کشتی حادثہ، موت کا یقین ہونے کے باوجود باہر جانے کا جنون کیوں؟

ویب ڈیسک

ابھی وہ پندرہ سال کا تھا کہ پیسے کمانے اور غربت مٹانے کا جنون اس کے سر پر سوار ہوا۔ اس نے زمین فروخت کر کے ایجنٹ کو پیسے دیے اور کوئٹہ، تفتان، ایران اور ترکی کے راستے یونان جا پہنچا۔ کئی سال وہاں سیٹل ہونے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکا اور وطن واپس لوٹ آیا

کچھ سال پاکستان میں گزارے، زمینداری کرتا رہا۔ کچھ عرصہ پہلے والدین نے اسے بیاہ دیا۔ ایک بار پھر مالی مشکلات نے سر اٹھایا تو اپنے بیوی بچوں کے مستقبل کی خاطر گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی لبیا ہی پہنچا تھا کہ پیچھے سے والد کی وفات ہو گئی اور وہ اپنے والد کی میت کو کندھا دینے سے بھی محروم رہا

والد کی وفات کو بمشکل دس دن ہی گزرے تھے کہ یہاں اطلاع آن پہنچی کہ لیبیا سے یونان جانے والی کشتی ڈوب گئی ہے اور وہ بھی اس کا مسافر تھا

یہ المناک کہانی ہے میاں بوٹا ولد میاں رحمت کی ہے، جن کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے گاؤں نور جمال شمالی سے ہے

نور جمال تحصیل کھاریاں کے قصبے ڈنگہ سے شمال میں پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دو جڑواں دیہات نور جمال اور راجو بھنڈ پر مشتمل ہے، جسے اجتماعی طور پر نور جمال شمالی کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ صرف سرکاری کاغذات میں دو نام ظاہر ہوتے ہیں بظاہر راجو بھنڈ کے لوگ بھی اپنے آپ کو نور جمال کا باسی ہی بتاتے ہیں

لگ بھگ بیس ہزار کی آبادی والے اس گاؤں کا شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو، جس کا کوئی فرد یورپ کے کسی ملک نہ گیا ہو یا وہاں مقیم نہ ہو، بلکہ اب تو پورے پورے گھرانے ہی انگلینڈ، اٹلی، فرانس، جرمنی، ڈنمارک، ناروے، امریکہ، کینیڈا، پرتگال اور ہالینڈ جیسے ممالک میں جا بسے ہیں

اس کا اثر اس گاؤں پر بھی نظر آتا ہے، پورا گاؤں کئی کئی کنال کی کوٹھیوں، بیٹھکوں، بڑی بڑی گاڑیوں، نیزہ بازی کے اعلٰی نسل کے گھوڑوں اور اپنی مدد آپ کے تحت ڈویلپمنٹ کی ایک مثال کے طور پر علاقے بھر میں ایک الگ شناخت رکھتا ہے

جہاں یورپ کی دولت نے اس گاؤں کو چار چاند لگائے ہیں، وہیں اس گاؤں کے درجنوں نوجوان یورپ جانے کی چاہ میں سمندر کی طلاطم خیز موجوں کی نظر بھی ہوئے، سینکڑوں ایسے ہیں، جو ایجنٹوں کے ہاتھوں لاکھوں روپے گنوا کر مقروض ہوئے بیٹھے ہیں اور سینکڑوں یورپ پہنچ کر دولت کی ریل پیل سے باقیوں کا جی للچا رہے ہیں

یونان کشتی حادثہ میں گاؤں نور جمال کے گیارہ نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اگرچہ والدین اور لواحقین کو ابھی تک امید ہے کہ ان کے پیارے شاید محفوظ ہیں اور بعض کو عزیز و اقارب نے فون کر کے یہ بتایا ہے کہ ان گیارہ میں سے پانچ کے مالٹا میں ہونے کی اطلاعات ہیں، لیکن یہ اطلاعات تاحال غیر مصدقہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں میں اس وقت جہاں سوگ کی فضا ہے، وہیں لواحقین کو یہ امید بھی ہے کہ ان کے بچے شاید محفوظ ہوں۔۔

یہ وہ دن ہیں، جب عام حالات میں گاؤں میں عید کی تیاریاں زور شور سے جاری ہوتی ہیں اور لوگ اپنے قربانی کے جانوروں کی خاطر داری میں لگے ہوتے ہیں، لیکن اس وقت گاؤں کا ہر فرد ایک دوسرے سے نظریں چرا کر اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے

گھر والوں کی قسمت سنوارنے کے لیے زندگیاں داو پر لگانے والے نوجوان
یونان کشتی حادثہ کا شکار ہونے والے ہر فرد کی اپنی کہانی ہے اور اس کہانی میں غربت، معاشرتی تقسیم اور حالات کی بہتری کے لیے جدوجہد نمایاں نظر آتی ہے۔ میاں بوٹا نے بھی اپنے ایک ذہنی طور کمزور بھائی، تین بہنوں اور بوڑھے ماں باپ کا سہارا بننے کے لیے ایک نہیں بلکہ دو بار اپنی جان داؤ پر لگائی

