دنیا بھر میں دیگر ممالک کے مقابلے پاکستان میں سب سے زیادہ نوجوان آبادی ذیابیطس میں مبتلا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں ذیابیطس کے پھیلاؤ سے متعلق پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ثناءاللہ گھمن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 30.8 فیصد نوجوان آبادی ذیابیطس کا شکار ہے، جو پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دوسرے نمبر پر کویت ہے، جس کی 24 فیصد آبادی ذیابیطس کا شکار ہے، جبکہ پڑوسی ممالک کی بات کریں تو بھارت میں 9.6 فیصد، ایران میں 9.1 فیصد، چین میں 10.6 فیصد اور سری لنکا میں 11.3 فیصد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے
ثناءاللہ گھمن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے مقابلے دیگر ممالک میں صورتحال کئی گنا بہتر ہے، مثال کے طور پر امریکا میں 10.7 فیصد، ترکیہ میں 14.5 فیصد، بنگلادیش میں 14.2 فیصد، سعودی عرب میں 18.7 فیصد، کینیڈا میں 7.7 فیصد آبادی ذیابیطس میں مبتلا ہیں
گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر کے کنسلٹنٹ منور حسین کے مطابق 2021 کے دوران پاکستان میں ذیابیطس پر قابو پانے کرنے کے لیے سالانہ 2 ارب 64 کروڑ ڈالرز خرچ ہوئے، اس سے ہماری معیشت اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
وزارت قومی صحت کے ڈاکٹر خواجہ مسعود احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں پھلوں اور سبزیوں کی کھپت کم ہے کیونکہ بدقسمتی سے مشروبات بنانے والی کمپنیاں ڈرنکس اور جوس کو پھلوں کے متبادل کے طور پر فروغ دے رہی ہیں، جن میں شکر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماہرین غذائیت اور ماہرینِ صحت پھلوں اور سبزیوں کو ان کی اصل شکل میں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن ان پھلوں کا مشروب بنانا صحت کے لیے نقصان دہ ہے
ذیابیطس کیا ہے اور آپ اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
ذیابیطس تاحیات ساتھ رہنے والی ایسی طبی حالت ہے، جو ہر سال لاکھوں افراد کو ہلاک کرتی ہے اور یہ کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہے۔
یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب جسم اپنے اندر موجود شکر (گلوکوز) کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا اس کی پیچیدگی کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گردے ناکارہ ہونے اور پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
ان خطرات کے باوجود ذیابیطس کا شکار فیصد لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ روز مرہ کے معمولات میں تبدیلی کئی معاملات میں بہتری لا سکتی ہے۔
ذیابیطس کی وجہ:
جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارا جسم نشاستے (کاربوہائیڈریٹس) کو شکر (گلوکوز) میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کے بعد لبلبے (پینکریاز) میں پیدا ہونے والا ہارمون انسولین ہمارے جسم کے خلیوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ توانائی کے حصول کے لیے اس شکر کو جذب کریں۔
ذیابیطس تب لاحق ہوتا ہے جب انسولین مناسب مقدار میں پیدا نہیں ہوتی یا کام نہیں کرتی، اس کی وجہ سے شکر ہمارے خون میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
ذیابیطس کی اقسام:
ذیابیطس کی کئی اقسام ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
سائنسدان یہ تو نہیں جانتے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ شاید ایسا جینیاتی اثر کی وجہ سے ہوتا ہے یا کسی وائرل انفیکشن کی وجہ سے کہ لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیے خراب ہو جاتے ہیں۔
ٹائپ 2 ذیابیطس میں لبلبہ یا تو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا یا جو بناتا ہے، وہ ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتی۔
