جنگوں میں ہاتھیوں کے استعمال کی تاریخ

ویب ڈیسک

یوں تو ہاتھی بھاری بھرکم، سُست، کاہل اور شریف سا جانور لگتا ہے، جو نہ تو بہت تیز بھاگ سکتا ہے، نہ کسی وار سے بچنے کے لیے فوری جھک سکتا ہے اور نہ ہی پھرتی کے ساتھ سامنے سے ہٹ سکتا ہے۔۔ لیکن پھر بھی ہاتھیوں کو زمانہِ قدیم میں اہم جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، کیونکہ اس وقت کے جنگ بازوں کا خیال تھا کہ وہ تباہی پھیلانا بخوبی جانتے تھے۔

ورلڈ ہسٹری ویب سائٹ کے مطابق انڈین خطے میں پایا جانے والا ہاتھی ایشیا میں موجود تین اہم اقسام میں سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ انتہائی طاقتور ہوتا ہے، اس لیے اس کو باقاعدہ طور پر سدھایا جاتا اور جنگ کی تربیت دی جاتی۔ اس کے اوپر بادشاہ کی سواری رکھی جاتی، جہاں بیٹھ کر وہ مختلف علاقوں کے دورے کرتے اور جنگ کے دنوں میں وہ دور سے بھی اپنی فوج کا نظارہ کر سکتے تھے۔

اس وقت جنگیں تلواروں سے یا دست بدست لڑی جاتی تھیں، جن میں گھوڑے بھی استعمال ہوتے تھے، جبکہ گولہ بارود کا استعمال ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ اس لیے ہاتھی ایک ایسا ہتھیار تھا کہ پیدل اور گھڑ سوار جنگجو اس کا سامنا نہیں کر سکتے تھے، بلکہ اکثر گھوڑے ہاتھی کو سامنے پا کر بِدک جاتے، جس سے دشمن کے لشکر کی ترتیب بگڑ جاتی اور ہاتھی کی چنگھاڑ بھی مخالف فوج کے دلوں میں خوف بٹھا دیتی۔

معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی ’جنگوں اور ہتھیاروں کا سفر تاریخ کے آئینے میں‘ میں لکھتے ہیں کہ جنگ کے لیے ہاتھیوں کا استعمال قبل از مسیح بھی ملتا ہے۔ حنی بعل ہاتھیوں کے ذریعے ہی یورپ پر حملہ آور ہوا اور ایپلپس کے پہاڑوں سے بھی ہاتھیوں کو گزارا۔

202 قبل مسیح میں جب رومیوں نے کارتھیج کا محاصرہ کیا تو حنی بعل تین سو ہاتھیوں کو میدان میں لایا تھا۔

اسی طرح انڈیا میں لڑائی کے لیے استعمال ہونے والے ہاتھیوں کی باقاعدہ تربیت کی جاتی تھی، جس کو مہاوت کنٹرول کرتا تھا۔
جنگ کے دوران بادشاہ بھی ہاتھی پر سوار رہتا، جس کے ساتھ مہاوت بھی ہوتا، اس ہاتھی کو دیکھ کر فوجوں کا حوصلہ بڑھتا اور وہ بے جگری سے لڑتیں۔

جب سامو گڑھ کے مقام پر دارا اور عالمگیر کی جنگ ہوئی تو عالمگیر نے اپنے ہاتھی کے پیروں میں زنجیریں ڈال دی تھیں تاکہ وہ بھاگ نہ سکے جبکہ دارا کے پاس بھی ہاتھی تھا، تاہم جنگ کے دوران سازش کے تحت کچھ قریبی افراد کی جانب سے اس کو کہا گیا کہ وہ گھوڑے پر آ جائیں تو انہیں نشانہ بنانا ناممکن ہو جائے گا۔ اس کے بعد جب وہ ہاتھی کے اوپر فوجیوں کو نظر نہ آیا تو وہ سمجھے کہ یا وہ بھاگ گیا ہے یا مارا گیا ہے۔ اس سے ان کا حوصلہ پست ہوا اور شکست کا باعث بنا۔

ورلڈ ہسٹری کی ویب سائٹ پر جنگی ہاتھیوں کے حوالے سے معلومات دی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ انڈیا کے تقریباً ہر حکمران نے جنگوں کے لیے ہاتھیوں کا استعمال کیا۔
ان میں موریا اور گپتا کے ادوار سے لے کر مغلوں تک کا وقت شامل ہے جبکہ مہابھارت کی قدیم تحریروں میں بھی جنگ کے لیے ہاتھیوں کے استعمال کا ذکر ملتا ہے۔

قدیم انڈیا میں جنگ کے وقت فوج کی چار تہیں ہوتی تھیں جن کو ’چتورنگا‘ کہا جاتا تھا۔ ان میں پیادہ سپاہی، گھڑسوار فوجی، ہاتھی اور رتھ گاڑیاں شامل تھیں۔ چونکہ رتھ کو گھوڑے کھینچتے تو جنگ کے دوران ان کے الٹنے، ٹوٹنے اور پھنس جانے کے امکانات زیادہ ہوتے تھے، اس لیے رتھ آہستہ آہستہ جنگوں سے دور ہوتی گئی اور ہاتھی کی اہمیت سب سے بڑھ گئی۔