نور جمال سے تعلق رکھنے والے سوشل ورکر اور میاں بوٹا کے محلے دار سونی خان بتاتے ہیں ”جب میاں بوٹا نوعمر تھے تو ڈنکی لگا کر یونان گئے۔ کچھ سال وہاں کام کیا لیکن کاغذات نہ بننے کی وجہ سے مایوس ہو کر واپس لوٹے۔ پھر یہاں پر کبھی زمینداری کی تو کبھی دکانداری، لیکن کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔۔ اس لیے اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک بار پھر باہر جائیں گے اور وہاں پہنچ کر نہ صرف کمائی کریں گے بلکہ کاغذ بن جانے کے بعد اپنی بیوی کو بھی وہاں بلا لیں گے۔ اس طرح والدین اور بھائی کی زندگی بھی بہتر ہو جائے گی، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ گھر سے نکل کر لبیا پہنچے تھے کہ پیچھے سے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کے ایک ہفتے بعد یونان کشتی حادثے کی اطلاع مل گئی“

اس کشتی میں صرف میاں بوٹا ہی نور جمال سے تعلق رکھنے والے مسافر نہیں تھے بلکہ شمریز اختر ولد احمد خان بھی اپنے گھر کے بڑے بیٹا ہیں۔ گاؤں میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ زمینداری میں ناکامی کے بعد ٹائل اور سیمنٹ کے بلاک بنانے کا کام شروع کیا، لیکن گزارہ ہی چل رہا تھا۔ اس وجہ سے انہوں نے بھی باہر جانے کا فیصلہ کیا

سونی خان نے بتایا کہ اس کشتی کے ایک اور مسافر عمران حیات ولد حیات خان بھی اپنے والدین کا بڑے بیٹے تھے۔ خاندانی ناچاقیوں کے باعث والد طویل عرصے سے بیمار ہو کر بستر سے لگ چکے ہیں۔ عمران حیات نے آڑھت کا کام شروع کیا لیکن اپنے سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے اور بالآخر باہر جانے کا فیصلہ کیا۔ ایجنٹ کے ذریعے لیبیا پہنچے اور اس کشتی کا مسافر بنے جو یونان کے قریب سمندر برد ہو گئی۔ اس کے علاوہ بھی اس حادثے کا شکار ہونے والے کئی نوجوانوں کی کہانیاں بھی اس سے ملتی جلتی ہیں

نور جمال سے تعلق رکھنے والے ماسٹر اشرف اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ آج سے بیس بائیس سال قبل انہوں نے ایجنٹ کے ذریعے ڈنکی لگائی تھی۔ ایجنٹ نے ان 153 پاکستانیوں اور 38 سری لنکن نوجوانوں کو جارجیا کی بندرگاہ سے جہاز کے نچلے حصے میں بند کیا۔ سات دن کے سفر کے بعد انہیں پانچ کشتیوں میں 181 افراد کے ساتھ بٹھا کر کشتیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ کر اسپیڈ بوٹ کے پیچھے لگا دیا۔ جس نے دو گھنٹے سمندر میں چلنے کے بعد انہیں کھول دیا

ماسٹر اشرف اپنے اُس سفر کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ”اس وقت پورا دن یعنی بارہ گھنٹے موت کو انتہائی قریب سے دیکھا اور کسی لمحے بھی یہ یقین نہیں تھا کہ ہم یہاں سے بچ کر نکلیں گے۔ لیکن اس وقت نیوی نے ہمیں بچایا اور ڈی پورٹ کر دیا“

اب اتنے عرصے بعد ان کے بیٹے نے باہر جانے کی ضد کی اور ایجنٹ کو پیسے دے دیے، لیکن والد نے اپنا واقعہ بتا کر انہیں رقم واپس لینے پر راضی کیا۔ یہاں تک اپنے بچے کے پاؤں بھی پکڑے مگر کچھ ہی دنوں بعد بچے نے دوبارہ جانے کی ضد پکڑ لی اور وہ بالآخر لبیا کے راستے اٹلی پہنچ گیا

ماسٹر اشرف بتاتے ہیں ”جب بیٹا روانہ ہوا اور جب تک وہ پہنچا نہیں تھا، اس وقت اتنی ہمت نہیں تھی کہ چارپائی سے بھی اٹھ جائیں۔ رمضان کا مہینہ تھا اس لیے گھر کے تمام افراد ہمہ وقت نمازوں اور دعاؤں میں لگے رہے کہ کسی طرح وہ پہنچ جائے“

وہ کہتے ہیں ”اب جب یونان میں کشتی کو حادثہ ہوا ہے تو بچوں نے بتایا ہے کہ ان کے جہاز کے ساتھ بھی ایسا ہی حادثہ ہوا تھا۔ ان کی کشتی کو بھی شپ سائیڈ سے ٹکرائی تھی اور کشتی الٹ گئی تھی، لیکن سو افراد کو اسپیڈ بوٹس کے ذریعے نکال لیا گیا۔ بچوں نے اس وقت نہیں بتایا تھا مگر اب بتایا ہے کہ وہ بھ ایسے حادثے کا سامنا کر چکے ہیں“

