یہ 1982 کی بات ہے جب اس وقت انیس سالہ شیو اور سولہ سالہ ہیمنت اپنا آبائی ملک گیانا چھوڑ کر اپنے مستقبل کو معاشی طور پر محفوظ بنانے کا مقصد لے کر کینیڈا چلے گئے تھے
انھوں نے اس وقت دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک (گیانا) کو پیچھے چھوڑا اور بہتر زندگی کی تلاش میں ہزاروں دیگر نوجوان شہریوں کی طرح ایک ترقی یافتہ ملک چلے گئے۔ انہوں نے ریئل اسٹیٹ اور فنانس میں اپنا کیریئر بنایا اور اپنے خاندانوں کی کفالت شروع کی
انتالیس سال کے بعد سنہ 2021 میں انہوں نے اپنے پہلے فیصلے کے برعکس راستہ اختیار کیا
شیو کی عمر اس وقت ساٹھ سال ہے اور ہیمنت کی ستاون سال کے ہیں۔ ان دونوں بھائیوں کی اپنے آبائی ملک کی جانب واپسی کی وجہ اربوں کے پیٹرو ڈالرز ہیں، جنہوں نے حالیہ برسوں میں گیانا کی معیشت کو فروغ دیا ہے۔
انھوں نے ایک ریئل اسٹیٹ کمپنی بنائی ہے، جو ملک کے دارالحکومت جارج ٹاؤن میں مہنگی جائیدادوں کی فروخت اور کرائے پر لین دین میں مہارت رکھتی ہے۔
شیو اور ہیمنت گیانا کے نئے متوسط طبقے کے دو نمائندے ہیں، جو ملک میں تیل کی تلاش کے آغاز کے بعد سے حالیہ برسوں میں ترقی یافتہ ممالک سے واپس آئے ہیں۔
سنہ 2019 کے بعد سے برطانیہ کی یہ سابق کالونی (گیانا) دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک میں تبدیل ہو گئی ہے
گیانا جنوبی امریکہ کے شمال میں سورینام اور وینزویلا کے درمیان واقع ایک ملک ہے۔ اس کی آبادی آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ گنے کی پیداوار کے لیے ابتدائی طور پر ڈچ کالونی کے طور پر اُبھرا۔ سنہ 1966 تک یہ مُلک آزاد ریاست کے طور پر سامنے نہیں آیا تھا اور اس کا نظم و نسق برطانوی راج کے زیر اثر تھا۔
سنہ 2015 میں امریکی آئل کمپنی ایگزون موبل نے ملک کے ساحل پر اقتصادی طور پر قابلِ عمل تیل کے وسیع ذخائر دریافت کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد کے سالوں میں، ایگزون موبل، ہیس اور چین کے سی این او او سی کمپنی پر مشتمل کنسورشیم نے گیانا کے ساحل سے صرف دو سو کلومیٹر دور کنویں کھودے۔
اب تک اس ملک میں تقریباً گیارہ ارب بیرل تیل کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں لیکن حالیہ اندازوں کے مطابق یہ حجم سترہ ارب بیرل تک پہنچ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ برازیل کے تمام تیل کے ذخائر سے زیادہ ہوگا، جس کا تخمینہ چودہ ارب بیرل ہے۔
سنہ 2019 تک گیانا کی معیشت زراعت، سونے اور ہیروں کی کان کنی اور لاگنگ پر مبنی تھی، تاہم تیل کی دریافت سے ہونے والی آمدنی نے ملک کی مجموعی شرح نمو یا جی ڈی پی کو نمایاں فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔
سنہ 2020 میں برازیل کے اس وقت کے وزیر خزانہ پاؤلو گوڈیز نے ملک کا موازنہ متحدہ عرب امارات کے ان شہروں میں سے ایک سے کیا تھا، جو تیل سے پیدا ہونے والی دولت کی علامت بن چکے ہے۔ گیڈیز نے کہا ”یہ خطے کا نیا دبئی ہے۔“
یہ محض ایک تبصرہ یا رائے نہیں ہیں، بلکہ اس ضمن میں سامنے آنے والے اعداد و شمار واقعی حیران کن ہیں!
