لاکھوں پرندوں کی ہجرت کا راز اور معدومیت کا خطرہ۔۔

ویب ڈیسک

اس فیچر میں ہم اس بات سے پردہ اٹھائیں گے کہ لاکھوں پرندوں کی ہجرت کا راز کیا ہے اور یہ کہ ہر سال ہزاروں پرندے گم ہوئے بغیر کیسے ہجرت کر کے پاکستان پہنچتے ہیں؟ لیکن اس سے پہلے ایک بری خبر، جس کے مطابق حال ہی میں اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ہجرت کرنے والے انواع معدومیت کے خطرے کا شکار ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا کے سب سے غیر محفوظ ہجرت کرنے والے پرندے اور جانور معدوم ہونے کے خطرے پر ہیں۔

سبز کچھوے سے لے کر قمری (پرندے) تک، بام مچھلی سے لے کر افریقی پینگوئین تک ہجرت کرنے والے جانور دنیا کے ایک بہترین سیاح ہوتے ہیں لیکن دہائیوں کے استحصال نے ان کو معدوم ہونے کی دہلیز پر کھڑا کر دیا ہے۔

ایک ہزار سے زائد مختلف قسم کے جانوروں پر تحقیق کرنے کے بعد محقیقین نے اندازہ لگایا ہے کہ ہر پانچ میں سے ایک نوع کا دنیا سے ختم ہونے کا خدشہ ہے جبکہ کچھ جانوروں کے لیے صورتحال اس سے بھی زیادہ بری ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق یہ تنزلی جانوروں کے بےتحاشہ شکار، موسمیاتی تبدیلی، شہروں کی توسیع جیسی انسانی سرگرمیوں کے باعث ممکن ہوئی۔

لاکھوں پرندوں کی ہجرت کا راز

کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ ہر سال کیوں لاکھوں پرندے سردیاں شروع ہوتے ہی برفانی علاقوں سے میدانی خطوں کی طرف پرواز شروع کر دیتے ہیں اور پھر جیسے ہی موسم بدلنا شروع ہوتا ہے، تو ان میں سے وہ خوش قسمت پرندے واپسی کی اڑان بھر لیتے ہیں جو شکاریوں کا نشانہ بننے سے بچ جاتے ہیں۔

اس کا ایک سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ وہ خوراک کی تلاش کے لیے ہزاروں میل کی پرواز کرتے ہیں۔ اپنے منتخب ٹھکانوں پر پہنچنے کے لیے انہیں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے پرندے پاکستان بھی آتے ہیں اور وہ دریاؤں اور جوہڑوں کے کنارے ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ ان مسافر پرندوں میں کونج بھی شامل ہوتی ہے جو پاکستان کی کئی علاقائی زبانوں کے لوگ گیتوں کا خاص موضوع بھی ہے۔

طویل عرصے تک ماہرین یہی قیاس کرتے رہے کہ سائبیریا اور دوسرے برف پوش علاقوں سے پرندے موسمِ سرما کے آغاز پر خوراک کی تلاش میں ہجرت کرتے ہیں، خاص طور پر اپنے ان بچوں کو پالنے کے لیے سردیوں میں جن کی خوراک کا حصول مشکل ہو جاتا ہے، وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر نسبتاً معتدل میدانی علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور جب موسم گرم ہونے لگتا ہے تو نئے بچے پیدا کرنے کے لیے اپنے آبائی وطن کی جانب پر پھیلا دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب ہزاروں میل کی کٹھن اور تھکا دینے والی پرواز کے بعد انہیں خوراک مل جاتی ہے تو پھر وہ چند مہینوں کے بعد واپس کیوں چلے جاتے ہیں اور ان جگہوں پر مستقل سکونت کیوں اختیار نہیں کر لیتے، جہاں خوراک موجود ہوتی ہے۔

اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں آج ایسے بہت سے پرندے اور جانور موجود ہیں، جن کا یہ وطن نہیں ہے۔ وہ دوسرے علاقوں سے نقلِ مکانی کر کے یہاں آئے تھے، مگر انہیں یہ علاقے اتنے بھائے کہ انہوں نے واپس جانے کی بجائے مقامی موسمی اور جغرافیائی حالات سے مطابقت پیدا کر لی اور یہی کے ہو رہے

