ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف کسانوں کی مدد کرنے والی خواتین فائر فائٹرز کی کہانی

ویب ڈیسک

ایلی مارلینا کے دو سالہ بچے کو کھانسی آنے لگی، جب 2019 کے موسم گرما میں انڈونیشیا کے کیتاپانگ ضلع میں جنگل کی آگ پھیل گئی۔ چھوٹا بچہ جلد ہی سانس کی نالی کے شدید انفیکشن سے بیمار ہو گیا اور بعد میں اسے نمونیا کی تشخیص ہوئی۔ ایک قریبی گاؤں میں بیس منٹ کی دوری پر تینتالیس سالہ میمون نے ایک پریشان کن صورتحال کو برداشت کیا، جب اس کی ماں پھیپھڑوں کی بیماری کے ساتھ ہسپتال میں پڑی تھی۔

میمون نے 2019 کے جنگل کی آگ کے بحران کے بارے میں بتاتی ہیں، ”آسمان سرخ تھا۔ میں سورج نہیں دیکھ سکی، موسم ناقابل یقین حد تک گرم تھا۔ یہ صبح بدتر تھی – کہرا غیر معمولی تھا۔“

جیسے ہی دھوئیں نے کیتاپانگ کو گہرا کر دیا، میمون نے گھر میں اپنے بچوں پر نظر رکھی، جو تین ہفتوں تک تعلیم کے حق سے محروم رہے کیونکہ فضائی آلودگی نے مقامی اسکولوں کو بند کر دیا۔

جنگل کی آگ انڈونیشیا کے لوگوں، خاص طور پر پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی صحت کے لیے اہم خطرات کا باعث بنتی ہے، جو خاص طور پر 2019 کے کہرے کے اثرات کا شکار ہوئے۔

کسانوں نے طویل عرصے سے کاشت کاری میں آگ کا استعمال کیا ہے، اور صحت اور ماحولیات کے لیے خطرات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے کیونکہ جنگلات کی کٹائی اور نکاسی آب نے پیٹ کے علاقوں کو خاص طور پر آگ کے لیے حساس بنا دیا ہے۔

2022 میں، بورنیو کے انڈونیشیائی حصے سے تعلق رکھنے والی خواتین نے جنگل کی خطرناک آگ اور ان کی وجوہات سے لڑنے کے لیے ایک یونٹ ’پاور آف ماما‘ تشکیل دیا۔

سیتی نورینی بھی ’پاور آف ماما‘ کا حصہ ہیں۔ جنگل کے قریب واقع اپنے لکڑی سے بنے گھر میں بیٹھیں سیتی نورینی گھر میں چاول اور باریک پسے ہوئے پان کے پتے سے تیارکردہ سنسکرین کا استعمال کرتے ہوئے بتاتی ہیں ”اگر ہم اس کا استعمال نہ کریں تو تیز چلچلاتی دھوپ ہمیں جلا کر رکھ دے۔“

نورینی انڈونیشیا کے علاقے بورنیو کے ضلع کیتاپانگ، مغربی کلیمانٹن میں ایک رضاکار فائر فائٹر کے طور پر اپنی پیٹرولنگ کی ڈیوٹی کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔ نورینی ’پاور آف ماما‘ گروہ کی کوآرڈینیٹر ہیں، جو کہ سنہ 2022 میں مقامی برادری کی صحت، معاش اور ماحولیات کے تحفظ میں مدد کے لیے خواتین پر مشتمل ایک فائر فائٹنگ گروہ ہے۔

نورینی کہتی ہیں ”ہم ہر سال آگ لگنے کے واقعات کا تجربہ کرتے ہیں، دھواں اتنا خراب ہو گیا ہے کہ رہائشیوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا اور اسکولوں کو بھی بند کرنا پڑا۔ بہت سے بچے سانس کی تکلیف کا شکار ہوئے۔“