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا اندازہ ہے کہ 2019 سے 2023 کے درمیان ملک کا جی ڈی پی 5.17 ارب ڈالر سے بڑھ کر 14.7 ارب ڈالر ہو گیا ہے، جو کہ لگ بھگ 184 فیصد اضافہ ہے۔
صرف سنہ 2022 میں جی ڈی پی کی شرح نمو 62 فیصد رہی ہے۔
اسی طرح، فی کس جی ڈی پی (ملک کی دولت کو رہائشیوں کی تعداد کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے) 2019 میں 6،477 امریکی ڈالر سے بڑھ کر 2022 میں 18،199 امریکی ڈالر ہو گئی ہے۔
موازنے کے لیے، یہ اعداد و شمار 2022 میں برازیل کی فی کس جی ڈی پی کے دوگنا سے زیادہ اور گوئٹے مالا کے تین گنا سے زیادہ ہیں۔
گیانا کے لیے عالمی بینک کی نمائندہ ڈیلیٹا ڈوریٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ گیانا سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے جیسے ملک نے لاٹری جیت لی ہو اور یہ زندگی میں ایک بار ملنے والا موقع ہے۔‘
تیل سے پیدا ہونے والی ترقی کے نتیجے میں ملکی معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق 2022 میں نان آئل جی ڈی پی گروتھ 11.5 فیصد رہی۔
اس کے اثرات ملک کے بڑے شہروں جیسے دارالحکومت جارج ٹاؤن میں نظر آ رہے ہیں۔
کرینوں اور تعمیراتی کارکنوں کو بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں جیسے ہسپتالوں، شاہراہوں، پُلوں اور بندرگاہوں پر کام کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، ساتھ ہی امریکہ میں قائم میریٹ اور بیسٹ ویسٹرن جیسی بین الاقوامی ہوٹلز کی چینز اس ملک میں تعمیر ہو رہی ہیں۔
نئی شاہراہوں کے ساتھ، ملک میں تعمیراتی مقامات کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے ٹریکٹروں، کھدائی کرنے والوں اور دیگر بھاری تعمیراتی سامان سے بھرے درجنوں نئے تعمیر شدہ گودام موجود ہیں۔
یہ اس معاشی ترقی کی وجہ سے تھا کہ مصری برادران نے گیانا واپس جانے کا فیصلہ کیا، اگرچہ مستقل طور پر نہیں۔
سنہ 2021 کے بعد سے دونوں اپنے نئے کاروبار کو چلانے کے لیے ٹورنٹو، کینیڈا اور جارج ٹاؤن کے مابین اکثر سفر کرتے رہتے ہیں۔
وہ وضاحت کرتے ہیں کہ تیل سے حاصل ہونے والی رقم نے اُبھرتے ہوئے متوسط طبقے اور ملک کی موجود اشرافیہ دونوں کے لئے مواقع پیدا کیے ہیں۔
مسیر کہتے ہیں ”لوگ محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسی چیز کا حصہ ہیں، جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ گیانا میں بہت سارے امیر لوگ ہیں جو ریئل اسٹیٹ میں ہیں یا جو تیل کی صنعت کی سپلائی چین میں کام کرتے ہیں۔“
شیو مصری کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ یا کینیڈا میں رہنے والے دیگر گیانا کے شہریوں کو جانتے ہیں جو تیل کی تیزی سے منافع حاصل کرنے کی امید میں گیانا میں جائیداد یا زمین میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
جب وہ گیانا پہنچتے ہیں تو وہ خود بخود نئے متوسط طبقے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
میسیر کا کہنا ہے ”بہت سے گیانا کے شہری ترقی یافتہ ممالک سے واپس آ رہے ہیں، وہ گیٹڈ کمیونٹیز میں، جدید گھروں میں اور نجی سکیورٹی کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے پاس تمام سہولتیں ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں گزارا ہے“
زیادہ دولت رکھنے والے صارفین سے نمٹنے کے عادی مسیر کا کہنا ہے کہ ملک کی اشرافیہ کے ایک حصے کو اب بھی بیرون ملک خریداری کرنے کی عادت ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب بھی ملک میں کوئی لگژری اسٹورز نہیں ہیں۔
ڈچ اور برطانیہ کی طرف سے نوآبادیات ہونے کے باوجود، ملک، کیریبین میں اپنے پڑوسیوں کی طرح، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ قریبی تجارتی اور ثقافتی تعلقات برقرار رکھتا ہے، جو صرف چار گھنٹے کی پرواز سے زیادہ دور ہے۔
مسیر کے مطابق زیادہ تر گیانا کی اشرافیہ اپنے بچوں کو امریکہ، کینیڈا یا یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتی ہے اور اپنے بچوں کے دوروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیر و سیاحت اور ان ممالک کے طرز زندگی سے لطف اندوز ہوتی ہے۔