لیکن ہزاروں برسوں کی نسل در نسل پروازوں کے باوجود مسافر پرندے اپنے لیے یہ راستہ کیوں نہیں چن رہے۔ یہ سوال بہت عرصے سے سائنسدانوں کے ذہنوں میں کلبلاتا رہا اور وہ اس بارے میں تحقیق کر رہے تھے، بالآخر وہ اس راز سے پردہ اٹحانے میں کامیاب ہو گئے۔

اس بارے میں چند سال قبل کی گئی ایک تحقیق کے حوالے سے سائنسی جریدے نیچر اکالوجی اینڈ ایولوشن میں بتایا گیا تھا کہ میدانی علاقوں میں مختلف اقسام کے پرندوں کی بہتات ہوتی ہے اور خوراک کا حصول آسان نہیں ہوتا، تاہم ہجرت کرنے والے پرندوں کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے، جب کہ برفانی موسم میں ان کے اپنے آبائی وطن میں کھانے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔

خوراک کے لیے لڑنا جھگڑنا اور زیادہ تگ و دو کرنا غالباً ہجرت کرنے والے پرندوں کے مزاج میں نہیں ہوتا، اس لیے موسم بدلنے پر وہ اپنے آبائی وطن واپسی کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس تحقیق کے شریک مصنف اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ زولوجی کے سائنسدان مارس سومول کے مطابق، مسافر پرندے سردیاں ختم ہونے پر گرم علاقوں سے اپنے وطن شمالی نصف کُرّے کی جانب اس لیے پرواز کر جاتے ہیں کیونکہ وہاں انہیں خوراک کے حاصل کرنے کے لیے مسابقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

ان برفانی اور چٹانی علاقوں میں پرندوں کی نسلیں اور ان کی تعداد بھی میدانی علاقوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس لحاظ سے گرمیوں میں انہیں اپنے وطن میں خوراک کی وافر مقدار دستیاب ہوتی ہے۔

اس تحقیق سے اس قدیم سوال کا جواب بھی ملتا ہے کہ برف پوش شمالی نصف کرے میں رہنے والے پرندوں نے ہزاروں برسوں سے خانہ بدوشی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔

ہر سال ہزاروں پرندے گم ہوئے بغیر کیسے ہجرت کر کے پاکستان پہنچتے ہیں؟

 

پاکستان کے ساحلی علاقے قدرتی خوبصورتی اور تنوع کا امتزاج ہیں۔ متعدد مقامات لوگوں کے دلوں کو چھو لیتے ہیں مگر جب دنیا کے مختلف حصوں سے پرندے ہجرت کرکے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں پہنچتے ہیں تو وہاں کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

قدرتی جی پی ایس یا گلوبل پوزیشننگ سسٹم سے لیس یہ پرندے ہر سال ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے پاکستان پہنچتے ہیں۔ درحقیقت ہر سال وہ لگ بھگ ایک ہی راستے سے اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔

ہر سال جب موسم سرما میں دنیا کے مختلف حصوں میں درجہ حرارت گرنے سے پانی جم کر برف کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ پرندے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ وہ یہ کیسے جانتے ہیں کہ انہیں کہاں جانا چاہیے؟

قدرتی جی پی ایس
ہجرت کے اس سالانہ سفر کے دوران یہ پرندے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔

سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے مطابق تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کرنے والے یہ پرندے جینیاتی خصوصیات اور موروثی ثقافت کا استعمال اپنے والدین یا گروپ کے بڑوں سے سیکھتے ہیں

مگر جغرافیائی نشاناتی اور مقناطیسی لہروں کا استعمال بھی اس سفر کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ راستہ بھٹکنے کا انجام خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

ان پرندوں کی حیران کن نیوی گیشن صلاحیتوں کو ابھی مکمل طور پر نہیں سمجھا جاسکا ہے، کیونکہ وہ سفر کے دوران متعدد اقسام کی حسوں کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہیں۔