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین اور بچے پہلے ہی غیر متناسب طور پر محیطی فضائی آلودگی کا شکار ہیں، جس کی بنیادی وجہ انڈونیشیا کے دیہی علاقوں میں ایندھن کو گھر کے اندر جلانا ہے۔

گھر سے باہر، پانچ سال سے کم عمر کے بچے جنگل کی آگ کے دھوئیں کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ سانس لیتے ہیں اور ابھی تک ان میں مضبوط مدافعتی قوت پیدا نہیں ہوئی ہوتی ہے۔

یونیسیف، اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ نے اندازہ لگایا ہے کہ 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 2.4 ملین بچے 2019 میں کہرے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے انڈونیشیا کے علاقوں میں رہتے تھے۔

نورینی کے گاؤں پیماتانگ گاڈونگ سے متصل جنگل انڈونیشیا کی سب سے بڑی اورنگوتان آبادی کا گھر ہے۔ یہ ایک نباتی گل کی زمین والا علاقہ بھی ہے، جو اسے ایک اہم کاربن جذب کرنے والا بناتا ہے۔ جب کہ یہ عالمی سطح زمین کا صرف تین فیصد ہیں، پیٹ لینڈز یعنی نباتی زمین والے علاقے دنیا کے تمام جنگلات سے دوگنا زیادہ کاربن ذخیرہ کرتے ہیں۔

گذشتہ صدی کے دوران جنگلات اور زرعی زمین کی بڑھتی ہوئی مانگ دنیا بھر میں پیٹ لینڈز کو کم یا ختم کرنے کی وجہ بنی ہے

انڈونیشیا دنیا میں سب سے زیادہ کاربن والے پیٹ لینڈز کا گھر ہے۔ ان پٹ لینڈز کی اکثریت دنیا کو پام تیل کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے شدید تنزلی کا شکار ہو چکی ہے۔

جب نباتی زمین کے یہ علاقے خشک ہو جاتے ہیں تو ان میں آگ لگنے کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے، جس سے جنگلی حیات اور ارد گرد میں بسنے والے انسانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

پیماتانگ گاڈونگ کا علاقہ دو پیٹ لینڈز یا نباتی زمین کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ ہر سال خشک موسم کے دوران یہاں کے باسیوں کو ایک خطرہ لاحق رہتا ہے۔

نیورینی کہتی ہیں کہ ’آگ اکثر ان خشک علاقوں سے شروع ہوتی ہے اور زمین کے اس حصے تک پہنچ جاتی ہے، جہاں پانی ہوتا ہے۔“

جب 2022 میں پاور آف ماما نامی فائر فائٹنگ گروپ قائم ہوا تو 44 خواتین رضاکارانہ طور پر اس کا حصہ تھیں، مگر اب اس گروپ میں چھ مقامی دیہاتوں سے 92 خواتین ہیں، جن کی عمریں 19 سے 60 کے درمیان ہیں۔ زیادہ تر اراکین گھریلو خواتین ہیں، لیکن حال ہی میں کام کرنے والی کم عمر خواتین نے بھی اس یونٹ میں شمولیت اختیار کی ہے۔

نورینی صبح سویرے سے جاگ رہی ہیں، چاول پکا رہی ہیں اور گھر کو صاف کر رہی ہیں۔ صبح کے ساڑھے نو بجے وہ چھ دیگر خواتین کے ساتھ اپنی موٹر سائیکل پر جنگل کی طرف جاتی ہیں۔ انہوں نے لمبی آستینوں والا بھورے رنگ کا حجاب پہن رکھا ہے، جس پر ’دی پاور آف ماما‘ کے الفاظ درج ہیں اور انہوں نے گھٹنوں تک ربڑ کے جوتے پہن رکھے ہیں۔

