سفید فام نسل پرستی جدید دور کی پیداوار ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر یورپی ملکوں نے ایشیا اور افریقہ میں اپنی کالونیاں بنائیں اور ان کی قوموں کو نسلی اعتبار سے کم تر بنا کر ان پر حکومت کی۔
سفید فام نسل پرستی نے اپنے سامراجی عزائم کو پورا کرنے کے لیے دوسری اقوام پر اپنی برتری کو قائم کیا۔ نسل پرستی کے خلاف جذبات نے یورپی معاشرے میں طبقاتی فرق کو ختم کر کے سب کو متحد کیا۔
امرا وغربا کے درمیان جو دوری تھی، اس کا خاتمہ کیا، جس سے معاشرے کے طاقتور اور کمزور افراد ایک ہو گئے اور یورپی سامراج کی حمایت کرنے لگے۔
ان میں یہ احساس بھی پیدا کیا کہ سفید فام اقوام میں جو توانائی اور خوبیاں ہیں، دوسری اقوام ان سے محروم ہیں۔
سفید فام نسلی نظریے نے مغربی تہذیب کو ترقی دیتے ہوئے سائنس، ٹیکنالوجی اور سماجی علوم میں اضافے کیے۔
نسلی بنیاد پر انہوں نے تجارتی سرگرمیاں کیں اور جنگیں لڑیں۔ نسل پرستی کے اس جذبے نے ایشیا اور افریقہ کی قوموں کو نسلی اعتبار سے کم تر قرار دے کر انہیں کاہل اور سست کیا۔
یورپ کے معاشرے میں نسلی تعصبات کس طرح سے روزمرہ کی زندگی میں آئے؟ امریکی معاشرے میں افریقی غلاموں کی فروخت اور ان سے محنت و مشقت کروانے کے لیے دلیل یہ تھی کہ انہیں یورپی تاجر پسماندہ معاشرے سے نکال کر جدید دنیا میں لائے ہیں جو ان کے لیے باعثِ نعمت ہے۔
ان افریقی غلاموں نے روزمرہ کی زندگی میں نسلی تعصّبات کے زخم کھائے۔ امریکہ اور کریبین جزائر میں آنے کے بعد نہ ان کی کوئی تاریخ تھی، نہ کلچر نہ شناخت۔ مسیحی مذہب کی تبدیلی نے بھی ان کو کوئی عزت نہیں دی۔ ان تعصبات نے افریقی غلاموں کی شخصیت کو بدل ڈالا۔
روزمرہ کے معمولات کا زندگی پر کیا اَثر ہوتا ہے۔
فرانسیسی مورخ Fernand Braudel جو 1985 میں وفات پا گئے تھے، نے اس کی وضاحت کی ہے کہ جب روزمرہ کی زندگی میں معمولات کو بار بار دہرایا جائے تو اس کے نتیجے میں کلچر جنم لیتا ہے۔
لہٰذا سفید فام نسل پرست دوسری اقوام سے نفرت کرتے ہیں اور ان کی تذلیل کرتے ہوئے اپنی بات چیت میں ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور لطیفوں کے ذریعے انہیں کم عقل ثابت کرتے ہیں۔
سفید فام نسل پرستی کا اس وقت مظاہرہ ہوا جب فرانس اور انگلستان میں یورپی صنعتی ترقی کو دکھانے کے لیے نمائشیں منعقد ہوئیں۔
ان نمائشوں میں بڑے بڑے سٹال لگائے گئے، جہاں نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی کے آلات رکھے گئے تھے۔ ان نمائشوں میں ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کے سٹال بھی بنائے گئے تھے۔
یہ اسٹال یورپی سٹالوں سے فاصلے پر تھے۔ ان میں کہیں کسی افریقی گاؤں کا منظر پیش کیا گیا تھا۔ کچے مکانات اور مویشیوں کے درمیان نیم برہنہ کسان نظر آتے تھے۔
کہیں کسی ایشیائی ملک کا نقشہ تھا۔ جہاں جولاہا کھڈی پر کپڑے بن رہا تھا۔ نمائش میں آنے والے پہلے یورپی ملکوں کی صنعتی ترقی کو دیکھتے تھے اور پھر اس کا مقابلہ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں سے کرتے تھے تو ان میں سفید فام نسل کے جذبات ابھر آتے تھے اور وہ اس پر فخر کرتے تھے کہ ان کے ملکوں نے کالونیوں میں اپنا اقتدار قائم کر کے وہاں کے لوگوں کو تہذیب سے روشناس کروایا ہے۔
روزمرہ کی زندگی میں نسل پرستی کے تعصبات کو ہم ہندوستان میں برطانوی حکومت کے زمانے میں دیکھتے ہیں۔ اگرچہ وہ ہندوستان پر حکومت کرتے تھے مگر لوگوں سے دور رہتے تھے۔
ان کے کلب میں ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ اپنی محفلوں میں ہندوستانیوں کو دعوت نہیں دیتے تھے۔ ان کی رہائش کینٹ اور جی۔او۔آر کالونیوں میں ہوتی تھیں۔ انگریز افسرماتحت ہندوستانیوں کے ذریعے احکامات کی تعمیل کرواتے تھے۔
جنوبی افریقہ میں اپارتھائڈ حکومت نے نسلی تعصبات کو قانونی شکل دے کر انتہا تک پہنچا دیا تھا، جس نے بالآخر مزاحمت کی تحریک شروع کی اور اپارتھائڈ حکومت کا خاتمہ کر کے نسلی تعصبات کو ختم کیا۔
امریکہ میں غلامی کے خاتمے کے باوجود نسلی تعصبات برقرار رہے، اس لیے وہاں افریقی باشندوں کی مزاحمت شروع ہوئی۔
یہ مزاحمت دو طرح کی تھی۔ ایک پراَمن اور دوسری مسلح جدوجہد، مشہور افریقی دانشور W.E.B Du Bois نے اپنی تحریروں کے ذریعے امریکی افریقیوں میں شناخت کو پیدا کیا اور اس کا تعلق برِاعظم افریقہ سے کر کے ان میں نیا جذبہ اور شعور پیدا کیا۔
افریقی دانشوروں کی دلیل یہ تھی کہ امریکہ کی معاشی ترقی میں ان کی محنت اور مشقت شامل ہے، اس لیے یہ ان کا حق ہے کہ وہ اس ملک میں رہتے ہوئے مساوی مقام اور حقوق حاصل کریں۔
جب پرامن طریقے سے ان کو حقوق نہیں ملے اور روزمرہ کی زندگی میں ان کے ساتھ تعصب کا برتاؤ کیا گیا، خاص طور سے ریاستی اداروں نے ان کے حقوق کو پامال کر کے روزمرہ کی زندگی میں انہیں بے عزت کیا، تو اس کے نتیجے میں مسلح جدوجہد کی تحریکیں ابھریں اور امریکہ کے شہر، ریاستی اداروں اور افریقی نوجوانوں کے تصادم کی وجہ سے جنگوں کا مرکز ہو گئے۔
ان مزاحمتوں کی وجہ سے امریکہ کی ریاستوں کو ان کے حقوق دینا پڑے لیکن نسلی تعصبات ختم نہیں ہوئے ہیں اور روزمرہ کی زندگی میں بھی ان کا اظہار ہوتا ہے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)