ماہرِ حیوانیات ڈاکٹر مہربان بروہی کے مطابق ”یہ ہجرت گروپ کے بڑے پرندے شروع کرتے ہیں اور کم عمر پرندے ان کا پیچھا کرتے ہیں، دن میں سفر کے دوران یہ پرندے مخصوص مقامات جیسے زمین، دریا یا پہاڑوں کے ذریعے راستے کا تعین کرتے ہیں جبکہ رات کو وہ ستاروں کو استعمال کر کے آگے بڑھتے ہیں، کچھ پرندے تو دن میں سورج کی مدد بھی لیتے ہیں۔“

ایسا بھی مانا جاتا ہے کہ سونگھنے کی حس بھی پرندوں کی مخصوص اقسام جیسے پینگوئنز اور کونجوں وغیرہ کی ہجرت میں کردار ادا کرتی ہے۔

پرندے سرد ممالک میں شدید سردی کے باعث گرم مقامات کا رخ کرتے ہیں اور ایک سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرتے ہیں۔

موسم بدلنے یا افزائش نسل کے دوران بھی پرندے شمال اور جنوب کے درمیان ہجرت کرتے رہتے ہیں۔

روس، سائبریا، چین اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے پرندے پاکستان کا رخ کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک کا پرتنوع ماحول انہیں قیام کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

سندھ فاریسٹ اینڈ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے جاوید مہر کے مطابق انڈس فلائی وے کے ذریعے پاکستان کی جانب پرندوں کی ہجرت ایک ماحولیاتی ایونٹ ہے، جو صدیوں سے ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر مہربان علی بروہی کہتے ہیں کہ عموماً یہ پرندے برفانی موسم اور غذا نہ ملنے کے باعث سرد شمالی خطوں سے گرم جنوبی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

پرندوں کے دیکھنے کے شوقین ٹھٹہ کی کینجھر جھیل اور ہالیجی جھیل کا رخ کرتے ہیں، جہاں ہر سال ہجرت کرکے آنے والے پرندے ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

انڈس فلائی وے
فلائی ویز ایسے فضائی راستے ہیں، جن سے ہجرت کرنے والے پرندے گزرتے ہیں۔

ڈاکٹر مہربان علی بروہی کے مطابق دنیا بھر میں ہجرت کرنے والے پرندے سفر کے لیے 8 فضائی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان آنے والے پرندے روٹ نمبر 4 جسے گرین روٹ یا انڈس فلائی وے بھی کہا جاتا ہے، کا انتخاب کرتے ہیں، یہ راستہ قراقرم سے جنوب میں دریائے سندھ کے طاس تک پھیلا ہوا ہے۔

انڈس فلائی وے زون وسطی ایشیائی فضائی راستہ ہے جس میں بحر ہند اور آرکٹک اوشین کے درمیان کے یور ایشیائی خطے موجود ہیں، جو پرندوں کو خوراک کے حصول اور افزائش نسل کے لیے گرم موسم فراہم کرتے ہیں۔

یہ پرندے چین، روس اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک انڈس فلائی وے کو استعمال کر کے ساڑھے چار ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اگست میں پاکستان پہنچتے ہیں اور فروری میں یہاں سے واپسی کا سفر کرتے ہیں۔

جاوید مہر کے مطابق پنجاب میں راول جھیل اور سندھ میں رن آف کچھ ان پرندوں کی آمد کے مرکزی مقامات ہیں۔

پرندوں کی ہجرت پر انسانی اثرات

موسمیاتی اثرات جیسے اچانک بارش یا برفباری انسانوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں، ان پرندوں کی ہجرت پر بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

حالیہ برسوں میں پاکستان میں ہجرت کرنے آنے والے پرندوں کی اقسام میں نمایاں کمی آئی ہے۔

کلفٹن اربن فاریسٹ کے بانی مسعود لوہار کے مطابق متعدد عناصر اس کا باعث بنے ہیں۔

زراعت کے لیے زمین کے استعمال، پرندوں کے غیر قانونی شکار اور دیگر متعدد عناصر کے باعث ان پرندوں کی پاکستان ہجرت متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شکار کے ایسے طریقے استعمال ہورہے ہیں، جن کے پورے جُھنڈ کو کسی جال میں پکڑ لیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا گزشتہ سات آٹھ برس سے ہو رہا ہے، جس کے باعث بہت کم پرندے دوبارہ یہاں واپس لوٹتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close