انڈین حکمرانوں میں ہاتھیوں کا سب سے بڑا لشکر چندر گپت موریا (297 تا 321 ق م) کے پاس تھا، کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس نو ہزار سے زائد ہاتھی تھے۔ اسی طرح شاہ بمبیسارا (543 ق م) بھی تین ہزار تربیت یافتہ ہاتھی رکھتے تھے، جبکہ پالس کی فوج میں پچاس ہزار کے قریب ہاتھی شامل تھے۔

ہر سلطنت کا اپنا ہاتھیوں کا دستہ ہوتا تھا، جس کے لیے باقاعدہ کمانڈر بھی مقرر کیا جاتا تھا۔ موریا سلطنت میں ہاتھیوں کی دیکھ بھال کے لیے بڑی تعداد میں ملازمین بھی رکھے گئے، جو فوجی ہی ہوتے تھے ان کو بھاری تنخواہیں دی جاتھی تھیں جبکہ ہاتھیوں کو بھی فوجی ہی خیال کیا جاتا تھا۔
اس دستے کے سربراہ کا نام ’گجادیکشا‘ تھا, جن کو ’مہاپلوپتی‘ کے لقب سے بھی جانا جاتا تھا جو گھوڑے اور ہاتھی دونوں پر سواری کرنے کا ماہر تھا۔

چونکہ جنگوں میں ہاتھیوں کی بہت زیادہ اہمیت تھی، اس لیے ان کو پکڑنے کے لیے بھی خصوصی دستے بنائے جاتے تھے، جو مختلف جنگلوں میں جاتے اور مختلف طریقوں سے ہاتھیوں، خصوصاً ان کے بچوں کو پکڑ کر لاتے تھے۔ اس حوالے سے قدیم دور کی تحریروں سے بھی اس بارے میں معلومات سامنے آتی ہیں جیسا کہ کوتلیہ کی اتھاشسترا، اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ ہاتھی کے بچوں کو پکڑنے کے بعد خصوصی مراکز میں لے جایا جاتا، جہاں ان کو تربیت کے مراحل سے گزارا جاتا۔

بدھ مت کی قدیم تحریروں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ہاتھیوں کو ایسی تربیت دی جاتی تھی کہ وہ تلواروں، بھالوں اور تیروں کے بے تحاشا وار بھی برداشت کر جاتے اور کسی صورت اپنی سواری کو گرنے نہ دیتے اور اس کے حکم پر آگے بڑھتے جاتے۔ ہاتھی اپنی سونڈ، دانتوں، ٹانگوں، سر، کانوں اور یہاں تک کہ دم سے بھی جنگ کے دوران کام لیتے۔

ہاتھیوں کی اہمیت کا اندازہ شہشاہ ہرش کی سوانح عمری سے بھی ہوتا ہے، جس میں ان کے پاس موجود ہاتھیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس میں ان کے پسندیدہ ہاتھی، جس کا نام ’درپاشتا‘ تھا، کا ذکر بھی ملتا ہے جس کو بادشاہ اپنا ’بیرونی دل‘ قرار دیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہاتھی ایک چلتے ہوئے قلعے کی طرح حفاظت کرتا ہے۔

مہاربھارت کے مطابق ہاتھیوں کو زرہ بکتر پہنائی جاتی تھی جو اس کے سر سے لے کر سونڈ اور ٹانگوں تک کو ڈھانپتی جبکہ ایک ہاتھی کے اوپر سات فوجی سوار ہوتے جو تیروں، پتھروں اور دوسرے ہتھیاروں سے لیس ہوتے جو جنگ کے دوران اہم کام سرانجام دیتے، اسی طرح بادشاہ جس ہاتھی پر سوار ہوتا، اس کے اوپر فولادی جنگلہ بھی لگایا جاتا۔

اگرچہ قدیم زمانے میں ہاتھی ایک موثر جنگی ہتھیار تھے تاہم ان کے کچھ منفی اثرات بھی تھے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ تمام تر تربیت کے باوجود ہاتھی کے قدرتی مزاج پر سو فیصد قابو نہیں پایا جا سکا، جو عموماً اس وقت ظاہر ہوتا، جب وہ زیادہ زخمی ہو جاتا یا بہت زیادہ غصے میں آ جاتا۔ ایسے میں وہ اپنی فوج کو ہی کچلنا شروع کر دیتا تھا جبکہ اس کے اوپر بیٹھے بادشاہ یا کمانڈر کو لیے ایک جانب بھاگ بھی جاتا، جس سے فوجیوں کو لگتا ہے کہ کمانڈر بھاگ گیا ہے اور یوں ان کے حوصلے پست ہوتے۔

ایسا ہی ایک واقعہ سکندر اور راجہ پورس کے درمیان 326 ق م میں مشہور زمانہ جنگ میں بھی پیش آیا، جو جہلم کے کنارے پر ہوئی۔ اس کی فوج میں شامل ہاتھیوں کے لشکر سے سکندر کے فوجی خوفزدہ تھے تاہم بعدازاں انہوں نے فوجیوں کے بجائے ہاتھیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، جس پر وہ بدک گئے اور اپنے ہی فوجیوں کو کچلنا شروع کر اور جنگ کا پانسا ہی پلٹ گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close