یہ برسات کا موسم ہے، اس لیے فی الحال آگ کم لگی ہے۔ خواتین پیٹرولنگ ڈیوٹی پر ہیں اور پھلیاں، کیلے، مرچیں، گوبھی اور کدو اگانے والے کسانوں سے ملنے جاتی ہیں۔ یہ کسان فصل کاٹنے کے بعد باقیات وغیرہ تلف کرنے کے لیے زمینوں کو آگ لگاتے ہیں تاکہ کاشت کے لیے زمین کو دوبارہ صاف کیا جا سکے۔ مقامی حکومت کی طرف سے کاشتکاری کے اس طریقہ کار کی اجازت ہے، جب تک کہ یہ بیس ہزار مربع میٹر سے کم رقبے پر پھیلے ہوئے علاقے میں ہو۔

پاور آف ماما فائر فائٹرز گاؤں کے حکام کے ساتھ مل کر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کون سے کسان اپنی زمین کو آگ لگا کر صاف کر رہے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ جلتی ہوئی زمین کو کنٹرول میں رکھیں۔

پاور آف ماما کسانوں کو زمینوں کو جلا کر صاف کرنے کے بجائے، نائٹروجن کو مٹی میں واپس لانے اور فصل کی نشوونما کو بڑھانے کے لیے نامیاتی کھاد کے استعمال کی ترغیب دے کر ان کی زمین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں بھی مدد کر رہی ہیں۔

نورینی کہتی ہیں ”یہ طرز عمل نہ صرف ہمارے ماحول کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرتے ہوئے کاشتکاری کی طویل مدت کو بھی یقینی بناتے ہیں۔“

پاور آف ماما کی سب سے بڑی عمر کی رکن ساٹھ سالہ جوریا کہتی ہیں ”ہم خواتین کسانوں کو اپنی زمین کا انتظام کرنے کی ترغیب دے رہی ہیں، جیسے قدیم زمانے میں لوگ کرتے تھے۔ اس کا مقصد نباتی زمین یا گیلی زمین کو تیزابیت سے بچانا ہے۔“ انھوں نے مزید کہا کہ کسان اپنی فصلوں کو کھاد ڈالنے کے لیے شکر، انناس، کیکڑے کے پیسٹ، چوکر اور ٹیپیو کا کا مرکب استعمال کر سکتے ہیں۔

یہاں خشک موسم کے دوران فصلوں کو آگ لگنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ’ماما فائر فائٹرز‘ ہر روز گشت کرتی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ممکنہ آگ کا جلد سے جلد پتہ چل جائے۔ انہیں اکثر گاؤں کے ایسے لوگوں سے رپورٹس موصول ہوتی ہیں، جو ماحول کے تحفظ کے لیے ماما گروپ کے کام پر یقین رکھتے ہیں۔ بعض اوقات یہ رپورٹس انہیں ان علاقوں کی طرف لے جاتی ہیں، جہاں تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔

جب یہ خواتین آگ کا سامنا کرتی ہیں تو نورینی دوسری خواتین کو آگ بجھانے کے لیے پائیپوں کو اٹھانے اور پانی پمپ کرنے کی ہدایت کرتی ہیں۔ دوپہر کے وقت، خواتین نورینی کے گھر پر سادہ لنچ کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ سہہ پہر ساڑھے تین بجے تک گشت جاری رکھتی ہیں۔

’پاور آف ماما گروہ‘ انڈونیشین نیچر ری ہیبلیٹیشن انیشیشن فاؤنڈیشن (یاری) نے قائم کیا تھا، جو ایک غیر منافع بخش بین الاقوامی جانوروں کے بچاؤ کا ادارہ ہے۔

یاری کی ڈائریکٹر کرمیلے لانو شانچیز نے بورنیو کی پہلی تمام خواتین پر مشتمل فائر فائٹنگ اسکواڈ بنانے کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ایک مقامی کسان نے زمین کے ایک حصے کو صاف کرنے کے لیے آگ لگا دی تھی اور یاری کے عملے نے اس شخص کو آگ بجھانے کے لیے کہا تھا لیکن اس نے اس بات کو نظر انداز کر دیا۔ ایسا ہی اس وقت بھی ہوا تھا، جب انہوں نے مقامی حکام سے مداخلت کرنے کو کہا تھا۔