کاروباری شخصیت کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں معیشت کی تیز رفتار ترقی نے ملک کی اشرافیہ پر توجہ مرکوز کرنے والے کاروبار کھولنے کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔
جن علاقوں میں گنے اور چاول اگائے جاتے تھے، جو کبھی ملک کے لیے دولت کا اہم ذریعہ ہوا کرتے تھے، اب جارج ٹاؤن کے مضافات میں لگژری گھروں اور گیٹڈ کمیونٹیز کو اپنی جگہ دے رہے ہیں۔
یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو ملک کو درپیش مسائل کو ختم کرنے اور معاشی تبدیلیوں کو ظاہر کرتی ہے اور کس طرح گردش کرنے والا نیا پیسہ نئی عادات اور منظر نامے پیدا کر رہا ہے۔
اس بات کے کئی اشارے موجود ہیں کہ گیانا میں تیل کی نئی دولت کتنی تیزی سے آ رہی ہے۔
ملک نے انفراسٹرکچر کے کاموں کی تعمیر کے لیے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے متعدد ممالک کی کمپنیوں کو راغب کرنا شروع کر دیا ہے جس کی ملک کو دہائیوں سے ضرورت ہے۔
سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے 2019 میں سڑکوں اور بندرگاہوں جیسے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر 187 ملین ڈالر خرچ کیے، جو ملک میں تجارتی تیل کی تلاش کا پہلا سال تھا۔
2023 تک یہ اعداد و شمار 650 ملین ڈالر تک پہنچ گئے، یعنی 247 فیصد کا اضافہ ہے۔
عالمی بینک کی ڈیلیٹا ڈوریٹی کہتی ہیں ”میں یہاں تقریبا دو سال سے رہ رہی ہوں۔ جب بھی میں ملک سے باہر جاتی ہوں تو مجھے یہ فرق نظر آتا ہے۔“
انھوں نے کہا ”بہت سے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر جاری ہے، جیسے نئی سڑکیں اور ہوٹل۔ آپ ملک میں بڑی تعداد میں کاروباری مشینوں کو آتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔“
وسائل کے بے مثال بہاؤ کے درمیان، ملک ایک عالمی تعمیراتی مقام بن چکا ہے۔
گیانا کو ان ممالک کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ٹھیکیداروں کو قرضوں کی پیشکش کر رہے ہیں۔
گیانا کے نائب وزیر برائے پبلک ورکس کے مساوی عہدے پر فائز دیودت اندر بتاتے ہیں ”ہمارے پاس یورپی بلاک، چین، انڈیا، امریکہ، کینیڈا اور برازیل کی کمپنیاں ہیں۔“
چین اس بورڈ میں اہم کھلاڑیوں میں سے ایک کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر چینی کمپنیوں کے ایک کنسورشیم نے دریائے ڈیمرارا پر ایک نیا پل تعمیر کرنے کا ٹینڈر جیت لیا۔ اس کام کی مالی اعانت بینک آف چائنا نے کی تھی۔
اس منصوبے کو ملک کی ترقی کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ پُل ایک ایسے پُل کی جگہ لے گا جو 30 سال سے زیادہ عرصے سے زیر استعمال ہے اور جس کے بہاؤ میں دن میں کئی بار رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تاکہ جہاز نیچے سے گزر سکیں۔
نئے پل میں خاصیت یہ ہو گی کہ جہازوں کو نیچے سے گزرنے کی اجازت ہو گی۔ اس منصوبے کی مالیت 260 ملین امریکی ڈالر ہے۔
گیانا حکومت کی جانب سے کنٹریکٹ کیے گئے ہوٹلوں اور متعدد ہسپتالوں کی تعمیر کے ذمہ دار بھی چینی تاجر ہیں۔
سال 2022 میں انڈیا میں ایک ٹھیکیدار نے ہائی وے کی تعمیر کے لیے 106 ملین ڈالر کا ٹینڈر جیتا تھا۔
آسٹریا نے اس ملک کی ایک کمپنی کو گیانا کی حکومت کی طرف سے ٹھیکہ دیا گیا ایک عوامی ہسپتال تعمیر کرنے کا کریڈٹ بھی پیش کیا۔ اس منصوبے کی مالیت 161 ملین امریکی ڈالر ہے۔
سنہ 2023 کے آخر میں، گیانا وینزویلا اور اس ملک کے مابین ایسکوئبو خطے پر طویل عرصے سے جاری تنازع کی وجہ سے بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا، جب وینزویلا کی حکومت نے اس خطے کو ضم کرنے کے لیے ریفرنڈم کرایا تھا۔
تقریبا 160،000 مربع کلومیٹر پر محیط ایسکوئبو گیانا کے علاقے کا 70فیصد ہے۔ یہ سونے، تانبے اور ہیروں جیسی معدنیات سے مالا مال خطہ ہے اور حال ہی میں وہاں تیل اور دیگر ہائیڈرو کاربن کے بڑے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں۔
