکری دارالامان میں لاوارث، غریب یا بیوہ بچیوں کی اجتماعی شادی ہو رہی ہو۔ بس ہاتھ پیلے کرو اور جان چھڑا کے حجت تمام کرو۔ اسی لیے میں نے اس بار پارٹی کو بھی کہہ دیا کہ میں ایسے باسی اور اکتائے ہوئے الیکشن میں پولنگ ایجنٹ بن کے ٹائم ضائع نہیں کروں گا۔ یہیں گیٹ پر بیٹھا بیٹھا تماشا دیکھوں گا۔“
ایک زمانے میں مالاباریوں کے چائے خانے اور ایرانی ریسٹورنٹس کراچی کے سیاسی مزاج کا قطب نما ہوا کرتے تھے۔ اب نہ مالاباری رہے اور نہ ہی ایرانی کیفے۔۔ اب کراچی کے ہر نکڑ پر کوئٹہ پشین کے چائے خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔
ہر محلے میں اوسطاً دو سے تین کوئٹہ ہوٹل ملیں گے جہاں انڈہ پراٹھا چائے چوبیس گھنٹے دستیاب ہے۔ فارغ البالوں اور بے روزگار لمڈوں کا جھمگھٹا شام کے بعد سے صبحِ کاذب تک یہیں ملے گا۔
اسی ہجومِ بیکراں میں چند ادھیڑ عمر خشخشی یا سفید سر بھی دور دراز جزیروں کی طرح ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ چلے ہوئے کارتوس آپس میں کیا باتیں کرتے ہوں گے، مجھے نہیں معلوم۔۔ مگر ان جزائر سے کبھی کسی قہقہے کی آواز نہیں ابھری۔
میں کبھی کبھی انہی جھمگھٹوں کے کنارے کرسی لے کر چائے سڑکنے کی دیر تلک اداکاری کرتا ہوں اور ایک اجتماعی غوغے کی ترتیب شدہ بے ترتیب سمفنی میں سے کوئی سیاسی و دانشی ساز الگ سے سننے کی ناکام کوشش کرتا ہوں۔
میرے کانوں کی تحقیقی رپورٹ یہ ہے کہ اس ہجومِ نو نسلاں کی بیشتر بھڑاس آپس کے ابے تبے میں یا پرانی نسل کی فقرے بازی کی جگہ لینے والی گالم گلوچ کے تبادلے میں نکل جاتی ہے۔
ان میں سے اکثر فلیٹوں اور چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں، جہاں زندگی ’جس کو جہاں جگہ ملی، سو گیا‘ کے اصول پر چلتی ہے۔ والدین ان سے اور یہ والدین سے تنگ ہیں۔ ان میں سے 90 فیصد خواندہ و ناخواندہ بچے کالج یا کوچنگ سینٹر کی کلاسیں لیں نہ لیں مگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اردگرد کی دنیا ناپنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔
ان کے دماغوں میں دقیق سوچ کی جگہ نہیں بچی۔ کیونکہ تنقیدی سوچ ضرورت، جستجو اور کسی ہدف کو حاصل کرنے کی للک سے پیدا ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کدھر کو جا رہے ہیں۔ اکثر کے والدین واجبی قسم کی نوکریوں یا چھوٹے موٹے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ البتہ اس ریوڑ میں آنے والے کل کے بارے میں مایوسی مشترک ہے۔۔ مگر اس دلدل سے نکلنے کا راستہ کیا ہے، کچھ نہیں معلوم۔۔
میں نے سنا ہے کہ پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب کے جی ٹی روڈ اضلاع میں ہر نوجوان اس ملک سے جانا چاہتا ہے، مگر میرے محلے کے چائے خانوں کی نوجوان بھیڑ بس ایک گول گول حیاتیاتی دائرے میں گھوم رہی ہے۔ دن میں سونے اور رات کو جاگنے اور اس کے وقفے کے درمیان کچھ تھوڑا بہت تعلیمی نصاب زہر مار کرنے یا چھوٹا موٹا کام کرنے والوں کی بھیڑ۔۔
سنہ 2015 تک یہ ریوڑ ایم کیو ایم کے پیچھے تھے۔ پھر عمران خان ان کا گڈریا بن گیا اور ان دنوں کوئی نام زیرِ بحث نہیں۔ البتہ ان میں سے کچھ نوجوان، جو یہ تو نہیں جانتے کہ میں کیا پیشہ کرتا ہوں مگر ان کے آس پاس منڈلانے کے سبب چہرہ شناس ضرور ہو گئے ہیں
زیادہ سے زیادہ یہ پوچھ لیتے ہیں کہ ’سر جی کیا ہونے جا رہا ہے؟‘ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ پہلے تم بتاؤ اس وقت تمہارے خیال میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں معلوم نہیں۔ پھر میں پوچھتا ہوں کہ اچھا پہلے کیا ہوا، وہی بتا دو۔ کہتے ہیں معلوم نہیں پر جو ہوا اچھا نہیں ہوا۔
وہ جو کہتے ہیں کہ دوستی دشمنی، نفرت محبت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور یہی سکے زندگی کا چہرہ ہیں۔ جب کسی نسل سے یہ بنیادی احساسات چھین لیے جائیں اور وہ رفتہ رفتہ آس پاس سے لاتعلق ہوتی چلی جائے تو پھر ایسا بے یقین سماج گنے کے پَھوک کی طرح ہو جاتا ہے جو وزن رکھتا ہے اور جگہ بھی گھیرتا ہے مگر رس سے خالی ہوتا ہے۔
یہ سماج ایسا نہیں تھا۔ بہت رسیلا تھا۔ اسے بڑی محنت سے زندگی سے بیزار پَھوک میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ایسے میں یہ ڈھیر کیا اور اس کا ووٹ کیا اور اس کا فیصلہ کیا؟
اور جو اس نسل کو متوجہ کرنے کے لیے ان دنوں گلا پھاڑ رہے ہیں، وہ سوائے صوتی آلودگی بڑھانے کے اور کیا کر رہے ہیں؟
بشکریہ بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)