وہ بتاتی ہیں ”لیکن پھر ہم نے اس کی بیوی کو بتایا، جس نے بعد میں اسے آگ بجھانے کو کہا اور اس نے آگ بجھا دی۔“ وہ کہتی ہیں کہ اس تجربے نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ خواتین آگ سے بچاؤ کے حوالے سے کمیونٹیز کے رویوں کو تبدیل کرنے میں مدد کر سکتی ہیں

اس تصادم کے بعد، سانچیز اور ساتھیوں نے آگ کے ساتھ خطے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک جدید طریقہ پر کام شروع کیا۔

سانچیز نے کہا، ”ہم نے کبھی بھی خواتین کو آگ سے بچاؤ کی حکمت عملی میں شامل نہیں کیا تھا۔ ہم کمیونٹی کی خواتین کو فائر پروٹیکشن یونٹ میں کیسے شامل کر سکتے ہیں؟ اور اسی وقت ہم ان دو حیرت انگیز خواتین کو جانتے تھے — ابو میمون اور ابو سیتی۔

سیتی، پماتانگ گڈونگ گاؤں میں رہتی ہیں اور وہ کھیتی باڑی کرنا چاہتی تھیں، لیکن ان کے پاس سرمائے تک رسائی نہیں تھی، اس لیے انہوں نے قریبی سونے کی کان میں باورچی کے طور پر نوکری کر لی۔

اس نے بتایا، "پماتانگ گڈونگ گاؤں کے آس پاس کے ماحول کو تباہ ہوتے دیکھ کر میرا دل وہاں پر دہل گیا۔۔“

سیٹی نے کسانوں کو کھاد کے طور پر استعمال کرنے کے لیے کمپوسٹ بنانے کی اپنی پہل سے آغاز کیا۔ 2022 میں، وہ میمون کے ساتھ پاور آف ماما کی بانی رکن بن گئیں۔ آج تنظیم کیتاپانگ کے تین ذیلی اضلاع کے کئی گاؤں تک پھیل چکی ہے۔

یاری پاور آف ماما کی خواتین اراکین کو آگ سے لڑنے، ڈرون چلانے اور پیٹ لینڈ میں لگنے والی آگ کے خطرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے عوامی مذاکرے پیش کرنے کی تربیت دیتی ہیں۔

خواتین مینگروو کی بحالی میں بھی مدد کرتی ہیں اور بچوں کو زمین کے محتاط انتظام کی اہمیت پر بات کرتی ہیں جو ان کے ارد گرد بدلتی رہتی ہے۔

سانچیز کا کہنا ہے کہ پیٹ لینڈ کے علاقے میں رضاکار فائر فائٹر بننا آسان نہیں ہے۔ پیٹ لینڈ میں لگنے والی آگ کا پتہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ وہ زیر زمین واقع ہوتی ہیں اور اس لیے ہمیشہ فوری طور پر نظر نہیں آتی۔

سانچیز کا کہنا ہے کہ اس میں صحت کے سنگین خطرات بھی ہیں کیونکہ خواتین کو بہت زیادہ دھوئیں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ جلتی ہوئی جگہ میں پھنس سکتی ہیں۔ ان خطرات سے بچنے کے لیے خواتین حفاظتی ماسک پہنتی ہیں اور انھیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ پانی کے اوض کو محفوظ فاصلے سے کیسے چھڑکنا ہے۔

نورینی کہتی ہیں کہ آج تک کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم کچھ خواتین کو چوٹیں ضرور آئی ہیں، خاص طور پر جب وہ کچے علاقوں میں گاڑی چلاتے ہوئے اپنی موٹر سائیکلوں سے گری تھیں۔

سانچیز کہتی ہیں ”برسات کا موسم اپنے چیلنجوں کا ایک مجموعہ لاتا ہے: پاور آف ماما کی اراکین کشتیوں میں گشت کرتے ہوئے، سیلاب زدہ علاقوں کو عبور کرتی ہیں۔“