ڈیوڈ ہندس گیانا کے شہری ہیں اور تقریباً چار دہائیوں سے امریکہ اور اپنے آبائی ملک کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں۔
وہ ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی (امریکہ) میں پروفیسر ہیں اور کیریبین اور افریقی تارکین وطن کے معاملات پر مہارت رکھتے ہیں۔
ہندس بتاتے ہیں کہ گیانا ایک ایسا ملک ہے، جس میں بہت شدید سماجی اور طبقاتی تقسیم ہے۔
سترہویں اور انیسویں صدی کے درمیان، ملک کو یورپی اقوام نے نوآبادیات بنایا تھا جنھوں نے چینی پیدا کرنے کے لیے غلام افریقیوں کا استحصال کیا۔
1833 میں غلامی کے خاتمے کے ساتھ، برطانیہ نے مشرقی ایشیا سے تارکین وطن کو، خاص طور پر اس خطے سے جو اب انڈیا ہے، نیز چینی اور پرتگالی شہریوں کو گیانا لانا شروع کیا۔
حکومت کے مطابق یہاں کی 39.8 فیصد آبادی انڈین نژاد ہے، 30 فیصد افریقی نسل کے ہیں، 10.5 فیصد مقامی ہیں، اور 0.5 فیصد چینی، ڈچ اور پرتگالی ہیں۔
ہندس کا کہنا ہے کہ اس وقت کی برطانوی سلطنت کی جانب سے اپنائی گئی پالیسیوں نے ایشیائی اور پرتگالی نژاد تارکین وطن کو تجارت اور ملک کی نوزائیدہ صنعت جیسے شعبوں میں کام کرنے کی ترغیب دی تھی۔
وہ کہتے ہیں ”انڈین اور پرتگالی افراد کی اولادیں گیانا کی معاشی اشرافیہ کا اب حصہ بن چُکی ہیں۔“
دوسری طرف، ہنڈس بتاتے ہیں کہ غلام افریقیوں کی اولادوں نے کم ہنر مند ملازمتوں یا سول سروس میں کام کرنا شروع کر دیا۔
بزنس مین رچرڈ سنگھ جارج ٹاؤن میں درآمد شدہ گاڑیاں فروخت کرتے ہیں۔
انھیں بچپن سے ہی کاروں اور ٹیکنالوجی کا شوق رہا ہے۔ یہ استعمال شدہ کاریں فروخت کرتے ہیں، جو زیادہ تر جاپان جیسے ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔
ان کے مطابق تیل کے ڈالروں کے باوجود ملک کی اشرافیہ اب بھی استعمال شدہ گاڑیوں کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ نئی گاڑیاں درآمد کرنے پر ٹیکس بہت زیادہ ہے اور ملک میں اب بھی لیبر اور سپیئر پارٹس تک رسائی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ایسی گاڑیوں کی دیکھ بھال عملاً ناممکن ہو جائے گی۔
رچرڈ سنگھ نے بتایا کہ ملک میں تیل کی تلاش کے آغاز کے بعد سے ان کے گاہکوں میں تبدیلی آئی ہے۔
ان کے کاروبار میں اب صرف چھوٹے مقامی کاروباری افراد اور آزاد پیشہ ور افراد ہی نہیں آتے ہیں اور اب تیل اور گیس کی صنعت سے منسلک بڑی غیر ملکی کارپوریشنوں کی طرف سے بھی ان کے شوروم کا اکثر دورہ کیا جاتا ہے، جو اپنے ملازمین اور ایگزیکٹوز کے لیے گاڑیوں کی تلاش میں ہیں۔
رچرڈ سنگھ، جو گیانی اشرافیہ کی عادات کو جانتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ ملک میں ایک طرح کا ’نیا متوسط طبقہ‘ ابھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
رچرڈ سنگھ کہتے ہیں ”جی ہاں، ایک نیا متوسط طبقہ ہے۔ یہ گیانا کے پرانے متوسط طبقے سے بالکل اوپر ہے۔“
آمدنی میں اضافہ رچرڈ سنگھ کو اپنے ایک شوق کو آگے بڑھانے کی اجازت دیتا ہے یعنی موٹر سپورٹ۔
مثال کے طور پر گذشتہ سال مئی میں وہ فارمولا ون دیکھنے کے لیے میامی گئے تھے۔ لیکن اُن کا ماننا ہے کہ ملک کی معیشت میں تیزی ابھی عروج پر نہیں پہنچی ہے۔
رچرڈ سنگھ کہتے ہیں ”میں بہت پرامید ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ گیانا (معاشی طور پر) عروج پر پہنچنے والا ہے۔“
رچرڈ سنگھ امید بھرے لہجے میں دبئی کے ساتھ گیانا کا موازنہ کرنے پر اتفاق کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ”میں نے ہمیشہ دبئی کے بارے میں کہانیاں دیکھی ہیں۔ 90 کی دہائی میں، اگر آپ وہاں جاتے تھے، تو یہ سب ریت اور صحرا تھا، اب آپ اسے پہچان بھی نہیں پائیں گے۔“
انھوں نے کہا ”مجھے امید اور خواہش ہے کہ آج سے بیس سال بعد لوگ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے اور کہیں گے کہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ گیانا تھا۔ مجھے امید ہے کہ یہاں بھی ایسا ہی ہوگا۔“