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا ”جب ایک گروپ جاتا ہے اور کسی طریقے سے پہنچ جاتا ہے تو پیچھے موجود نوجوان، جن کے پاس یہاں کوئی روزگار نہیں اور ملک کے حالات بھی اچھے نہیں، تو وہ ضد کرتے ہیں اور والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ جائیں۔ میں خود اس حادثے کا شکار ہونے کے باوجود اپنے بچے کو نہیں روک سکا تو جنہوں نے ایسا کوئی حادثہ نہیں دیکھا ہوتا، وہ تو بہتری کی امید میں رسک لینے پر تیار ہو ہی جاتے ہیں“

نوجوانوں میں بیرون ملک جانے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں خاص طور پر معاشرتی اسٹیٹس میں واضح تفریق، تعلیم کی کمی اور روزگار کی عدم دستیابی تین بڑی وجوہات ہیں

گاؤں نور جمال سے ہی تعلق رکھنے والی علمی شخصیت یوسف جمالی کہتے ہیں ”جب گاوں کی آبادی دس ہزار تھی، تب بھی گاؤں میں تین پرائمری اور ایک مسجد مکتب اسکول تھے۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ان تعلیمی اداروں میں بہتری آنی چاہیے تھی، لیکن درمیان میں کئی سالوں تک ایک پرائمری اور ایک مسجد مکتب اسکول بند ہو گیا۔ طویل جدوجہد کے بعد اب لڑکیوں کا ایک ایلیمنٹری اور لڑکوں کے لیے ایک ہائی اسکول ہے، جبکہ کچھ نجی تعلیمی ادارے بھی کھل گئے ہیں۔ گاؤں میں اعلٰی تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر بچے پرائمری یا زیادہ سے زیادہ مڈل کے بعد ہی بیرون ملک جانے کی ضد کرنے لگ جاتے ہیں۔“

ان کے مطابق ”جو لوگ آج سے بیس پچیس سال پہلے بیرون ملک چلے گئے تھے، انہوں نے بھی علاقے میں سرمایہ کاری کر کے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے صرف کوٹھیاں بنانے، گاڑیاں خریدنے اور نیزہ بازی جیسے مہنگے شوق کو فروغ دیا۔ جس وجہ سے گاؤں اور علاقے کا ہر نوجوان اپنا مستقبل بیرون ملک ہی دیکھتا ہے، چاہے اس کے لیے زمین بیچے یا قرضہ لے۔“

یورپ میں تارکین وطن کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلات

یورپ تک رسائی کی کوشش طویل عرصے سے جاری ہے لیکن اب یورپی ممالک نے اپنے قوانین کو سخت کرنا شروع کر دیا ہے

یورپی ممالک نے ایسی کوششوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے جن کی مدد سے غیر قانونی تارکین وطن کو آنے سے روکا جا سکے

ایسے میں یورپ تک پہنچ جانے والے تارکین وطن ان سہولیت سے محروم رہتے ہیں جو یورپی ممالک کے عام شہریوں کو دستیاب ہوتی ہیں

ان میں سے ایسے افراد جو بڑے شہروں میں موجود ہوتے ہیں، انھیں پولیس گرفتار کر لیتی ہے اور کافی ڈی پورٹ کر دیے جاتے ہیں

زیادہ تر تارکین وطن کے مطابق یورپی حکام کا رویہ ان کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا، کاغذات اور بینک اکاوئنٹ تک کا حصول مشکل ہو جاتا ہے

ان حالات میں بہت سے تارکین وطن انتہائی کم اجرت پر کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے خواب ادھورے ہی رہ جاتے ہیں۔ ایک گمنام زندگی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور وہ اپنے ملک واپس لوٹنا بھی چاہیں تو یہ آسان نہیں ہوتا

یونان میں کشتی کے حادثے میں بچ جانے والوں کو ایتھنز کے قریب ہی مالا کاسا کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ ان کی رجسٹریشن کے بعد ان کو اپنے مقامی عزیزوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ایسے افراد جن کے یونان میں کوئی جاننے والے نہیں ہیں، ان کو ایک اور کیمپ میں منتقل کیا جا رہا ہے

تاہم ایک پاکستانی ایسے بھی تھے جو ملک واپس لوٹنا چاہتے تھے

ڈاکومینٹری فلم میکر سید محمد حسن زیدی کا کہنا ہے ”لوگوں کو تمام خطرات کا علم ہوتا ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے حالات میں بھوکے مرنے سے بہتر ہے کہ وہ ایک خطرہ مول کے کر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں“

ان کا ماننا ہے کہ حالیہ واقعے کے بعد بھی پاکستان سے یورپ جانے کے خواہشمند اس طریقے کو اپنانا نہیں چھوڑیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close