خواتین کے حقوق اور مغربی کلیمانتن سے ماحولیاتی کارکن لیلیٰ خیرنور کہتی ہیں کہ خواتین اپنی کمیونٹی میں ماحولیاتی بیداری کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں

لیلیٰ کہتی ہیں ”خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین کمیونٹی کی سطح پر پروگراموں کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین بنیادی فائدہ اٹھانے والی ہیں، اس لیے کسی پروگرام کی ملکیت کا احساس ہی ان کی شمولیت کی بنیاد ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ایک پروگرام کو اچھی طرح سے چلانے کا مطلب اپنی مدد کرنا ہے۔“

نورینی کا کہنا ہے کہ جب خواتین پاور آف ماما میں شامل ہوئیں تو ابتدا میں ان کا مذاق اڑایا گیا۔ ”یونیفارم پہننے اور گشت میں شامل ہونے پر ہمارا مذاق اڑایا گیا۔ گاؤں کے مرد ہمارا مذاق اڑاتے اور ایسی باتیں کہتے کہ عورتیں گشت کر رہی ہیں؟ واقعی؟ عورتیں کیوں گشت کریں گی، کیا آپ کے پاس کرنے کے لیے کوئی اور بہتر کام نہیں ہے؟“

جوریا کو بھی ایک ناخوشگوار تجربہ یاد ہے۔ گذشتہ برس آگ بجھانے کی کوشش میں ایک کسان نے اس پر انناس چوری کرنے کا جھوٹا الزام لگایا۔ اس بات سے پریشان ہو کر وہ کھیت چھوڑ کر چلی گئیں۔ تاہم، جب آگ اسی علاقے میں دوبارہ واپس آئی تو گاؤں والوں نے جوریا کو مدد کے لیے پکارا۔ وہ کہتی ہیں ”میں جب پانی پمپ کرنے والی مشین لے کر اس کے کھیت میں گئی تو اسے شرم محسوس ہوئی۔“

سانچیز کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو ماما گروہ کا مذاق اڑاتے تھے، اب انہیں گاؤں کی محفلوں میں مدعو کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ”رویے کو بدلنا مشکل ہے، لیکن گاؤں کی سطح پر چھوٹی تبدیلیاں ایک اچھی شروعات ہیں۔“

وہ کہتی ہیں ”ایک طویل عرصے تک خواتین کو نظر انداز کیا جاتا تھا، لیکن اب سب کو احساس ہے کہ وہ معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔“

ذکریا، قریبی سنگائی بیسر گاؤں کے مالیاتی امور کے سربراہ ہیں۔ وہ ماما گروپ کو ’مقامی ہیرو اور کمیونٹی کے اہم کردار‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گاؤں کے حکام کے ساتھ ماما کے قریبی تعاون کی وجہ سے پچھلے سال گاؤں میں کوئی آگ نہیں لگی تھی۔

نومبر 2023 میں پاور آف ماماز کو مقامی کمیونٹیز کے لیے صاف ہوا کو یقینی بنانے میں ان کے کام کے لیے انڈونیشیا کا کلین ایئر چیمپئن شپ ایوارڈ 2023 ملا۔

نورینی کہتی ہیں کہ ’پاور آف ماما‘ کے ساتھ ان کی شمولیت نے انہیں فائر فائٹنگ سے زیادہ کچھ سکھایا ہے۔ ”میں نے ماحولیات، جانوروں کی حفاظت اور ایسی چیزوں کا مقابلہ کرنے کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے، جو جنگل یا دریا کے ماحولیاتی نظام میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ وہ چیزیں جو ہم نے اسکول میں سیکھی ہیں، لیکن اس بار یہ بہت زیادہ تفصیلی ہے۔ میری ایک پانچ سالہ بیٹی ہے اور اب میں اسے جانوروں اور فطرت کی دیکھ بھال کے بارے میں سکھا رہی ہوں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close