ایسا عموماً درمیانی اور بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ مرض کم عمر کے زیادہ وزن والے افراد، سست طرزِ زندگی اپنانے والے اور کسی خاص نسل سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً جنوبی ایشیائی افراد کو بھی لاحق بھی ہو سکتا ہے۔
کچھ حاملہ خواتین کو دورانِ زچگی ذیابیطس ہو جاتا ہے جب ان کا جسم ان کے اور بچے کے لیے کافی انسولین نہیں بنا پاتا۔
مختلف مطالعوں کے مختلف اندازوں کے مطابق چھ سے 16 فیصد خواتین کو دورانِ حمل ذیابیطس ہو جاتا ہے۔ انھیں ایسے میں غذا اور ورزش کے ذریعے شوگر لیول کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے، تاکہ اسے ٹائپ ٹو انسولین میں بدلنے سے روکا جا سکے۔
اب لوگوں کو خون میں گلوکوز کی بڑھی ہوئی سطح کے بارے میں تشخیص کر کے انھیں ذیابیطس ہونے کے خطرے سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔
ذیابیطس کی علامات:
ذیابطیس کی عمومی علامات یہ ہیں: بہت زیادہ پیاس لگنا، معمول سے زیادہ پیشاب آنا (خصوصاً رات کے وقت) ، وزن کا کم ہونا، تھکاوٹ محسوس کرنا، دھندلی نظر، زخموں کا نہ بھرنا
برٹش نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق ٹائپ ون ذیابیطس کی علامات بچپن یا جوانی میں ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔
ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کا شکار افراد 40 سال سے زائد عمر کے ہوتے ہیں (جنوبی ایشائی افراد 25 سال کی عمر تک)۔ ان کے والدین یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو ذیابیطس ہوتا ہے، ان کا وزن زیادہ ہوتا ہے یا وہ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں، ان میں زیادہ تعداد جنوبی ایشیائی مالک کے لوگوں کی، چینی باشندوں کی، جزائر عرب الہند اور سیاہ فام افریقیوں کی ہے۔
ذیابیطس سے بچاؤ:
ذیابیطس کا زیادہ تر انحصار جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل پر ہوتا ہے لیکن آپ صحت مند غذا اور چست طرزِ زندگی سے اپنے خون میں شکر کو مناسب سطح پر رکھ سکتے ہیں۔
پروسیس کیے گئے میٹھے کھانوں اور مشروبات سے پرہیز اور سفید روٹی اور پاستا کی جگہ خالص آٹے کا استعمال پہلا مرحلہ ہے۔
ریفائنڈ چینی اور اناج غذائیت کے اعتبار سے کم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے وٹامن سے بھرپور حصہ نکال دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سفید آٹا، سفید روٹی، سفید چاول، سفید پاستا، بیکری کی اشیا، سوڈا والے مشروبات، مٹھائیاں اور ناشتے کے میٹھے سیریل۔
صحت مند غذاؤں میں سبزیاں، پھل، بیج، اناج شامل ہیں۔ اس میں صحت مند تیل، میوے اور اومیگا تھری والے مچھلی کے تیل بھی شامل ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ وقفے وقفے سے کھایا جائے اور بھوک مٹنے پر ہاتھ روک لیا جائے۔
جسمانی ورزش بھی خون میں شوگر کے تناسب کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ برطانیہ میں این ایچ ایس تجویز کرتا ہے کہ ہفتے مںی کم از کم ڈھائی گھنے ایروبکس کرنا یا تیز چہل قدمی یا سیڑھیاں چڑھنا مفید ہے۔
جسم کا صحت مند حد تک وزن شوگر لیول کو کم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر آپ وزن کم کرنا چاہتے ہی تو اسے آہستہ آہستہ کریں یعنی آدھا یا ایک کلو ایک ہفتے میں۔
یہ بھی اہم ہے کہ آپ تمباکو نوشی نہ کریں اور اپنے کولیسٹرول لیول کو کم رکھیں تاکہ دل کے عارضے کا خطرہ کم ہو۔
پیچیدگیاں:
خون میں شوگر کی زیادہ مقدار خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اگر خون کا جسم میں بہاؤ ٹھیک نہ ہو تو یہ ان اعضا تک نہیں پہنچ پاتا جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے اس کی وجہ سے اعصاب کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے درد اور احساس ختم ہو جاتا ہے، بینائی جا سکتی ہے اور پیروں میں انفیکشن ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ نابینا پن، گردوں کی ناکارہ ہونے، دل کے دورے، فالج اور پاؤں کٹنے کی بڑی وجہ ذیابیطس ہی ہے۔